جب امام حسینؓ کا قاتل امام زین العابدینؒ کے گھر مہمان بن کر آیا تو آپؒ نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جان کر آپ کی آنکھیں بھی نم ہو جائیں گی

2020 ,مارچ 3



شہر اور گردو نواح میں قحط کے آثار تھے.
مسافر نے جب دیکھا کۂ پیاس سے اسکی جان لبوں پر آئی چاہتی ہے اور اسکا گھوڑا بھی مزید چلنے کی طاقت نہیں رکھتا تو اس نے ایک دروازے پر دستک دے ڈالی.
ذرا سی دیر میں ایک نوجوان باهر نکلا جس کے چہرے پر چاند کا گماں گزرتا تھا . اسکی سرمگیں آنکھیں جیسے دل میں اتری جاتی تهیں.
ایک لمحے کیلئے مسافر اور نوجوان دونوں کے تاثرات کچھ عجیب سے ہوئے . لیکن دونوں ہی اپنے تاثرات ایک دوسرے سے چھپانے میں کامیاب رہے.
"
السلام علیکم"
مسافر نے گفتگو کا آغاز کیا.
نوجوان کے چہرے پر ہلکی سے مسکراہٹ ابھری.
وعلیکم السلام
، آپ مسافر معلوم ہوتے ہیں . آئیے کچھ دیر آرام کیجئے . اور کچھ کھا پی لیجئے.
مسافر اس انداز سے متاثر ہوا اور بولا
میں واقعی مسافر ہوں . اور کافی پیاس محسوس کر رہا ہوں . میرا پانی اور خوراک کا ذخیره ختم ہو چکا ہے اس لئے آپکے دروازے پر دستک دی.
نوجوان اس مسافر کو اندر لے آیا.
اپنے غلام کو مسافر کے گھوڑے کو کھلانے پلانے کی ہدایات دے کراس نے مہمان کا ہاتھ منه دهلایا ، اپنے ہاتھوں سے اسکے سامنے انواع و اقسام کے کھانے چنے اور اصرار کر کر کے اسے کھلانا شروع کئے.
جب نوجوان اس مسافر کو کوئی برتن اٹها کر پیش کرتا ، مسافر کے چہرے پر خجالت سی چھانے لگتی.
جب وه کھانا کھا چکا تو اس نے نوجوان سے جانے کی اجازت مانگی.
نوجوان اسکے لئے ایک اچھے سفر کی خواہشات کے ساتھ خود اسے باہر تک چھوڑنے آیا.
جب وه مسافر گھوڑے پر سوار ہونے لگا تو اس نے ایک تھیلا دیکھا جو اسکا نہیں تھا لیکن گھوڑے پر بندھے اسکے سامان میں شامل تھا.
اس نے اپنے میزبان کی طرف استفهامیه انداز سے دیکھا تو وه اپنی اسی خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ بولا ،
پریشان نه ہو مسافر!
اس میں تمھارے لئے کچھ خوراک ، پانی ، لباس اور کچھ نقدی ہے . سفر میں کام آئے گی . ہماری خواہش ہے کہ ہم تمہاری اس سے بھی بہتر میزبانی کر سکتے.
مسافر کا سر کسی انجانی سی شرمسار ی سے جھک گیا.
کچھ خاموشی کے بعد وه اپنے میزبان سے بولا ،
اے سجاد ! آپ شاید مجھے پہچان نہیں پائے.
نوجوان کے چہرے پر افسردہ سی مسکراہٹ آئی.
میں تمھیں اسی وقت پہچان گیا تھا جب تم پر پہلی نظر ڈالی تھی . تم ابن نعمیر ہو.
میں اپنے بابا کے قاتلوں کو آخری سانس تک نہیں بھلا سکوں گا.
لیکن تم میں اور ہم میں بہت فرق ہے .
جب ہم کربلا میں تمہارے مہمان تھے تو تم نے دکھایا کہ تم کیسی میزبانی کر سکتے ہو،
آج جب تم ہمارے مہمان تھے تو تم نے دیکھ لیا کہ ہم کیسی میزبانی کیا کرتے ہیں.
اب تم یہاں سے چلے جاؤ . کہیں ایسا نه ہو کہ میرے ضبط کا پیمانه لبریز ہو جائے اور میں فراموش کر دوں کہ تم میرے مہمان ہو.
مسافر شرمساری اور ندامت سے آنکھیں اٹھانے کے قابل نه رہا اور اپنے میزبان پر آخری نظر ڈالے بنا ہی اپنے سفر پر روانه ہو گیا.
اور مدینه کے درو دیوار علی رضی الله عنه کے پوتے اور حسین رضی الله عنه کے نور نظر کے ظرف پر عش عش کر اٹھے . گردش دوراں بھی کچھ لمحوں کیلئے حیرت سے ساکت ہو گئی کہ کربلا سے شام تک قدم قدم مصیبت اٹھانے والے علی اوسط بن حسین بن علی المعروف امام زین العابدین رحمته الله علیه نے ثابت کر دکھایا کہ..
کل جہان اندر سخیاں دے سخی جیهڑے ،
گھر آئے قاتلاں نوں شربت پلا دیندے..
حسب نسب نه تکدے ، نه شکل صورت ، خیر ہر سوالی دی جھولی پا دیندے..
(شھدائے کربلا اور اسیران _ کربلا کی استقامت پر لاکھوں سلام)

متعلقہ خبریں