سانحہ کارساز کی کو نو برس، بیت اللہ محسود نے بینظیر کو بکری کی طرح ذبح کرنے کی دھمکی دی تھی

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اکتوبر 18, 2016 | 09:59 صبح

 

کراچی(خصوصی رپورٹ)، پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم کا اعزاز پانے والی محترمہ بے نظیر بھٹو آٹھ سال کی جلاوطنی ختم کرکے اٹھارہ اکتوبر دو ہزار سات کو کراچی ائیر پورٹ پہنچیں تو ان کا فقید المثال استقبال ہوا۔عوام کا ایک جم غفیر محترمہ کے استقبال کے لئے موجود تھا، بے نظیر بھٹو کو پلان کے تحت کراچی ائیرپورٹ سے بلاول ہاﺅ س جانا تھا لیکن جیالوں کے ٹھاٹھےںمارتے ہوا سمندرنے مخ

تصرسے فاصلے کو انتہائی طویل بنا دیا۔پی پی کے جیالے ملک بھر سے سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی پر ان کا استقبال کرنے کراچی پہنچے ہوئے تھے۔ دن بھر سفر کے بعد نصف شب کے قریب بے نظیر بھٹو کا قافلہ شاہراہ فیصل پر کارساز کے مقام پر پہنچا تو ایک زور دار دھماکے ہوئے جس کے بعد جشن ماتم میں تبدیل ہوگیا۔دوبم دھماکوں نے ریلی کو خون میں نہلادیا، اس حملے میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی تو جان بچ گئی مگر انہیں اپنے سیکڑوں کارکنوں کی شہادت کا غم اٹھانا پڑا۔دھماکوں میں ایک سوتیس سے زیادہ افراد جان گنوا بیٹھے جبکہ ساڑھے چار سو کے لگ بھگ زخمی بھی ہوئے تھے۔دہشت گردی کی کارروائی میں محترمہ بے نظیر بھٹو تو محفوظ رہیں اورانہیں فوری طور پر وہاں سے ان کی رہائش گاہ بلاول ہاو¿س پہنچا دیا گیا۔خطروں میں گھری اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم کااعزاز پانے والی اس بہادر رہنما کو ستائیس دسمبر کو پھر دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ اس بار دشمن کامیاب رہا، محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کردی گئیں۔اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف نے بینظیر کو وطن واپس آنے منع کیا تھا مگر انہوں نے وطن واپسی کو موخر نہ کیا۔18اکتوبر سے پہلے طالبان سربراہ کا پیغام محترمہ تک پہنچایا گیا تھا کہ تمہیں بکری کی طرح ذبح کردیں گے۔18اکتوبر کو تو بے نظیر کی جان بچ گئی تاہم 27دسمبر کو انہیں واقعی ذبح کردیا گیا۔