میاں نواز شریف صاحب :میرے پاس وقت بہت کم رہ گیا ہے ، خدا کے لیے کچھ تو کریں ، جرمنی میں زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا خزیمہ نصیر نے ایک بار پھر رلا دینے والی اپیل کر ڈالی
تحریر: فضل حسین اعوان
| شائع نومبر 03, 2016 | 08:31 صبح

لاہور (شیر سلطان ملک) دو ہفتے قبل حسن نثار ڈاٹ پی کے پر ایک پاکستانی نوجوان خزیمہ نصیر پر گزرنے والی ایک مصیبت کا ذکر کیا گیا تھا ۔ خزیمہ نصیر روشن مستقبل کے خواب لیے ہجرت کرکے کسی نہ کسی طرح جرمنی پہنچ گیا ۔ جہاں دوران سفر حادثاتی طور پر ٹانگ پر آنیوالا زخم اس قدر بگڑ گیا کہ اسکے علاج سے یہ خوفناک حقیقت سامنے آئی کہ خزیمہ نصیر کینسر کا مریض ہے&nb
1992ء میں پیدا ہونے والے خزیمہ نصیر کی عمر ابھی 25 سال بھی نہیں اور جرمنی پہنچتے ہی انہوں نے سیاسی پناہ کی درخواست دے دی ، مگر اس سال موسم گرما میں جب خزیمہ کو اچانک بہت تیز بخار رہنے لگا تو اس کے جرمنی کے شہر زولِنگن کے ایک ہسپتال میں داخل کرائے جانے کے بعد پتہ چلا کہ وہ ہڈیوں کے کینسر کا شکار ہو چکا ہے۔ زولِنگن کے ہسپتال میں خزیمہ کا علاج قریب ایک ماہ تک ہوتا رہا تھا، جس کے بعد ڈاکٹروں نے اسے مزید بہتر علاج اور کئی طرح کی کیموتھراپی کے لیے کولون کے ایک مرکزی ہسپتال منتقل کر دیا ۔اب کولون کے اس ہسپتال میں خزیمہ کو تقریباً پونے چار ماہ ہو چکے ہیں۔ اس دوران سرطان کی رسولیوں کے خاتمے کے لیے اس کی کئی طرح کی کیموتھراپی بھی کسی کام نہ آئی اور نتیجہ یہ نکلا کہ ستمبر کے آخر میں طبی ماہرین نے اس کے کینسر کے انتہائی آخری مراحل میں پہنچ جانے کے بعد اس کا ہر قسم کا علاج بند کر دیا تھا۔
اب زولنگن کے ہسپتال میں خزیمہ کو لگ بھگ ایک ماہ سے صرف درد دور کرنے والی مختلف دوائیاں دی جاتی ہیں اور اس کی ہر طرح کی دیکھ بھال بھی کی جا رہی ہے لیکن ڈاکٹروں کے مطابق اس کی حالت مسلسل خراب ہوتی جا رہی ہے۔ وہ بہتر اور خوشحال زندگی، جس کے خوش کن خواب لیے وہ جرمنی آیا تھا، اب اس کے لیے اتنی کم پڑ چکی ہے کہ اس کے معالج ہر گزرتے دن کے باوجود اسے زندہ دیکھ کر حیران ہیں اور اسے ایک معجزہ قرار دیتے ہیں ۔
خزیمہ کے سرطان کے ناقابل علاج ہو جانے کے بعد سے ہی یہ کوششیں کی جا رہی تھیں کہ کسی نہ کسی طرح اسے پاکستان واپس لایا جائے۔ انٹرنیشنل ویب سائٹ ڈی ڈبلیو پر پہلی بار یہ خبر چھپی تو پاکستان میں حسن نثار ڈاٹ پی کے نے اسے لاکھوں لوگوں تک پہنچا دیا ۔
جسکے بعد جرمنی میں موجود درجنوں پاکستانی شہریوں نے اس جرمنی کے ہسپتال میں موت کے منتظر پڑے خزیمہ نصیر کی ہر طرح سے دیکھ بھال کی اور بھر کوشش اور جد وجہد کے بعد اسکا ایمرجنسی پاسپورٹ بھی بنوا دیا مگر افسوس اب ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ خزیمہ کی حالت اس وقت ا یسی ہے کہ اگر اسکے ساتھ ایک ڈاکٹر بھی پاکستان تک جائے تب بھی شاید وہ پاکستان تک زندہ نہ پہنچ سکے ۔یہاں تک کہ انہی پاکستان شہریوں کی کوششوں سے ایک جرمن ڈاکٹر کی یکم نومبر کو پاکستان کے لیے خزیمہ کے ساتھ ٹکٹ بھی کنفرم تھی لیکن ڈاکٹروں کے ایک بورڈ نے فیصلہ کیا کہ خزیمہ پاکستان کا سفر نہیں کر سکتا ۔اسی ہسپتال کے ذرائع نے بتایا ہے کہ خزیمہ کے انتہائی خراب اور غیر یقینی حالت میں پڑے ہونے کی وجہ سے کوئی فضائی کمپنی اسے ایک مسافر کے طور پر ساتھ لے جانے کے لیے تیار نہیں ۔
۔ آفرین ہے اس بہادر نوجوان خزیمہ نصیر پر کہ وہ اپنا علاج بند ہونے کے کئی ہفتوں کے بعد بھی وطن واپسی کے لیے اتنا پر امید ہے کہ امید کا دامن ہاتھ سے چھوڑنے پر تیار نہیں ہے اور ہسپتال کا عملہ بھی ہر طرح سے اسے پرسکون اور مطمئن رکھنے کی کوششیں کر رہا ہے۔
خزیمہ اب بار بار یہ کہتا ہے کہ اسے کسی طرح واپس پاکستان پہنچا دیا جائے اور وہ اپنی زندگی کے آخری چند روز اپنے والدین کے ساتھ گزارنا چاہتا ہے۔خزیمہ کا کہنا ہے کہ میں تابوت میں بند ہو کر واپس پاکستان نہیں جانا چاہتا میں صرف زندہ حالت میں ایک بار اپنا وطن اپنے وطن کی مٹی اور اپنے گھر والوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا ہوں ۔ اور میری پاکستان کے حکمرانوں بالخصوص میاں نواز شریف وزیر اعظم پاکستان اور تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان سے اپیل ہے میری اس چھوٹی سی خواہش کو پورا کردیں اور پی آئی اے کے ذریعے مجھے پاکستان واپس لے جانے کا بند وبست کر دیں ۔ میں ابھی مرنا نہیں چاہتا کیا پتہ اپنے وطن کی فضا میں اور گھر والوں کے درمیان یا پھر شوکت خانم ہسپتال میں مجھے زندگی اور صحت مل جائے ۔
خزیمہ ہسپتال میں اپنے بستر پر ہی تیمم کر کے اشارے سے نماز پڑھتا ہے اور دعا مانگتا ہے کہ کسی طرح اس کی پاکستان واپسی ممکن ہو جائے۔
یہ خبر پڑھنے والوں سے گزارش ہے کہ ایک انسانی زندگی بچانے کے جذبہ سے اس خبر کو اتنا شیئر کریں کہ یہ خبر شوکت خانم ہسپتال کے بانی عمران خان، وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف اور دیگر اعلیٰ حکام تک پہنچ جائے اور شاید چند گھنٹوں یا چند دنوں کے مہمان کینسر کے مریض خزیمہ نصیر کی زندگی کی آخری خواہش (وطن واپسی) پوری ہو جائے ۔