2017 ,اکتوبر 15
عورت ماں، بہن، بیوی اوربیٹی کی حیثیت سے مرد کی زندگی کو سنوارتی ہیں
کہاوت مشہور ہے کہ ہر کامیاب آدمی کے پیچھے کسی نہ کسی عورت کا کا ہاتھ ضرور ہوتا ہے
آج کے دورمیں عورت مختلف ممالک میں سربراہ مملکت بھی ہے اور سربراہ حکومت بھی۔
پاکستان میں عورت سٹیٹ بینک کی گورنر بھی رہی۔عورتیں سائنسدان بھی ہیں، ان میں سے بعض مختلف یونیورسٹیوں میں ڈین کے عہدہ پر فائز ہیں
کسی بھی قوم کی خواتین کااس قوم کی تعمیروترقی،اس کی معاشرت اورمعیشت میں بہت اہم رول ہوتا ہے۔عورت ماں، بہن، بیوی اوربیٹی کی حیثیت سے مرد کی زندگی کو سنوارتی ہے۔ ماں کی گود بچے کی سب سے پہلی درس گاہ ہوتی ہے بلکہ تیسری دنیا کے ممالک میں پچاس فیصد بچوں کی تعلیم وہی ہوتی ہے جو کچھ ان کی مائیں انہیں سکھاتی ہیں لہٰذا عورت کا کردار انسانیت کے مستقبل کے حوالے سے خصوصی طور پر بہت زیادہ اہم ہو جاتا ہے۔ عموماً کہا جاتا ہے کہ ہر بڑے آدمی کے پیچھے کسی نہ کسی عورت کا کردار بھی اہمیت کا حامل ہوتا ہے کہ اگر اس کردار کو اس بڑے آدمی سے الگ کر دیا جاتا تو شاید وہ بڑا آدمی نہ بن پاتا۔ فرانس کے ایک کامیاب حکمران نپولین بوناپاٹ کے الفاظ ہیں ”مجھے ایک اچھی ماں دے دو، میں پوری دنیا فتح کر کے دکھاو¿ں گا“۔درصل یہ ایک غیرمسلم فاتح کے ہاتھوں ماں کے کردار کا اعتراف ہے۔ ترک کے بانی اتاترک مصطفےٰ کمال کبھی اتاترک نہ بن پاتے اگر ان کے پیچھے ان کی ماں زبیدہ خاتون کا کردارنمایاں نہ ہوتا۔ برصغیر کے دو اسلامی ہیرو محمد علی جوہر اور شوکت علی جوہر کو تحریک آزادی ہند میں جوہر برادران کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان دونوں بھائیوں کو ”جوہر“ بنانے کا سہرا ان کی ماں کے سرجاتا ہے۔بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کو بابائے قوم بنانے میں ان کی بہن مادرملت فاطمہ جناح کا بھی نہایت کردار تھا۔علامہ اقبال نے کائنات کے وجود میں عورت کو انتہائی ناگزیر قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ”وجود زن سے ہے کائنات میں رنگ“۔ قرآن پاک میںعورت کے وجود اور اس کے حقوق و فرائض کا بار بار ذکر آیا ہے جبکہ تمام کی تمام عورت اور مرد کے حوالے سے معاملات زندگی کو مختلف پہلو¶ں سے اجاگر کرتی ہے۔آج کی دنیا میں عورت کو بہت سے حقوق اور بہت سی آزادیاں حاصل ہو چکی ہیں۔ عورت مختلف ممالک میں سربراہ مملکت بھی ہے اور سربراہ حکومت بھی۔ برطانیہ عظمیٰ آج بھی ملکہ الزبتھ کی بادشاہت ہے۔ اس ملک کو سب سے زیادہ عروج ملکہ وکٹوریہ کے زمانہ میں ملا۔ ایک عشرہ پہلے مارگریٹ تھیچر اس کی وزیراعظم تھیں۔ خود پاکستان میں مادرملت فاطمہ جناح نے ایوب خان کے خلاف صدارتی الیکشن لڑا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو دو مرتبہ ملک کی وزیراعظم بنیں۔ بیگم رعنا لیاقت علی خاں صوبہ سندھ کی گورنر رہیں۔ سفارت کے عہدہ پر کئی خواتین فائز ہوئیں۔ پاکستان میں عورت سٹیٹ بینک کی گورنر بھی رہی۔ عورتیں سائنسدان بھی ہیں، ان میں سے بعض مختلف یونیورسٹیوں میں ڈین کے عہدہ پر فائز ہوئیں۔زرعی یونیورسٹی کی کلیہ سائنز میں دو خواتین اساتذہ مختلف ادوار میں اس کی سربراہ بنیں۔ اس وقت ملک کی مختلف یونیورسٹیوں میں عورتیں وائس چانسلر کے منصب پر فائز ہیں۔ پاکستان کی سیاست دان خواتین میں بیگم عابدہ حسین، بیگم نسیم ولی خان،بیگم نصرت بھٹواور بیگم کلثوم نواز کا بھی اہم کردار رہا۔ان دنوں پاکستان کی قومی اسمبلی کی سپیکر بھی ایک خاتون ہیں۔پارلیمنٹ اورصوبائی اسمبلیوں میں کچھ خواتین تو جنرل نشستوں پرالیکشن لڑکرپہنچی ہوئی ہیںجبکہ 33 فیصد نشستیں اب آئین میں بھی عورتوں کے لئے مختص ہو چکی ہیں۔عورتیں اب مردوں کے ساتھ مقابلے کے امتحان میں بھی نمایاں کامیابیاں حاصل کرتی ہیں اورملک میں اب بیوروکریٹ عورتوں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں ہے مگر عورت کو اس کے حقیقی ماحول میں دیکھنے کی کوشش کی جائے تو وہ پڑھی لکھی ہو یا ان پڑھ دونوں صورتوں میں اپنے مرد کے ساتھ زندگی کی گاڑی کو چلانے اور کھینچنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ فی زمانہ مہنگائی نے ہر خاندان کو روزگار کے مسائل سے دوچار کر رکھا ہے۔ عورت اپنے گھر کو چلانے کے لئے ملازمت بھی کرتی ہے۔کاروبارکے لئے بھی گھر سے نکلتی ہے۔عورت زمینوں کی کاشت بھی کراتی ہے اور وہ صنعت کار بھی ہے۔ عورت ڈاکٹر، نرس، سکول ٹیچر،کالج کی لیکچرار، پرنسپل اور وائس چانسلر بھی ہے مگر ملک کے دور دراز دیہات میں عورت اپنے گھر کے مردوں کے ساتھ کھیتوں پر بھی جاتی ہے۔ وہ جانوروں کے لئے چارہ کاٹتی اورگھر کی گائے بھینس کی پرورش کے امور نپٹاتی ہے۔ ان کا دودھ بھی دھوتی ہے۔ وہ کھیت اورکھلیان میں کام کرتی ہے جبکہ شہر میں ایسی عورتوں کی تعداد بھی کم نہیں ہے جو اب دفاتر میں کام کرتی ہیں۔ان میں آفس اسسٹنٹ،لیبارٹری اسسٹنٹ، سٹینوگرافر، کمپیوٹر آپریٹر، کلرک اور ایڈمنسٹریٹو آفیسر بھی شامل ہیں اور بڑے بڑے عہدوں پر فائز ایسی خواتین بھی ہیں جو روزانہ سینکڑوں مردوںپرحکم چلاتی ہیں۔شہروں میں تعمیر وترقی کے نتیجے میں پختہ سڑکوں اور بلندوبالا عمارتوں سے ماحول کا نقشہ تبدیل ہو رہا ہے۔ شہروں کے اس ترقیاتی کلچر میں ہمیں سڑکوں پر بجری کوٹتی اورتارکول بچھاتی عورتوں کے ساتھ ساتھ نت نئی بلڈنگوں کی تعمیر کے لئے اینٹیں تھاپتی اور اینٹوں کو معمار تک پہنچاتی دکھائی دیتی ہیں۔ یہ عورتیں جو اپنے مردوں کے ساتھ صبح سویرے مزدوری کے لئے اپنے خیموں اور جھونپڑیوں سے نکل کر زیر تعمیر سڑکوں اور عمارتوں کا رخ کرتی ہیں یہ اپنی جھونپڑیوں میں اپنے شیرخوار بچوں کو ان سے ذرا بڑے بچوں کے پاس چھوڑ کر آتی ہیں۔پاکستان میں عورتوں کی آبادی مردوں سے زیادہ ہے اور اگر پاکستان میں محنت مزدوری کے کاموں کے حوالے سے دیکھا جائے تو عورتیں مردوں کی نسبت زیادہ تعداد میں پیٹ پالنے کے لئے محنت کرتی ہیں۔عورتیں صرف زیرتعمیر سڑکوں اور زیرتعمیر عمارتوں پر ہی نہیں اہل ثروت لوگوں کے گھروں میں بھی کام کاج کرتی ہیں۔متمول طبقے کے افراد کے اجلے لباس،ان کے گھروں میں صفائی کے کام، ان کے کچن میں برتنوں کی دھلائی، یہ سب غریب اورپسماندہ گھرانوں کی عورتیں ہی کرتی ہیں۔ اگر گھروں میں کام کرنے والی ”ماسی“ ان گھروں سے ندارد کر دی جائے تو ان گھروں کی بیگمات کے موٹاپے کا علاج ان کے گھروں میں ہی ہو سکتا ہے۔ انہیں دبلا اور سمارٹ بننے کے لئے نہ تو خود کو بھوکا رکھنا پڑے گا اور نہ ہی سلمنگ سنٹروں کا رخ کرنا پڑے گا۔عورت، دوسری عورت کے لئے سلمنگ سنٹر بھی بناتی ہے اور بیوٹی پارلر بھی قائم کرتی ہے۔ایک عورت ایسے سینٹر اور پارلروں سے روزگار کماتی ہے اور دوسری ان سینٹروں اور پارلروں کا ذریعہ روزگار بنتی ہے۔ 21ویں صدی کی عورت خود کو ”ناقص العقل“ کہلانا بالکل پسند نہیں کرتی،وہ مرد کے شانہ بشانہ ہر شعبہ زندگی میں سرگرم عمل ہے اور کارگہہ زیست میں وہ اپنی پہچان خود بن چکی ہے۔