لاہوت لا مکاں: ایک سحر انگیز،طلسماتی اور روح پرور مقام

2016 ,نومبر 13



 
 
 
 








لاہوت لا مکاں: ایک سحر انگیز،طلسماتی اور روح پرور مقام
بلوچستان کے ضلع خضدار کے علاقہ وڈھ میں ایک اہم زیارت گاہ ”لاہوت لامکاں“ کہلاتی ہے۔ اس جگہ کے بارے میں روایات ہیں کہ کائنات میں سب سے پہلے یہی مقام تخلیق کیا گیا تھا اور کچھ روایات کے مطابق حضرت آدم کو اسی جگہ اتارا گیا تھا یہی وجہ ہے کہ مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ ہر سال یہاں دشوار گزار راستہ طے کر کے آتے ہیں۔ اس کے نزدیک ہی ایک مشہور بزرگ شاہ بلاول نورانی کا مزار بھی ہے۔ کراچی سے حب کے راستے بلوچستان جاتے اس سلسلہ کا پہلا پڑاﺅ ”محبت فقیر“ کے مزار پر ہوتا ہے۔ ان کے بارے میں روایت ہے کہ یہ حضرت علیؓ کے غلام تھے۔ پھر اگلا پڑاﺅ ”قدم گاہ“ پر ہوتا ہے جس کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ یہاں حضرت علیؓ کے پاﺅں کے نشانات ہیں ان نشانات کو ریشمی جھالروں سے سجایا گیا ہے۔ یہیں پر ایک پتھر ایسا بھی رکھا ہوا ہے۔ جو روایت کے مطابق کھاٹ جبل سے لایا گیا ہے جس پر واضح اور قدرتی طور پر کلمہ طیبہ لکھا ہوا ہے۔ کھاٹ جبل کو یہ نام اس لئے ملا کہ روایت کے مطابق اس جبل پر ایک بزرگ کی چارپائی رکھی جاتی تھی اور سندھی زبان میں چارپائی کو کھٹ یا کھاٹ کہا جاتا ہے، اسی کھاٹ کا ایک پایہ وہاں کے گدی نشین کے پاس اب بھی موجود ہے جس کی زیارت سے زائرین مستفید ہوتے ہیں۔ قدم گاہ کے نزدیک پہاڑی پر حضرت رحیم علی شاہ بخاری کی درگاہ ہے۔ جس پہاڑی پر یہ درگاہ ہے، وہاں بھی قدرتی طور پر قرآنی آیات نقش ہیں۔
 اس کے نزدیک ہی ایک مسجد بھی موجود ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کو کسی نے تخلیق نہیں کیا یہ خود ہی وجود میں آئی ہے اور یہاں ایک دیدہ زیب پتھر بھی نظر آتا ہے۔ اس قدم گاہ سے نزدیک ہی پریوں کا باغ بھی موجود ہے۔ اس باغ میں کھجور‘ املی اور دوسرے جنگلی درختوں کے ساتھ آم کے درخت نظر آتے ہیں جن میں جابجا اللہ واضح لکھا نظر آتا ہے۔ یہاں کے بارے میں روایت ہے کہ یہاں ایک ظالم دیو گوکل کی حکومت تھی اور لوگ اس سے تنگ تھے۔ ان لوگوں نے اللہ سے دعا کی تو ایک نورانی صورت بزرگ تشریف لائے جنہوں نے اس دیو کو شکست دیکر لوگوں کواس کے ظلم سے آزاد کروایا۔یہ بزرگ شاہ بلاول نورانی تھے جن کا مزار آج بھی ہے۔ جنات کے اس مقابلے کی نشانیاں اس پہاڑ کے سنگلاخ بدن پرآج بھی موجود ہیں اس پہاڑی علاقہ پر جابجا ایسے نشانات موجود ہیں جس پر بھاگتے قدموں کے نشانات اور خراشوں اور لڑائیوں کے نشانات واضح ہیں۔ روایات میں ہے کہ دیو کو قید کرکے باغ اور اس کے مضافات میں پانی پہنچانے کا کام سونپ دیا گیا اور صدیوںسے بہتے ہوئے اس چشمے سے پریوں کا باغ اور دیگر کھیت سیراب ہورہے ہیں۔
اس باغ سے اصل زیارت گاہ ”لاہوت لامکاں“ کے راستے نکلتے ہیں۔ پیدل زائرین کیلئے سات پہاڑوں کو عبور کر کے زیارت گاہ تک پہنچنا پڑتا ہے۔ اس راستے سے صرف سخت جاں لوگ ہی گزر سکتے ہیں۔ دوسرا راستہ قدرے آسان ہے۔ اس راستے پر لوہے کی سیڑھیاں موجود ہیں۔ دیکھنے میں یہ سیڑھیاں بہت کمزور ہیں لیکن کئی سو من وزن آسانی سے برداشت کر لیتی ہیں۔ ہزاروں زائرین ایک ہی وقت میں چڑھتے اترتے ہیں۔
سیڑھیاں عبور کرنے کے بعد ایسے پتھر سے سامنا ہوتا ہے جس کی صورت میں ایک ایسی صورت موجود ہے جو کسی خونخوار جانور کی سی ہے، لیکن اب پتھر کی طرح ساکن ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک ایسی بلا تھی جو روزانہ دیگ بھر دال، منوں کے حساب سے روٹیاں اور ایک جیتے جاگتے انسان کو کھا جاتی تھی یہاں ایسے پتھروں پر بھی نظر پڑتی ہے جن کی شکل خونخوار جانور اور شیر سے ملتی ہے۔ ان کے بارے میں بھی روایات ہیں کہ یہ اصل درندے تھے لیکن روحانیت کی طاقت سے ان کو پتھر بنا دیا گیا۔
 یہاں سے آگے ایک ایسی جگہ بھی آتی ہے جو حضرت لعل شہباز قلندر سے منسوب ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آپ نے یہاں آگ جلائی اور چلہ کشی کی تھی۔ اس کے بعد ایک غار آتا ہے اور غار میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے پاﺅں ایک ایسے پتھر پر پڑتا ہے جو کہ شیر کی سی صورت کا ہے اسے ”نگہبان“ کہا جاتا ہے۔ یہ شیر روایت کے مطابق ان زیارت گاہوں کی حفاظت پر مامور ہے۔

اس غار میں داخل ہونے سے قبل ایک خاص صابن سے منہ دھونا پڑتا ہے۔ یہ صابن پتھر پر پانی گرنے بنتا ہے اور اس سے منہ دھوتے ہی غار کا اندھیرا ختم ہو جاتا ہے اور ہر چیز روشن ہو جاتی ہے اسی غار میں پتھر کی بنی ایک اونٹنی بھی ہے اور ایک پتھر بھی جو فرش سے برآمد ہو کر غار کی چھت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اسی جگہ پر ایک پتھر کا چولہا بھی ہے جس کے باے میں روایات ہیں کہ یہ دختر رسول خاتون جنت حضرت بی بی فاطمہ الزہرہؓ کا چولہا ہے۔ یہاں ایک قدرتی چشمہ بھی موجود ہے جو سبیل کہلاتا ہے
 اس چشمے کے نیچے ایک قدرتی پتھر کا پیالہ ہے جو عین اس پیالے کے اوپر پہاڑ سے پانی ٹپکا رہا ہے۔ اس غار کے بعد ایک اور غار ہے جس میں بہت اندھیرا ہوتا ہے اور بہت زیادہ پھسلن بھی۔ اس میں انسان سیدھے رخ داخل نہیں ہو سکتا۔ غار کے آخری دہانے پر شاہ نورانی کی چلہ گاہ موجود ہے اس کے ساتھ ایک چشمہ بھی۔
اس سارے علاقہ میں پتھر کے بنے عجیب عجیب جانور، پرندے پائے جاتے ہیں۔ کہیں اژدھے کے منہ سے پانی ٹپک رہا ہے تو کہیں کسی اور خونخوار جانور کی آنکھوں سے۔ ایک جگہ بھینس کے تھنوں سے مشابہ پتھر ہیں جہاں سے چشمہ نکل رہا ہے۔ روایت ہے کہ ان پتھروں سے کسی زمانے میں دودھ بہتا تھا۔ بھینس کے تھنوں سے گرتا پانی، کبوتروں کے غول، بلبلوں اور چڑیوں کی موجودگی ہر انسان کا اپنی ہی دنیا میں مگن ہونا اک عجیب ہی آنکھوں کو ٹھنڈک، دل و دماغ کو سکون راحت اور سرور بخشنے والا نظارہ ہے۔

 

 
 
 
 
 
 
 
 
 

متعلقہ خبریں