2016 ,نومبر 4
کہا جاتا ہے کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا۔ یہ سوچ کر لوگ زندگی میں کم از کم ایک بار لاہور چلے ہی جاتے ہیں کہ لاہور دیکھے بغیر مرنا دنیا میں نہ آنے کے برابر ہی ہے۔
لاہور اپنے چٹ پٹے کھانوں، تاریخی مقامات جیسے بادشاہی مسجد، شالیمار گارڈن وغیرہ کی وجہ سے مشہور ہے۔ جو بھی لاہور جاتا ہے وہ ان جگہوں پر ضرور جاتا ہے۔ لیکن لاہور میں کچھ گمنام مقامات ایسے بھی ہیں جو تاریخی لحاظ تو اہم ہیں مگر ان کے بارے میں خود لاہوری بھی کم جانتے ہیں۔
آئیے دیکھتے ہیں وہ جگہین کون سی ہیں؟
لاہور کا نام جس حکمران کے نام پر رکھا گیا وہ راجا راما کا بیٹا راجا لاوا تھا۔ یہ مندر اسی کی یاد میں تعمیر کیا گیا اور قلعہ لاہور میں واقع ہے۔
یہ مقبرہ بیگم شرف النسا کا ہے جسے بعض مؤرخین نے مشہور تاریخی کردار انار کلی بتایا ہے۔ اس مزار کی خاصیت یہاں موجود بڑے بڑے سرو کے درخت ہیں جو دور سے نظر آتے ہیں۔
یہ مزار بیگم پورہ کے علاقہ میں واقع ہے۔ بعض مؤرخین کے مطابق یہ مقبرہ نواب زکریا خان کی بہن کے لیے بنایا گیا جو محمد شاہ کے دور میں لاہور کے گورنر تھے۔ یہ مقبرہ 1745 میں تعمیر کیا گیا۔
یہ مقبرہ مغل بادشاہ اورنگزیب کے ایک جری سپاہی ظفر جنگ کوکلتاش کا ہے۔ یہ مزار کنال روڈ پر رائل پام کے نزدیک واقع ہے۔ دیگر کئی تاریخی مقامات کی طرح یہ مقبرہ بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔
مغل دور حکومت میں تعمیر کیا جانے والے کئی باغوں میں سے ایک گلابی باغ کے دروازہ کے بارے میں بھی کم لوگ جانتے ہیں۔ اس دروازے کی خصوصیت اس کے خوبصورت نقش و نگار ہیں۔ اس کے اندر شاہجہاں کی دائی، دائی انگہ کا مقبرہ بھی واقع ہے۔ یہ دروازہ گرینڈ ٹرنک روڈ پر واقع ہے۔
یہ مسجد مغل بادشاہ اکبر کی اہلیہ اور شاہجہاں کی والدہ مریم زمانی بیگم نے تعمیر کروائی تھی۔ تاریخ میں ان خاتون کا جودھا بائی کے نام سے بھی ذکر کیا گیا۔ یہ مسجد لاہور شہر کے بیچوں بیچ واقع ہے۔
یہ حویلی مہاراجہ رنجیت سنگھ کے پوتے نونہال سنگھ کی ہے۔ موری گیٹ پر واقع اس حویلی میں شیشے اور مصنوعی پھولوں سے خوبصورت کام کیا گیا ہے۔ دیواروں پر شاندار آئینے اور مصوری کے شاہکار آویزاں ہیں جن میں سے بعض کی تنصیب میں سونے کا استعمال کیا گیا تھا۔
علی مردان خان شاہجہاں کی فوج کا ایک کرد جرنیل تھا۔ اس کا مقبرہ مغلپورہ روڈ سے 300 کلومیٹر آگے جا کر واقع ہے۔(بشکریہ اے آر وائی نیوز)