2020 ,فروری 16
رات گئے کوئی ٹیکسی ڈرائیور یہاں سے گزر رہا ہوتا تو اسے روڈ کے کنارے فٹ پاتھ پر ایک ایسی لڑکی کھڑی نظر آتی کہ جس کی گردن سے خون بہہ رہا ہوتا۔ وہ لڑکی ٹیکسی والے کو ہاتھ دیتی ہے تو وہ فوراً رک جاتا ہے اور لڑکی کا خون بہتا دیکھ کر پریشان ہوجاتا ہے۔ وہ اس سے کہتا ہے ’باجی آپ کو کہاں جانا ہے؟ اور یہ کیا ہوا ہے آپ تو بہت زخمی ہیں۔ آپ کو کسی گاڑی نے مارا ہے؟‘
تو وہ کہتی ہے’نہیں نہیں میں ٹھیک ہوں، تم بس مجھے جلدی سے میرے گھر پہنچادو‘۔
ڈرائیور کہتا ہے ’باجی آپ گھر نہیں جائیں آپ ہسپتال جائیں۔ آپ کی حالت ٹھیک نہیں ہے‘۔
وہ کہتی ہے ’نہیں میں پہلے گھر جاؤں گی، پھر وہاں سے ہسپتال جاؤں گی‘۔
مجبوراً ڈرائیور کہتا ہے ’اچھا باجی بیٹھ جائیں‘۔
لڑکی خون ٹپکاتی ہوئی گاڑی کے اندر آکر بیٹھ جاتی ہے تو ڈرائیور اس سے پوچھتا ہے ’باجی آپ کو کہاں جانا ہے؟‘
تو وہ کہتی ہے ’ناظم آباد‘۔
ڈرائیور بیچارہ تیزی سے گاڑی چلاتا ہوا اسے ناظم آباد لے جاتا ہے۔ لڑکی اسے ایک گلی میں لے جاتی ہے اور ایک گھر کے سامنے رکوا لیتی ہے۔ وہ ٹیکسی سے اترتے ہوئے ڈرائیور کو رکنے کا اشارہ کرتی ہے اور پھر اس گھر کا دروازہ بغیر کھٹکھٹائے ہاتھ کے دباؤ سے کھول کر اندر چلی جاتی ہے۔
اب ٹیکسی والا انتظار کر رہا ہے لیکن خاصی دیر گزرنے کے باوجود اس گھر سے کوئی باہر نہیں نکلتا۔ پریشان ہوکر ڈرائیور ٹیکسی سے اترتا ہے اور گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے۔ 2، 3 بار کھٹکھٹانے کے بعد آنکھوں میں نیند لیے ایک بوڑھا آدمی باہر آتا ہے اور ٹیکسی والے کو اچنبھے سے دیکھتا ہے۔
’کیا بات ہے بیٹا؟ کیوں آدھی رات کو دروازہ پیٹ رہے ہو؟‘، وہ ڈرائیور سے کہتا ہے۔
ڈرائیور حیران ہو کر بولتا ہے ’وہ بابا جی، ابھی ایک باجی میری ٹیکسی میں لال کوٹھی سے یہاں تک آئی ہیں اور گھر کے اندر گئی ہیں۔ وہ زخمی تھیں، ان کی گردن سے خون بہہ رہا تھا۔ ابھی تو انہوں نے مجھے کرایہ بھی نہیں دیا۔ کیا ان کو ہسپتال لے کر جانا ہے؟‘
بوڑھا چونکتا ہے۔ چند لمحے اس ڈرائیور کی طرف خاموشی سے دیکھتا ہے، پھر کہتا ہے ’بیٹا تم یہیں ٹھہرو، میں تمہیں ابھی کرایہ لاکر دیتا ہوں‘۔
وہ گھر کے اندر جاکر واپس آتا ہے اور ڈرائیور کو مطلوبہ رقم دے دیتا ہے۔ ڈرائیور کرایہ تو لے لیتا ہے لیکن اس کی تشویش ختم نہیں ہوتی۔
’بابا جی وہ باجی کدھر ہیں؟ ان کو ہسپتال لے کر نہیں جانا؟‘
بوڑھا افسردگی سے سر ہلاتا ہے اور کہتا ہے ’نہیں بیٹا تم جاؤ۔ اندر کوئی لڑکی نہیں ہے‘۔
ڈرائیور حیرت سے اچھل پڑتا ہے۔ ’کیا مطلب جی؟ ابھی 10 منٹ پہلے تو وہ باجی خون ٹپکاتے ہوئے آپ کے گھر میں گئی ہیں اور اب آپ کہتے ہیں اندر کوئی لڑکی نہیں ہے۔ وہ کدھر چلی گئیں؟‘
’جی بیٹا آپ صحیح کہتے ہیں۔ اسی لیے تو آپ کو کرایہ دیا ہے۔ لیکن وہ لڑکی اب اس دنیا میں نہیں۔‘
ڈرائیور چونک کر ان کی طرف دیکھتا ہے۔
’وہ میری بیٹی ہے، لیکن اس کو مرے ہوئے تو اب زمانہ ہوگیا۔ وہ آج سے کئی سال پہلے لال کوٹھی کے پاس قتل ہوگئی تھی۔ لیکن اس کی روح وہاں اب تک بھٹک رہی ہے۔ ہر سال سردیوں کی ایک رات میں وہ کسی نہ کسی ٹیکسی میں بیٹھ کر گھر تک آتی ہے اور یہاں پہنچ کر غائب ہوجاتی ہے۔ تم چھوڑو اس بات کو۔ تم اپنا کرایہ لو اور جاؤ۔‘
ڈرائیور بیچارے کی تو گھگھی بندھ جاتی ہے۔ وہ خوف سے لرزتا کانپتا سیدھا اپنے گھر کی طرف بھاگتا ہے اور اگلے کئی دن تک بخار میں مبتلا رہتا ہے۔
اچھا یہ تو ساری وہ جھوٹی سچی کہانی ہے کہ جس سے کراچی کے اکثر قدیم باشندے واقف ہیں۔ اصل بات کیا ہے یہ کسی کو نہیں معلوم۔ لال کوٹھی کی اس بھٹکتی روح پر کتابیں بھی لکھی گئی ہیں اور اس پر بڑی داستان آرائیاں بھی کی گئی ہیں، لیکن جس شخص کے ساتھ خود حقیقت میں یہ واقعہ پیش آیا ہو، وہ عام طور پہ نہیں ملتا۔
ہمارے بزرگ دوست ہیں عبدالرشید شاہد صاحب۔ مشہور خطاط ہیں اور ایک اخبار میں کام کرتے ہیں۔ میری کتاب ’سفر کہانیاں‘ اور ’یارِ من ترکی‘ کے ناموں کی خوبصورت خطاطی انہی کے دستِ کمال سے تشکیل پائی ہے۔ وہ بھی لال کوٹھی کی اس بھٹکتی روح کے حوالے سے ایک عجیب واقعہ سناتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’یہ 70ء کی دہائی کا زمانہ تھا۔ ہم ان دنوں روزنامہ مشرق میں کام کرتے تھے۔ مشرق کا دفتر لال کوٹھی کے قریب ہی ایک بنگلے میں ہوتا تھا۔ ہم چونکہ اخبار کی لے آؤٹ ڈیزائننگ اور پیسٹنگ کرتے تھے، اس لیے جب تک کاپی پریس میں نہ چلی جائے، ہم فارغ نہیں ہوتے تھے۔ چنانچہ رات گئے تک دفتر میں رکنا پڑتا تھا اور سب سے آخر میں گھر جاتے تھے۔ عام طور پر رات کے ڈھائی تین بج جاتے تھے۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ ان دنوں کراچی میں ٹریفک ویسے ہی بہت کم ہوا کرتا تھا، بسیں بھی زیادہ سے زیادہ 9 یا 10 بجے تک چلتی تھیں۔ اس کے بعد سڑکوں پر ہُو کا عالم ہوتا تھا۔ چنانچہ جب ہم دفتر سے گھر جانے کے لیے نکلتے تو ہمارے پاس ایک ہی طریقہ ہوتا تھا کہ ٹیکسی کرلیں۔ اب روزانہ ٹیکسی لے کر گھر جانا بھی خاصا مہنگا کام تھا۔ اس لیے ہم یہ کرتے کہ 2، 3 دوست مل کر ایک ٹیکسی لے لیتے تھے اور کرایہ آپس میں تقسیم کر لیتے تھے۔
’ایک رات ہم 3 ساتھی دفتر سے گھر جانے کے لیے نکلے۔ وہ دسمبر کی ایک سرد رات تھی۔ کوئٹہ سے آنے والی برفیلی ہواؤں نے اس رات کو یخ بستہ کردیا تھا۔ آدھی رات کا وقت تھا۔ ہم شارع فیصل پر آکر لال کوٹھی اسٹاپ پر کھڑے ہوگئے۔ سڑک پر سناٹے کا راج تھا۔ دُور دُور تک کوئی گاڑی نظر نہیں آرہی تھی۔ ہم نے اسٹاپ پر کھڑے ہوکر کافی دیر انتظار کیا، لیکن کوئی گاڑی نہیں آئی۔ ہمیں ڈرگ کالونی جانا تھا جو یہاں سے تقریباً 12 یا 13 کلومیٹر دُور تھی۔ جب خاصی دیر تک کوئی گاڑی نظر نہ آئی تو ہم تینوں نے باتیں کرتے کرتے پیدل ہی چلنا شروع کردیا۔ خیال یہ تھا کہ راستے میں جہاں بھی پیچھے سے کوئی گاڑی آئی اس پر سوار ہوجائیں گے، ورنہ یہ راستہ پیدل ہی طے کرلیں گے، اور ہمارے لیے یہ کوئی انوکھی بات نہیں تھی کیونکہ اکثر رات گئے پیدل گھر پہنچتے تھے۔
’آج کی رات کچھ زیادہ ہی سرد اور ویران تھی۔ جب ہم پیدل چلتے چلتے کارساز اسٹاپ کے قریب پہنچے تو ہمیں وہاں ایک ٹیکسی کھڑی نظر تو آئی، لیکن وہ عجیب ٹیڑھے انداز میں کھڑی تھی۔ اس کے سائڈ والے دو ٹائر تو سڑک پر تھے اور دوسری طرف کے دونوں ٹائر فٹ پاتھ پر چڑھے ہوئے تھے۔ اس کا انجن بھی اسٹارٹ تھا، ہیڈ لائٹس بھی آن تھیں اور اندر والی لائٹ بھی جل رہی تھی۔ ہم ٹیکسی کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ اس کا ڈرائیور سیٹ پر نیم دراز آسمان کی طرف منہ اٹھائے پڑا ہے اور زور زور سے کچھ بولے جا رہا ہے۔ لیکن اس کے بے ربط الفاظ ہماری بالکل سمجھ میں نہیں آئے۔ میں نے گاڑی میں منہ ڈال کر اسے آواز دی کیا ہوگیا بھائی؟ خیریت تو ہے؟
’لیکن اس نے ہماری طرف کوئی توجہ نہ دی اور اسی ہذیانی انداز میں بولتا رہا۔ ہم نے 2، 3 بار اسے اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی، لیکن جب اس پر کوئی اثر نہیں ہوا تو میرے ساتھی نے اس کے دونوں گالوں پر اس طرح چپت لگائیں جیسے بے ہوش آدمی کو ہوش میں لانے کے لیے لگائی جاتی ہیں۔ جیسے ہی اس کے منہ پر ہاتھ پڑا تو وہ زور سے چونکا اور آنکھیں کھول دیں۔ ہم پر نظر پڑتے ہی وہ فوراً دروازہ کھول کر باہر آیا اور ہم سے چمٹ کر چیخنے لگا مجھے بچاؤ مجھے بچاؤ۔
’کیوں بھائی کیا ہوا؟ خیریت تو ہے؟ میں نے اس سے پوچھا۔
’میں نرسری کی طرف سے آ رہا تھا۔ ابھی کچھ دیر پہلے میں نے یہاں فٹ پاتھ پر ایک لڑکی کھڑی دیکھی۔ اس نے مجھے رکنے کا اشارہ کیا تو میں نے بریک لگا دیا۔ لیکن جیسے ہی میں اس کے قریب پہنچا تو میں نے دیکھا کہ اس کی گردن سے خون بہہ رہا ہے۔ ٹیکسی جیسے ہی رکی تو وہ فوراً پچھلا دروازہ کھول کر اندر بیٹھ گئی اور بولی کہ مجھے ناظم آباد جانا ہے۔ میں تو اس کے خون بہنے سے پریشان ہو رہا تھا۔ اس کے بیٹھتے ہی میں نے گاڑی آگے چلا دی اور منہ پیچھے کیے بغیر اس سے پوچھا کہ اسے ناظم آباد جانا ہے یا نارتھ ناظم آباد؟ لیکن اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میں نے ایک بار پھر یہی بات پوچھی لیکن اس نے اس بار بھی کوئی جواب نہیں دیا۔ تب میں نے پیچھے مُڑ کر دیکھا تو اچھل پڑا۔ پچھلی سیٹ پر تو کوئی بھی نہیں تھا۔ حالانکہ وہ میرے سامنے دروازہ کھول کر بیٹھی تھی۔ یہ دیکھ کر میری تو جان ہی نکل گئی۔ میں نے ڈر کے مارے گاڑی تیزی سے بھگانا چاہی تو فٹ پاتھ پر چڑھ گئی۔
’ڈرائیور کی آنکھیں پھر خوف سے پھیل گئیں اور وہ ہم سے چمٹ گیا اور کہنے لگا کہ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔ مجھے بچاؤ۔ خدا کے واسطے مجھے بچاؤ۔
’ہم ابھی اس کی باتیں سن ہی رہے تھے کہ اچانک وہاں پولیس کی گاڑی آگئی۔ کیا ہو رہا ہے یہ؟ ایک آفیسر گاڑی سے اتر کر ہماری طرف بڑھا۔
’میں نے اسے بتایا کہ ہم مشرق اخبار والے ہیں اور آفس سے نکل کر گھر جا رہے ہیں۔ یہ ٹیکسی والا یہاں کھڑا تھا اور کہتا ہے کہ اسے یہاں ایک زخمی عورت نظر آئی جس کا خون بہہ رہا تھا، وہ اس کی ٹیکسی میں آکر بیٹھی اور پھر چلتی ٹیکسی میں سے اچانک غائب ہوگئی۔ اس لیے یہ بہت ڈر گیا ہے۔
’پولیس والا کہنے لگا کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے۔ ہم تو روزانہ یہاں گشت کرتے ہیں، ہمیں تو کبھی ایسی کوئی چیز نظر نہیں آئی۔ کہاں کھڑی تھی وہ عورت؟ اس نے ڈرائیور سے پوچھا۔
’ڈرائیور نے دُور ایک کھمبے کی طرف اشارہ کیا کہ وہ وہاں کھڑی تھی۔ پولیس والا وہاں گیا اور اس کھمبے کے اطراف میں اپنی ٹارچ مار کر جائزہ لینے لگا۔ ہم بھی اس کے پیچھے پیچھے پہنچ گئے۔
’اگر اس عورت کا خون بہہ رہا تھا تو یہاں خون کا کوئی نشان ضرور ہونا چاہئے۔ پولیس والا کہنے لگا۔ لیکن یہاں تو کوئی نشان نہیں۔
’ہم بھی اسٹریٹ لائٹ کی روشنی میں سڑک پر اِدھر اُدھر نظر دوڑانے لگے کہ شاید ہمیں کوئی خون کا دھبہ نظر آئے۔ اچانک میرا دوست چلایا یہ دیکھو۔ یہ کیا ہے؟
’ہم دونوں پولیس والے سمیت اس کی طرف لپکے۔ اس نے سڑک کی طرف اشارہ کیا۔ پولیس والے نے وہاں ٹارچ ماری اور ہم سب اچھل پڑے۔ سڑک پر تازہ تازہ خون گرا ہوا تھا جو ٹارچ کی روشنی میں چمکنے لگا۔ اب ہم تینوں تو ڈرے ہی، پولیس والا بھی گھبرا گیا کہ آخر یہ کیا ماجرا ہے؟
’خوف کے مارے ہم پولیس والوں کی منتیں کرنے لگے کہ آگے رستہ ویران ہے، برائے مہربانی ہمیں ڈرگ روڈ اسٹیشن تک اپنی گاڑی میں پہنچا دیں کیونکہ اب تو ہمیں بھی بہت ڈر لگ رہا تھا۔ ٹیکسی ڈرائیور کو تو کسی طرح سمجھا بجھا کر ہم نے روانہ کردیا، آگے جاکر اللہ جانے اس کا کیا بنا۔ ہم چونکہ اخبار والے تھے، اس لیے ہمیں پولیس نے اپنی گاڑی میں بٹھا لیا اور ڈرگ کالونی کے قریب لا کر چھوڑ دیا۔ ہم خوف سے کانپتے کانپتے اپنے گھروں کو پہنچے اور اس کے بعد کافی عرصے تک رات کے وقت اس مقام سے پیدل نہیں گزرے۔‘
عبدالرشید شاہد صاحب نے ایک دفعہ مجھے شارع فیصل پر کارساز بس اسٹاپ کے پاس وہ جگہ دکھائی جہاں ان کے ساتھ نصف صدی قبل یہ واقعہ پیش آیا تھا۔ یہ تقریباً وہی مقام ہے جہاں 18 اکتوبر 2007ء کو سابق وزیرِاعظم بے نظیر بھٹو کے جلوس میں بم دھماکہ ہوا تھا۔ اس المناک واقعے میں 180 افراد آناً فاناً لقمہءِ اجل بن گئے تھے۔ میں جب بھی اس مقام سے گزرتا ہوں تو کچھ سہم سا جاتا ہوں۔ اس مقام پر خون کے بے شمار نشانات ہیں جو ہر ایک کو نظر نہیں آتے۔