2017 ,مئی 17
لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک/ارشاد حسین ناصر)وادی مہران سرزمین سند ھ کو یہ اعزاز اور فخر حاصل ہے کہ یہاں امن و محبت کے پیامبر اور عرفان و تصوف کے سوتے پھوٹے جویہاں کے لوگوں کو اپنے علم، عمل، گفتار، کردار اور روشن تعلیمات سے سیراب کرتے رہے ، حضرت عثمان مروندی المعروف لعل شہباز قلندر کا عرس ہر سال ماہ مبارک شعبان کی اٹھارویں کو شروع ہو کر اکیس شعبان تک رہتا ہے،اس مزار مبارک کی شان اور عرس کی انفرادیت یہ ہے کہ نا صرف مسلمانوں کے تمام مکاتیب و مسالک کے لوگ اپنے اپنے رنگ اور ڈھنگ میں عرس مناتے ہیں،ہندو بھی بڑی تعداد میں شریک ہوتے ہیں اور اپنے انداز میں رسومات ادا کرتے ہیں ۔سندھ ایک قدیم تاریخی و آباد خطہ ہے ،جہاں مختلف ادوار میں مختلف مذاہب کے ماننے والے بھی ریاستیں قائم کر کے حکمرانی کرتے رہے ہیں ۔
حضرت لعل شہباز قلندر کا شجرہ نسب حضرت امام جعفر صادق سے 13یا 14پشت میں جا کے ملتا ہے لعل شہباز مروندی کے والدسید کبیر الدین بعض کتب کے مطابق ابراہیم کبیر الدین تھے ،آپ کے آبائی وطن کاذکر آپ کے مزار پر درج ہے ،مروند ایران کا ایک علاقہ ہے جو خراسان یعنی مشہد کے قریب واقع ہے ،مشہد یا صوبہ خراسان افغانستان کے ساتھ واقع ہے اس کی سرحد افغانستان سے جا کے ملتی ہیں،بعض مورخین نے آپ کو افغانستان کے علاقے مروند سے قرار دیا ہے ، آپ کے والد گرامی ابراہیم کبیر الدین جنہیں ابراہیم مجاب کہا جاتا ہے اور ان کا روضہ اقدس حرم امام حسینؓ کے اندر ہی واقع ہے ،معروف ہے کہ ابراہیم مجاب کو اکثر امام حسینؓ کے مزار سے سلام کاجواب ملتا تھا اسی و جہ سے ان کا نام بھی مجاب پڑ گیا،یعنی جس کا جواب آئے،ابراہیم مجاب بہت بڑے بزرگ اور پہنچی ہوئی ہستی تھے جو روضہ امام حسینؓ کی مجاوری اور جاروب کشی کرتے تھے،انہوں نے اپنی ساری زندگی نواسئہ رسول حضرت امام حسینؓ کے مزار اقدس پر ہی گزار دی اور وہیں دفن ہوئے ،تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت لعل شہباز قلندر بھی دس سال تک روضہ امام حسینؓ کی مجاوری اور جاروب کشی کرتے رہے اور اسی جاروب کشی کے دوران انہیں بلند اور ارفع مقامات حاصل ہوئے، روایات کے مطابق حضرت ابراہیم مجاب مرنے سے پیشتر تمام وصیتیں اور ملکوتی امانتیں حضرت لعل شہباز قلندر کے سپرد کر کے گئے،حضرت لعل شہباز قلندر کے بارے میں معروف ہے کہ آپ بچپن سے ہی تنہائی پسند تھے اور اکثر عبادت الہی میں مشغول رہتے،گھر سے باہر پہاڑوں میں چلے جاتے اور ریاضت میں مصروف رہتے،آپ کا گھرانہ علمی تھا،قرآن و حدیث اور دیگر علوم گھر سے ہی حاصل کئے،سات برس کی عمر میں قرآن مجید کو حفظ کیا،آپ کو کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا،ان میں عربی،فارسی،سندھی،سنسکرت،پشتو اور ترکش نمایاں کہی جاسکتی ہیں۔آپ ایک عظیم فلاسفر اور شاعر تھے آپ کی شاعری کے چند نمونے حاضر خدمت ہیں۔
فارسی کلام کا ایک معروف شعر ملاحظہ فرمائیں
نمی دانم کہ آخر چوں دمِ دیدار می رقصم
مگر نازم بہ ایں ذوقے کہ پیش ِ یار میں رقصم
ترجمہ؛ نہیں جانتا کہ آخر دیدار کے وقت میں کیوں رقص کر رہا ہوں،لیکن اپنے اس ذوق پر نازاں ہوں کہ اپنے یار کے سامنے رقص کر رہا ہوں۔
اور یہ اشعار تو آپ کی عقیدت و محبت اور امام علیؓ سے والہانہ عشق کی نشاندہی کرتے ہیں
حیدریم،قلندرم، مستم
بندہ ء مرتضیٰ علی ہستم
پیشوائے تمام رندانم
کہ من سگ ِکوئے شیرِ یزدانم
آپ جذب و مستی کی کیفیت سے سرشار فرماتے ہیں کہ میں حیدری ہوں،یعنی اپنی نسبت حیدر کرار سے کرواتے ہیں،میں قلندر ہوں ،دنیا سے دور خدا کے عشق میں سرمست،میںرا مرشد ،آقا علی شہنشاہ ہیں،جو تمام عاشقان و سرمستان کے پیشوا ہیں جو ہمارے سردار ہیں میں تو اللہ کے شیر کے کوچہ کا ایک سگ ہوں،اور ان کے در پہ بیٹھا ہوں ،ان کے در سے سیراب ہو رہا ہوں اور اسے کسی بھی صورت چھوڑنے والا نہیں ہوں۔
تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت لعل شہباز قلندر 25برس کے ہوئے تو کربلاروضہ امام حسینؓ شہید پر تشریف لے گئے یہاں دس برس تک قیام فرمایا اس کے بعد پینتیس برس کی عمر میں حج کیلئے تشریف لے گئے جہاں روضہ رسول ؐ پر حاضری اور جھاڑو برداری کرنے لگے یہیں آپ کی ملاقات حضرت شیر شاہ جلال سید سے ہوئی ان سے قربت ہوئی،تقریبا چھ سال قیام کے بعد حضرت علی ؓ کے مرقد یعنی نجف اشرف عراق تشریف لے گئے یہاں سے ایک حکم کے ذریعے انہیں کربلا جانا پڑا ،جہاں حضرت ابراہیم مجاب کے پاس پہنچے جنہوں نے اس دوران آپ کو تمام امانتیں اور علوم و فیوض منتقل کئے اور سالک الی اللہ ہوئے،کہا جاتا ہے کہ آپ کے مزار پر موجود ایک طوق جسے امام زین العابدین کے حوالے سے منسوب کیا جاتا ہے بھی آپ کو ابراہیم مجاب کی طرف سے عطا ہوا تھا،اس کے بعد آپ برصغیر تشریف لے آئے،یہاں آپ تبلیغ کرتے کرتے سندھ پہنچے،یہ غزنوی اور غوری ادوار کا زمانہ تھا،برصغیر میں کئی بزرگان اسلام کی تبلیغات اور توحید کا پیغام لوگوں تک پہنچانے میں کوشاں تھے یہ اپنے دور کی بڑی ہستیاں تھیں ،حضرت لعل شہباز قلندر نے سیہون کو اپنا مسکن بنایا،اس دور میں یہاں ہندو راجہ ،چوپٹ یا چرپٹ کی حکومت تھی جو فحاشی و عریانی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا،حضرت لعل شہباز قلندر نے سیہون کو مسکن بنا کے سب سے پہلے ان فحشا ء کو اسلام کا پیغام پہنچایا۔
آپ کی زبان میں اثر تھا کچھ ہی عرصہ میں تبدیلی واقع ہوتی دیکھی جانے لگی جس کے بعد آپ کی مخالفت ہونے لگی،راجہ کو اپنی سلطنت اجڑتی دکھائی دی، اسی زمانے میں ملتان میں حضرت بہائوالدین ذکریا ملتانی ؒ ،پاکپتن میں حضرت فرید الدین گنج شکرؒ،سید جلال الدین سرخ پوشؒ اللہ کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچانے میں مشغول تھے جن سے آپ کی بہت قربت تھی ، آپ کو عربی زبان پر مکمل عبور تھااورآپ عربی صرف و نحو بھی مکمل جانتے تھے لہذا آپ نے سیہون میں آنے کے ساتھ ہی ایک مدرسہ قائم کیا جس میں اسلامی علوم و فیوض کی بارش ہوتی اور لوگ بہت زیادہ اس سے مستفید ہوتے،آپ علمی مقامات کیساتھ روحانی بلندیوں پر بھی فائز تھے آپ کی انہی روحانی پروازوں کے باعث ہی آپ کو شہباز کہا گیا،جس کا مطلب ہے بڑی پرواز والا،آپ کے بارے معروف ہے کہ آپ ہمیشہ لال رنگ کے کپڑے پہنتے اسی وجہ سے آپ کو لال بھی کہا جاتا ،اسکے ساتھ ساتھ آپ کو لعل سائیں بھی پکارا جاتا ہے لعل ایک قیمتی موتی کو کہا جاتا ہے آپ بہت ہی قیمتی شخصیت تھے اور آپ نے مجرد زندگی گزاری تھی،آپ کے بارے معروف ہے کہ آپ زمان و مکان کی قید سے آزاد تھے،اصل میں قلندر اسی کو کہتے ہیں ۔
حضرت سخی لعل شہباز قلندر کے علمی و عملی امتیازات اور عرفانی کمالات کا چرچہ زبان ذدِ عام و خواص ہونے لگا،اہل سیہون بالخصوص بازار میں برائی کے اڈے بھی کم رنگ ہونے لگے بہت سے لوگ آپ کے حلقہ ارادت میں شامل ہوگئے کئی ہندو بھی آپ سے انسیت رکھنے لگے تو راجہ نے آپ کے خلاف سازشیں کیں مگر اللہ کے ولی کے خلاف اس کی سازشیں کامیاب نا ہو سکیں اور راجہ کو اقتدار اور دنیا سے ہاتھ دھونے پڑے۔سیہون کی سرزمین آپ کرامات کی گواہ ہے جہاں کئی ایک یادگاریں اب بھی قائم ہیں ،اس میں اس قلعہ کے آثار بھی موجود ہیں جس کو آپ نے الٹ دیا تھا اور راجہ چوپٹ کا اقتدار ختم ہو گیا تھا،اسی طرح ایک باغ بھی موجود ہے جہاں آپ نے اپنے ہاتھ سے درخت لگایا تھا اور ہریالی آ گئی تھی جبکہ اس سے قبل یہاں قلت آب اور ہریالی نہیں ہوتی تھی،اسی طرح جہاں آپ نے عبادت و ریاضت کی اور چلے کاٹے وہ مقام بھی موجود ہے، حضرت عثمان مرندی المعروف سخی لعل شہباز قلندر نے 1274ء میں اس دنیا سے پردہ پوشی فرمائی۔آپ کا موجودہ مزار پہلی بار 1356میں تعمیر ہوا،اس میں شہنشاہ ایران کا گفٹ کردہ ایک سونے کے پانی والا دروازہ بھی لگایا گیا ہے جو اس دور کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھوں نصب ہوا ،سونے کے پانی والے یہ دو دروازے تھے ایک لعل شہباز قلندر کے مزار پہ نصب ہوا دوسرا لاہور میںحضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش کے مزار پہ نصب کیا گیا ہے۔ ، دعا ہے کہ اللہ کریم ہم سب کو اولیا ء اللہ کی تعلیمات اور افکار و کردار کو اپنانے کی توفیقات سے نوازے۔ آمین