2022 ,دسمبر 24
ساوتھ ایشین کالمسٹ کونسل(ساک تھنکر فورم ) کے” کے زیر انتظام میٹ دی کالمسٹ“ کے مہمان خصوصی سابق گورنر پنجاب و اٹارنی جنرل سردار لطیف خان کھوسہ ، مرکزی ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات پاکستان پیپلزپارٹی و میڈیا سپوکس پرسن چوہدری منور انجم اور پاکستان پیپلز پارٹی کے دیرنہ ساتھی اور کینڈا میں اہم عہدوں پر فائز رہنے والے سید زبیر بخاری ، ساک کے چیئر مین میاں سیف الرحمن، پیٹرن سہیل اشرف، سیکرٹری جنرل ضمیر آفاقی و دیگر سینیر اراکین جاوید فاروقی، روشن لال، عمر فاروقی، مظہر چو ہدری،خواجہ منور، فضل حسین اعوان، طارق خورشید، ، چوہدری وقاص افضل، عبیدہ فیض، افشان کیانی، صبا ممتاز کی شرکت۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری چودھری منور انجم نے گفتگو کا آگاز کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی سیاسی و آئینی ترقی میں پاکستان پیپلزپارٹی کا کردار دیگر سب جماعتوں کے مقابلے میں زیادہ ہے ملک اور جمہوریت کے لئے قربانیاں بھی سب سے زیادہ دی ہیں۔
سردار لطیف احمد خان کھوسہ کا شمار پاکستان پیپلز پارٹی کے اہم رہنماوں میں ہوتا ہے، یہ ایک ممتاز وکیل بھی ہیں،سردار لطیف کھوسہ تین مرتبہ ہائی کورٹ بار ملتان بنچ کے صدر منتخب ہوئے اور ملک میں وکلا کی سب بڑی نمائندہ تنظیم پاکستان بارکونسل کے تین مرتبہ رکن چنے گئے
۔سردار لطیف کھوسہ پیپلز پارٹی کی وکلا تنظیم پیپلز لائیرز فورم پاکستان کے صدر بھی رہے۔سردار لطیف کھوسہ نے بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات میں ان کی پیروی کی اور2002 کے عام انتخابات کے بعد وہ پیپلز پارٹی کیطرف سے سینیٹر منتخب ہوئے۔
پیپلز پارٹی کی مقتول سربراہ بینظیر بھٹو سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں اپنی جلاوطنی کے بعد جب لاہور میں آئیں تو انہوں نے سردار لطیف کھوسہ کے گھر میں قیام کیا اور اس جگہ انہیں نظر بند کر دیا گیا تھا۔
یہ بینظیر بھٹو کا لاہور کا آخری دورہ تھا اور یہ نظر بندی بھی ان کی زندگی کی آخری نظربندی تھی۔سابق گورنر سردار لطیف کھوسہ وکلائبرادری کے ایک سرگرم رہنما ہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی سے ان کی وابستگی بھی دیرینہ ہے۔
اسی باعث بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد اقتدار میں آنے والی پیپلز پارٹی کی حکمران قیادت نے ان پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے انہیں مرکز میں کلیدی عہدوں سے نوازا تھا۔
وہ اٹارنی جنرل رہنے کے علاوہ وزیر اعظم کے مشیر بھی رہ چکے ہیں۔ میٹ دی کالمسٹ میں خطاب کرتے ہوئے سردار لطیف خان کھوسہ نے کہا کہ پاکستان میں الیکشن میں حصہ لینا متوسط طبقے کے افراد کے لئے نا ممکن ہے۔ سیاسی جماعتوں میں اندرونی جمہوریت کو مضبوط کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
سیاسی جماعتوں میں اندرونی جمہوریت مضبوط ہوئے بغیر ملکی و قومی سطح پر جمہوریت کو استحکام ملنا مشکل ہے گورنر بلیغ الرحمن کی رولنگ حماقت ہے ،سیاسی پارٹیوں میں الیکشن خانہ پری کے لیے ہوتے ہیںپی پی پی اور ن لیگ کا اتحاد فطری ہرگز نہیں .
انہوں نے یہ بھی کہا کہ دوصوبوں کے انتخابات پہلے اور باقی صوبوں اور قومی اسمبلیوں کے انتخابات کروانے کا ملک متحمل نہیں ہو سکتا موجودہ صورت حال کا حل صرف مزکرات ہیں سب محب وطن ہیں سب سے بات کی جائے ۔
سردار لطیف کھوسہ نے مزید کہا کہ کے پی کے میں عمران کے پاس دو تہائی اکثریت ہے وہاں تحریک عدم اعتماد جمع کروانے سے بھی فرق نہیں پڑے گا،پنجاب میں بھی اگر عدم اعتماد کی تحریک جمع کروائی گئی تو سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں کوئی بھی پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ نہیں دے گا،
یہاں بھی عدم اعتماد کا فائدہ نظر نہیں آرہا۔الیکشن کمیشن بتا چکا ہے کہ نئے انتخابات کے لیے اربوں روپے چاہئیں جس کا ملک معاشی طور پر متحمل نہیں ہو سکتا۔
انہوں نے مذید کہا کہ ملک کی اس وقت جو اقتصادی صورت حال ہے اور جس طرح ملک کوآئی ایم ایف چلا رہا ہے اور ہم اپنے اثاثے تک فروخت کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں ہے خدشہ ہے کہ ہم کہیں اپنا ایٹمی پروگرام بھی فروخت نہ کر دیں ۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کے بغیر کوئی جمہوریت نہیں اور یہاں کسی پارٹی میں بھی کوئی جمہوریت نہیں ہے۔