شاباش،مولانا! لگے رہو

2019 ,اکتوبر 25



مولانا فضل الرحمن چہچہا رہے ہیں، گجردم گا رہے ہیں ،انکے ایجنڈے سے متفق سیاسی اکابرین مولانا کے مقاصد کو زوردار طریقے سے اٹھا رہے اور انکے کندھے پر بندوق رکھ کر چلا رہے ہیں۔مولانا کو اپنی کامیابی کا یقین انکی حلیف پارٹیوں کو تشکیک ہے، اپوزیشن والے ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھا رہے ہیں ، کل ناکامی کی صورت میں مبادا الزام ان پر آئے اور رہی سہی سیاسی ساکھ بھی مجروح ہو جائے ۔مولانا آزادی مارچ کے ذریعے عمران خان کی حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں جو انکی نظر میں سلیکٹڈ اور انتخابات میں بدترین دھاندلی کی مرہون ہے۔پاکستان میں ہونیوالے ہر وہ انتخابات جس میں جو پارٹی پیچھے رہ جائے اسکی دنیا تاریک اور دھاندلی کے پہلو روشن ہو جاتے ہیں۔ مولانا کی ان انتخابات میں جن پر دھاندلی کا کہرام مچایا ہے‘ مولانا کے ووٹوں کا تناسب دو فیصد تھا۔بالفرض مولانا نے جتنی سیٹوں پر امیدوار کھڑے کئے تھے وہ سارے کے سارے جیت جاتے تو کیا مولانا لنکا ڈھا لیتے یا دو کرسیوں پر بیٹھتے اور 2 بستروں پر لیٹتے۔ اقتدارانکی دستبرد سے کوسوں دور رہتا۔وہ نئے انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔کس پارٹی کو اقتدار میں لانے کی انکی خواہش ہے۔ اگر الیکشن ہوتے ہیں تو ہو سکتا ہے مولانا کی امامت میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن الیکشن جیت جائے۔ کیا وہ وزارت عظمیٰ کا تاج مولانا کے سر سجا دینگے یا پھر صدارت کے تاج محل کے طلسمی دروازے ان پرواء کردینگے۔

مولانا لانگ مارچ کیلئے پرعزم جبکہ دھرنے سے تائب ہو چکے ہیں۔ لانگ مارچ کو 27 سے 31 تک مؤخر کیا گیا ہے۔ مولانا نے تیاریاں مکمل کی ہیں۔کالعدم عسکری جتھہ ’’انصار الاسلام فورس‘‘ کے نام سے تشکیل دیدیا۔ بہرحال مولانا کے ساتھ انکے دعوے کے مطابق 15 لاکھ ’’پُر امن‘‘ لوگ ہونگے۔بالفرض مولانا کے ساتھ اتنے لوگ نہیں آتے صرف چند ہزار ہی آتے ہیں تو بھی ان کاشو پاور فل ہوگا،گوپندرہ کیا تیس لاکھ سے بھی مولانا حکومت کا خاتمہ نہیں کرسکتے البتہ دو ہزار بھی ملک کو بند کراسکتے ہیں۔کسی بھی شہر میں امن کیلئے ہر شہری کا تعاون ضروری ہے جبکہ شرانگیزی‘ اشتعال انگیزی اور فتنہ و فساد کیلئے ایک بندوق بردار ہی کافی ہے۔ شہر میں پانچ چھ لوگ مختلف جگہوں پر فائرنگ کر دیںشہرسے نکلنے والی سڑکیں تو دوتین درجن لوگ ہی بلا ک کر سکتے ہیں۔ البتہ حکومت کا گرنا ناممکن ہے۔ اپوزیشن سرِدست اس مقصد کیلئے بلاول کی خدمات حاصل کر لے جو لات مار کر حکومت کو گرا سکتے ہیں۔ ایک سوال ہے اگر نواز شریف اور زرداری کو رہا کر دیا جائے تو بھی پی پی اور ن لیگ کا مولانا کا ساتھ دینے میں جوش و خروش برقرار رہے گا؟

5 اگست بھارت کے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد پاکستان کشمیر ایشو کو آسمان کی بلندیوں تک لے گیا ۔ اقوام متحدہ میں عمران خان کی تقریر کی بازگشت ابھی تک پوری دنیا میں سنائی دے رہی ہے۔ پاکستان میں خصوصی طور پر کشمیر مرکزی نقطہ اور ہر ایشوپر حاوی تھا۔ مولانا کے دھرنے کے اعلان کے بعد صورتحال یکسر تبدیل ہو گئی۔ اب میڈیا میں زیادہ تذکرہ مولانا کے لانگ مارچ اور دھرنے کا ہے کشمیر ایشو پس منظر میں چلا گیا۔بھارت کشمیر پر سرے سے بات نہیں کرنا چاہتا۔ وہ اسے دنیا سے پوشیدہ رکھنا چاہتا ہے ۔ پاکستان کی حد تک وہ اس میں کامیاب ہو چکا ہے۔ حکومت کی بھی توجہ کشمیر پر کم مولانا کی سرگرمیوں کی طرف سے زیادہ ہے ۔ مولانا کا لانگ مارچ اتنا اہمیت اختیار کر گیا ہے‘ اس پر نہ تو پاکستان بھارت لائن آف کنٹرول پر کشیدگی نہ میاں نواز شریف کی بیماری اثر انداز ہو رہی ہے۔ میاں نواز شریف اور مریم ضعف صحت پر سروسز ہسپتال کے ملحقہ کمروں میں جیل سے لا کر داخل کرا دئیے گئے ہیں۔ انکی لندن پرواز کی افواہیں گرم ہیں۔ نواز شریف کے خاندان کے بقیہ الجیل لواحقین کہتے ہیں نواز شریف کو زہر دیا جا رہا ہے۔ حسین نواز از کیپٹن صفدر اورجماں جنج نال لیگیوں کا روئے سخن حکومت کی طرف ہے۔ جاوید لطیف بولے ، نواز شریف کو کچھ ہوا تو ملک میں خانہ جنگی ہو گی۔ زندگی اور موت کا اختیار اللہ کے ہاتھ میں ہے اگر کسی کو کچھ ہوتا ہے تو پھر آپ کسی اور سے نہیں اللہ سے لڑیں۔مولانا کے مارچ کی سب سے زیادہ کوریج بھارتی میڈیا میں ہورہی ہے۔ اسکے بعد ہمارے چینل دیگر ایشوز پر اسے فوقیت دے رہے ہیں۔ جس طریقے سے کشمیر کاز کو لے کر حکومت آگے بڑھی تھے وہ جوش و جذبہ مفقود ہوچکا ہے۔ احتجاج بلاشبہ جمہوری حق ہے۔ آپ’’ عظیم جمہوری‘‘ حق کس وقت استعمال کر رہے ہیں۔ اس سے کشمیر کاز کو کیا نقصان پہنچ رہا ہے اور بھارت کو فائدہ ہورہا ہے۔ اگر آپ نے بھارتی ایجنڈے کی تکمیل کرنی ہے تو پھر مولانا لگے رہو، شاباش!

حکومت بھی عقل و فہم سے کام لے جس طرح سے کہا جا رہا ہے، لانگ مارچ کی پروا نہیں، عملاً بھی ایسا ہوتا تو مولانا کے احتجاج کے غبارے میں اتنی ہوا کا بھرا جانا ممکن نہیں تھا۔ حکومت خاموش رہتی، اس کے ترجمان بڑھکیں نہ لگاتے، فوکس اول و آخر کشمیر ایشو پر رکھتے تو میڈیا کے پاس بھی ہیجان اور مخالفین کے ہذیان سے لاتعلق رہنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا۔ حکومت اور اپوزیشن کی دست و گریباں کی کیفیت کشمیر ایشو کو مزید پس منظر میں لے جا رہی ہے۔ اب بھی کشمیر ایشو کو اجاگر اور ٹاک آف ٹائون اور ٹاک آف گلوبل بنانے کیلئے دانشمندانہ حکمت عملی کی ضرورت ہے۔

متعلقہ خبریں