2019 ,اکتوبر 31
رحیم یار خان میں ریلوے کا بدترین حادثہ ہوا ابتدائی رپورٹس کے مطابق تیزگام میں شارٹ سرکٹ یا تبلیغی جماعت کے سلنڈر پھٹنے سے آگ لگی۔ 80 افراد جاں بحق ہو گئے مگر اس پر سیاسی الاﺅ پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ مولانا کے آزادی مارچ اور مظاہرے سے کرشمات کے چشمے پھوٹتے رہے ، وہ اسلام آباد میں دھرنا زن ہونے کا عندیہ تھے۔ مولانا کے اس مارچ کو ماﺅ کے مارچ سے تشبیہ دی جا سکتی ہے بلکہ یہ اس سے بڑھ کر تھا، اُس مارچ میں ہزاروں لوگ مارے گئے اور وہ کئی سال کا کشٹ تھا ۔ مولانا اپنے لاکھوں کے قافلے کو بحفاظت و سلامت کراچی سے اسلام آباد لے آئے۔ تو بتائے بڑا لیڈر کون ہوا؟ ماﺅ یا ملا! مولانا کے مارچ میں کرشمے ہی کرشمے اور مولانا کرشماتی شخصیت نظر آتے ہیں۔ انہوں نے آزادی مارچ کے ذریعے فسادی حکومت کی بربادی کا اعلان کیا تھا۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سمیت آزادی مارچ کی نو جماعتیں حامی ہیں۔ 1977ءمیں بھی بھٹو صاحب کے خلاف 9 جماعتوں کا اتحاد بنا جو بالآخر بھٹو کو پھانسی کے تختے تک لے گیا۔ مولانا کے والد مفتی محمود پی این اے اور اس تین رکنی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ تھے۔ بھٹو کے ساتھ مذاکرات کرتی رہی۔ بے نتیجہ ختم ہونے پر بلاول کے نانا کی حکومت ختم ہوئی، مارشل لاءلگا اور مشکوک کیس میں بھٹو کو پھانسی دیدی گئی۔ آج بھٹو کا نواسہ بلاول اسی قسم کی مہم جوئی میں مولانا فضل الرحمن کے شانہ بشانہ ہے۔ مسلم لیگ ن بھی اس کارِخیر میں مولانا کے ہمقدم ہے۔
مولانا کی سحرانگیز شخصیت کے زیر سایہ 15 لاکھ کا لشکر اسلام آباد پہنچنا تھا کراچی سے ان کے دعوے کے مطابق 4 لاکھ سرفروشان انعام و کرام سربکف روانہ ہوئے پہلے روز چھ دوسرے دن 14 گھنٹے سفر کیا ۔ 22 گھنٹے میں 4 لاکھ کا قافلہ ملتان آ کر قیام پذیر ہوا۔ راستے میں ان لوگوں نے کہاں قیام کیا؟ خیمہ بستی کہاں لگائی گئی اس بارے کوئی وڈیو فوٹیج موجود نہیں۔ ان کے کھانے کا کیا بندوبست تھا ہو سکتا ہے من و سلویٰ برسا ہو! چار لاکھ کا قافلہ ویسے ایسے بڑے لاﺅ لشکر کو قافلہ کہنا ہی زیادتی ہے۔ چار لاکھ لوگ بالفرض گاڑیوں پر رواں دواں رہے۔ فرض کر لیں ایک گاڑی میں 20 افراد سوار تھے ویسے تو کسی میں 100 ہونگے کسی میں دو تین بھی ہو سکتے ہیں اوسط 20 کی لگا لیں 4 لاکھ کے لیے 20 ہزار گاڑیاں درکار تھیں ہر گاڑی کا دوسری سے فاصلہ دس میٹر ہو تو گاڑیوں کی طویل قطار 2 لاکھ میٹر بنتی ہے اور اس کے کلومیٹر بنتے ہیں 200 ۔ مولانا کے اس لانگ مارچ کی قطار ملتان تک 200 کلو پر تھی۔ لاہور سے آگے تو مولانا کا کنٹینر جہلم پہنچا تو لاہور سے آخری گاڑی جا چکی ہو گی۔ ملتان میں مولانا کے 4 مدرسے ہیں ۔ باقی مدارس نے بھی اخوت ایمانی کے جذبے کے تحت میزبانی کی ہو گی اور یہ 4 لاکھ لوگ تیس چالیس مدارس میں سما گئے۔ اگر 4 لاکھ کے لیے خیمے لگتے تو سینکڑوں مربع میل جگہ درکار تھی کیونکہ گاڑیاں بھی تو پارک کرنی تھیں۔ یہ چار لاہور کے دامن میں بھی کرشماتی طور پر سما گئے۔ اسلام آباد انتظامیہ کے ساتھ جے یو آئی کی مقامی لیڈر شپ کے معاہدے میں طے پایا کہ ان کی ڈیمانڈ پر چھ سو عارضی بیت الخلا بنائے جائیں گے۔ 15 لاکھ کے مردان مجاہد کے لےی صرف 6 سو واش روم، 15 لاکھ نہ سہی 6 لاکھ ہی کا اجتماع ہو۔ اگر ایک صاحب پانچ منٹ مصرفِ رہے تو پہلے کے بعد آخری کی باری آٹھ سال بعد آئے گی۔ وہ لائن میں لگا رہے گا۔
دیکھیں مولانا کے یکطرفہ معرکے کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ علامہ اقبال ویسے پیشنگوئی فرما گئے ہیں
میں جانتا ہوں انجام اس کا
جس معرکے کے ملا ہوں غازی
مولانا نے اس معرکے کا بیڑا اس وقت اٹھایا جب کشمیر ایشو کو کشمیر اور پاک حکومت عالمی اور مقامی سطح پر بلندیوں تک لے گئے تھے۔ بھارت نے ہمیشہ کشمیر ایشو پر گرد ڈالنے کی کوشش اور عالمی برادری سے اوجھل رکھنے کی سازش کی ۔ آزادی مارچ کے باعث کشمیر ایشو پسِ منظر میں چلا گیا کچھ حلقوں کی نظر میں یہ مولانا کی جانب سے مودی کی دانستہ طرف داری ہے جبکہ کچھ کے خیال میں دانستہ مودی کی سہولت کاری اور اجیت دوول کی نمک خواری ہو رہی ہے۔ مولانا کی اجیت دوول کے ساتھ ایک تصویر بھی سامنے آئی جس کی جے یو آئی نے اسی طرح وضاحت نہیں کی جس طرح مسلم لیگ ن کی جانب سے سجن جندال کی میاں نواز شریف کو خیریت دریافت کرنے کی نہیں کی گئی۔ حافظ حمد اللہ نے البتہ اعتراف کیا کہ یہ 2013ءکی تصویر ہے۔
ایسے موقع پر آزادی مارچ ایک سوالیہ نشان ہے۔ اگر مولانا یہ نیک نیتی حب الوطنی کے جذبے اور عوامی مشکلات کے خاتمے کے لیے کر رہے ہیں تو علامہ اقبال مزید ایک سوال چھوڑ گئے ہیں
ملا کی نظر نورِ فراست سے ہے خالی
لاہور میں مولانا کا قافلہ پہنچا تو مولانا نے فرمایا حکمران جانے والے ہیں اسلام آباد میں جشن منائیں گے۔ مولانا کے مارچ کا مقصد عمران خان کا استعفیٰ اور تحریک انصاف حکومت کا خاتمہ ہے۔ یہ مقصد مولانا بلاول کی خدمات سے استفادہ کر کے حاصل کر سکتے ہیں۔ بلاول نے کہا تھا لات مار کر حکومت گرا سکتا ہوں، وہ مارچ میں مولانا کے اتحادی و حمایتی ہیں ان کو لات مارنے کا کہہ دیں۔
اپنے مقصد میں کامیابی پر مولانا کو جشن منانے کا حق ہے مولانا نے یہ اعلان اس موقع پرکیا جب میاں نواز شریف کی اسلام آباد ہائیکورٹ نے دو ماہ کے لیے سزا معطل کی۔ اس پر لیگی لیڈروں اور کارکنوں نے جشن منایا مٹھائیاں تقسیم کیں۔ کچھ شرم ہوتی ہے، میاں نواز شریف کی صحت واقعی خراب ہے وہ زندگی اور موت کی کشمکش سے گزر رہے ہیں ایسے موقع شہباز شریف نے درست کہا کہ جشن نہ منایا جائے نواز شریف کی صحت کی د عا کی جائے۔ نواز شریف کی ڈرامہ بازی کی باتیں تو ہوتی رہتی ہیں مگر اب ان کی حالت واقعی تشویشناک ہے جس کی مصدقات اطلاعات پر ہی ان کی سزا معطل ہوئی اور حکومت ان کو ہر طرح کی سہولیات فراہم کر رہی ہے۔
وزیر اعظم نے میاں نواز شریف کو فوری طبی امداد کے لیے ایک جہاز بھی مختص کیا ہے۔ ایسے موقع پر ڈیل کی افواہیں گردش کر رہی تھیں میاں نواز شریف ڈیل کی پوزیشن میں نہیں ہیں دوسری طرف وزیراعظم عمران خان نے بھی این آر او کا پھر ورقہ پھاڑ دیا ہے۔ وہ بارہا کہہ چکے ہیں کہ کرپٹ لوگوں کے ساتھ سمجھوتہ غداری ہو گی۔ عمران خان سکھوں کے دلوں میں بھی پاکستان کے ساتھ پاکستان سے محبت کے دیپ جلا رہے ہیں کرتار پور راہداری 9 نومبر کو کھل رہی ہے۔ فی جاتری 20 ڈالر فیس رکھی گئی ہے جس پر مودی حکومت اور میڈیا واویلا کر رہا ہے جبکہ سکھ کمیونٹی اسے کم قرار دے رہی ہے۔ 20 ڈالر بھارتی کرنسی میں 2 ہزار روپے سے بھی کم بنتے ہیں۔ اگر ”مودیان“ کو یہ زیادہ لگتے ہیں تو وہ سبسڈی دے دیں۔ سکھ تو کرتارپور اور ننکانہ صاحب کی زیارت پر ایک ہزار ڈالر فیس کو بھی زیادہ نہیں سمجھتے۔ پاکستان کو بہرحال 20 ڈالر فی کس کی فیس سے 5 ہزار جاتریوں کی آمد سے 15 کروڑ کی آمدن ہو گی۔
سکھوں کے لیے اس مقام کی مٹی بھی امرت ہے۔ کرتارپور میں پانچ ہزار زائرین آئیں گے تو کھانا یہیں سے کھائیں گے تحفے تحائف بھی خریدیں گے پاکستان کی معیشت میں یہ راہداری ممد و معاون ثابت ہو سکتی ہے۔
سکھوں کے لیے بہترین تحفہ کرتارپور اور ننکانہ کا پانی ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے حکومتی سطح پر سوچنے اور واٹر پلانٹ لگانے کی ضرورت ہے۔