خونیں نہیں بے ضررلانگ مارچ

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع نومبر 03, 2022 | 05:58 صبح

عمران خان آج28اکتوبر کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا آغاز کر رہے ہیں۔14اگست 2014ء کو بھی لاہور سے ایک“دو دھاری“ لانگ مارچ  اسلام آباد کے لیے روانہ ہوا تھا۔ طاہر القادری اور عمران خان اس دن نواز شریف  حکومت کی لنکا ڈھانے نکلے تھے، اس دوران شہباز شریف حکومت نے لاہور کو کنٹینرز لگاکر سیل کر دیا تھا تاہم جیسے تیسے لاہور سے عمران، قادری قافلے وقفے وقفے سے روانہ ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب جلد تھک گئے اور وہاں اپنی قبر کھودنے کاا علان کیا اور واپسی کی راہ اختیار کی۔ عمران خان

126دن تک ڈٹے رہے  بالآخر اے پی ایس سانحہ کے وقوع پذیر ہونے پر اپنا دھرنا ختم کردیا، نواز شریف کی حکومت گرنے سے بچ گئی۔ عمران کاالزام تھا کہ 2013ء میں ان کو انتخابات میں ہروایا گیا ہے۔وہ چارحلقے کھولنے کا مطالبہ بھی کر رہے تھے۔ 

ایک لانگ  مارچ سولہ مارچ 2009ء کواسلام آباد کی طرف جسٹس افتخار محمد چودھری اور کئی ساتھی ججوں کی بحالی کے لیے میاں نواز شریف کی قیادت میں لاہور ہی سے روانہ ہوا تھا۔ یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم اور آصف علی زرداری صدرتھے۔ بھوربن میں میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے درمیان جسٹس افتخار چودھری کی بحالی کا معاہدہ ہوا تھا، زرداری صاحب  اقتدار میں آئے تو اس معاہدے پر عمل کرنے سے”جواب“ دے دیا۔ ساتھ ہی ایک ایسا جملہ ادا کیا جو تاریخی جملہ بن گیا”معاہدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے“۔ نواز شریف پبلک میں جسٹس صاحب سمیت ججوں کی بحالی کے وعدے کر چکے تھے لہٰذا حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے لانگ مارچ کا آپشن اختیار کیا گیا، اس مارچ کا عمران خان بھی حصہ تھے۔یہ مارچ لاہور سے ہی نکل کر گوجرانوالہ میں پڑاؤ پذیر  تھا کہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کا فون آ گیا۔ ججوں کی بحالی کا یقین دلا دیا گیا تو لانگ مارچ سرخرو ہو کرلوٹ گیا۔

عمران خان اب شہباز شریف کی حکومت گرانے کے لیے نہیں نکل رہے، وہ انتخابات کی تاریخ مانگ رہے ہیں، یہ عمران خان کا”دیرینہ مطالبہ“ ہے۔ چھ ماہ اور کچھ دن اوپرسے عمران خان فوری الیکشن پر زور دے رہے ہیں اُس وقت موجودہ اسمبلی کی مدت ختم ہونے میں قریبا ڈیڑھ سال پڑا تھا۔ کل وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ انتخابات 11ماہ بعد ہی ہوں گے جبکہ عمران خان "ابھی" کی تکرار کرتے ہوئے ہتھیلی پر سرسوں جمانے پر مُصر ہیں۔" ابھی الیکشن" کہتے کہتے چھ ماہ گزر گئے۔

عمران خان الیکشن کی تاریخ کا مطالبہ دہرا رہے ہیں، اب حکومت ان کا مطالبہ آسانی سے پورا کر سکتی ہے۔ اپریل 2022ء کے شروع میں اگر حکومت چار پانچ ماہ اسمبلی کی مدت ختم ہونے سے قبل انتخابات کے انعقاد پر رضا مندی ظاہر کر دیتی تو عمران خان کبھی نہ مانتے۔ وہ حکومت کو ایک سال دینے پر تیار نہ ہوتے۔ آج حکومت اسمبلی کی مدت ختم ہونے سے   چار پانچ ماہ قبل الیکشن کرانے پر آمادہ ہوتی ہے تو وہ انتخابات آج سے پانچ  چھ  ماہ بعد ہونگے۔عمران خان دو تین ماہ سے زیادہ  وقت دینے کو تیار نہیں ہیں، درمیان میں کچھ لوگ پڑیں گے تو درمیانی راستہ بڑی آسانی سے نکل آئے گا۔ ہر دو فریقین کو فیس سیونگ مل جائے گی، اس کا زیادہ فائدہ حکومت کوہوسکتاہے، وہ اس طرح کہ ملک میں سیاسی غیر یقینی کی صورت حال کا خاتمہ ہوگا جو معیشت کی مضبوطی کے لیے اولین شرط ہے۔ حکومت کے عوامی ریلیف کے لیے بہتر طور پر کام کرنے کی پوزیشن میں ہوگی،اب جو مارچ خطرناک نظر آرہا ہے۔فیصل واؤڈا نے دھواں دار پریس کانفرنس میں کہا۔”لانگ مارچ میں لاشیں دیکھ رہا ہوں۔“واؤڈا کی پریس کانفرنس کو پی ٹی آئی مخالف لوگ تان کی”لے“ کی طرز پر اُٹھارہے ہیں۔میاں نواز شریف نے اس پر کہا۔”واوڈا نے بھی کہا لانگ مارچ خونیں ہوگا۔“فیصل واوڈا ایک کانفرنس کر کے راتوں راتوں معتبر اور محبوب ہوگئے۔عمران خان کا یہ لانگ مارچ بے ضرر ہے اور بغیر ڈنک کے ہے،حکومت جب چاہے اسے بغیر کوئی سخت قدم اُٹھائے ڈی فیوز کرسکتی ہے۔

ارشد شریف کو جس طرح کینیا میں قتل کیا گیا، اس سے بڑے سوالات پیدا ہوئے ہیں، اس حوالے سے ایک بے بنیاد مہم بھی چلائی گئی اور چل رہی ہے۔افواہ سازمیدان میں کود چکے ہیں۔ایک کے بعد ایک سازشی تھیوری سامنے آرہی ہے۔حکومت نے تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دیدی ہے۔پاک فوج بھی یہی کہہ رہی تھی،یہ کمیٹی ایف آئی اے اور آئی بی کے نمائندوں پر مشتمل ہے،پہلے اس میں آئی ایس آئی کو بھی شامل کیا گیا تھا۔آئی ایس آئی کی نمائندگی سے تحقیقاتی کمیٹی مزید معتبر ہوتی۔اُدھر خود ساختہ کمیٹیاں خود کار طریقے سے بروئے عمل ہوکر اپنی اپنی رپورٹس سامنے لا کرانہیں مستند قرار دے رہی ہیں۔  

 قاتل کسی بھی صورت شناخت سے نہیں بچ سکتا۔ قاتل کتنا بھی چالاک اور شاطر ہو جتنی بھی بے سُقم پلاننگ کر لے اپنے جرم کاکوئی نہ کوئی نشان ضرور چھوڑ جاتا ہے اور بہت کچھ ایسا بھی ہوتا ہے جو اس کی پلاننگ کو چوپٹ کر دیتا ہے۔ ایسا اس کے وہم و گماں میں بھی نہیں ہوتا۔مثلاً کوئی واردات کے لیے جاتا ہے: اس نے پُل سے گزرنا ہے، پل ٹوٹ جاتا ہے یا بلاک ہوجاتا ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ چلتے چلتے آنکھ میں مچھر پڑجائے،سانپ ڈس لے، پاؤں میں موچ آجائے …… اور بھی کچھ کسی وقت ہو سکتا ہے۔ ارشد شریف کو کینیا پولیس نے قتل کیا وہ اسے اپنی غلطی قرار دے رہی ہے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کسی کے ایما پر یہ سانحہ ہوا ہے۔اگر ایسا ہے تووہ چہرے بے نقاب ہو کر رہیں گے۔اس حوالے سے پاکستان کے کسی ادارے کے اعلیٰ حکام کا ملوث ہونا قطعی بعید از قیاس ہے۔ 

وزیراعظم شہباز شریف کے  دورہ سعودی عرب کی ٹائمنگ بڑی زبردست تھی۔امریکہ سعودیہ تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں۔امریکہ کے رویے کے باعث سعودی عرب کو ایک بار پھرعالمی تنہائی کا سامنا ہوسکتا ہے۔اس موقع پر وزیر اعظم کے دورہ سعودیہ سے حرمین شریفین کے نگہبانوں کو حوصلہ ملا ہے۔اس دورے کے پاکستان کی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہونے کے قوی امکانات ہیں اور وہ اسی صورت ہوسکتے ہیں جب ملک میں سیاسی استحکام ہو۔ لہذا ضروری ہے کہ سیاسی استحکام میں بڑی رکاوٹ لانگ مارچ مسٹری کا خوشگوار ڈراپ سین ہو جو اب ناممکن نظرنہیں آتا۔خونیں نظر آنے والے لانگ مارچ کوآسانی سے بے ضرر بنایا جاسکتاہے۔