2019 ,ستمبر 27
سعودی عرب کے شہر بریدہ کے لوگ اور عدالت دونوں کیلئے فیصلہ دشوار ہی نہیں دو بھر ہوگیا تھا۔دو بھائیوں کے درمیان جھگڑے کا مقدمہ اس قدر سنگین صورت اختیار کرگیا کہ اس کا فیصلہ پنچایت میں نہیں ہوسکا، بلکہ مقدمہ ہائی کورٹ تک پہنچ گیا۔ یہ مقدمہ انوکھی اور نرالی نوعیت کا تھا، اخبارات نے اسے نمایاں طورپر شائع کیا۔ روزنامہ ’’الریاض‘‘ کے مطابق :۔اس کا نام حیزان تھا۔ سعودی عرب کے معروف شہر ’’ بریدہ‘‘ سے 90 کلو میٹر کے فاصلے پر ’’ اَسیاح‘‘ نامی ایک بستی ہے۔ حیزان نامی بوڑھا اسی بستی کا رہنے والا تھا۔ جب مقدمہ بائی کورٹ پہنچا تو وہ بوڑھا شخص لوگوں سے کھچاکھچ بھری ہوئی عدالت میں اس قدر رویا کہ اسکے آنسوئوں سے اسکی داڑھی بھیگ گئی، آخر کیوں؟
اس بوڑھے نے بھری عدالت میں لوگوں کے سامنے آنسو کیوں بہائے؟ کیا اس لیے کہ اسکے بیٹوں نے اسکے ساتھ ناروا سلوک کیاتھا؟ کیا اس لیے کہ زمین کے کسی مقدمے میں اسکی ہار ہونیوالی تھی؟ یا اس لیے کہ اسکی بیوی نے اس عمر میں اس پر خلع کا مقدمہ دائر کردیا تھا؟جی نہیں، ان میں سے کوئی بھی وجہ نہیں تھی۔ دراصل وہ بھائی کے مقابلے میں اپنی ماں کا مقدمہ ہارنے کی وجہ سے تڑپ رہاتھا۔ اس ماں کا مقدمہ، جس کے پاس پیتل کی ایک انگوٹھی کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔
یہ بڑھیا اپنے بڑے بیٹے حیزان کے ساتھ رہتی تھی۔ حیزان اپنی ماں کے ساتھ انتہائی حسن سلوک سے پیش آتا۔ حتی المقدور اسکی خدمت کرتا تھا۔ بوڑھی ماں بھی اسکے ساتھ خوش تھی۔ جب حیزان کی عمر زیادہ ہوگئی، ایک دن اس کا چھوٹا بھائی اس کے گھر آیا۔ وہ دوسرے شہر میں رہتا تھا۔ اس نے بڑے بھائی کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ آج کے بعد ماں اسکے ساتھ رہے گی۔ اس نے اعلان کیا کہ وہ شہر سے ماں کو لے جانے کیلئے ہی آیا ہے۔یہ بات حیزان کیلئے بہت تکلیف دہ تھی۔ وہ کہنے لگا: بھائی! اگرچہ میں بوڑھا ہوچکا ہوں اور تم میرا بڑھاپا دیکھ کر یہ سمجھ رہے ہو کہ میں اپنی والدہ کی اچھی طرح خدمت نہیں کرسکوں گا، لیکن تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ میں آج بھی اپنی والدہ کی خدمت اسی طرح کرنے کے قابل ہوں جیسا کہ اس سے پہلے کرتا تھا۔ تمہیں میرے بارے میں غلط فہمی ہوئی ہے۔ میں ہرگز گوارا نہیں کرسکتا کہ میری ماں میری آنکھوں سے اوجھل رہے۔ میں جیتے جی ایسا ہرگز نہیں ہونے دوں گا۔ اگر تم نے ایسا کیا تو میں زندگی بھر بے قرار رہوں گا اس لیے مجھ پر احسان کرو اور ماں کو اپنے ساتھ شہر لے جانے کی کوشش نہ کرو۔چھوٹے بھائی نے جواباً عرض کیا: بھائی جان! آپ طویل عرصے سے ماں کی خدمت کررہے ہیں اور بلاشبہ آپ نے والدہ کی خدمت میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔ جتنا ہوسکا آپ نے والدہ کی خدمت کی۔ اب آپ بوڑھے ہوچکے ہیں، ایسی صورت میں آپ خود اپنے بچوں کی خدمت کے محتاج ہیں، اس لیے آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ والدہ کو میرے ساتھ شہر جانے دیں۔ میں ابھی آپ کی نسبت صحتمند ہوں، میرے بچے بھی دادی کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ میری بیوی بھی ساس کی خدمت کرنا چاہتی ہے، اس لیے آپ ہمیں ماں کی خدمت کا موقع فراہم کریں۔
دونوں بھائیوں میں بحث ہوتی رہی۔ دونوں میں سے کوئی بھی اپنی ماں کو خود سے جدا کرنے پر راضی نہ تھا۔دونوں ہی ماں کو اپنے ساتھ رکھنے کیلئے اصرار کررہے تھے۔ ہر چند حیزان بوڑھا ہوچکا تھا، مگر اسے ماں سے جدائی گوارا نہ تھی۔دونوں بھائیوں کے درمیان بحث بڑھتی دیکھ کر پڑوس کے لوگوں نے معاملہ سلجھانے کی کوشش کی۔ لیکن لوگوں کو یہ دیکھ کر بہت حیرت ہوئی کہ دونوں بھائیوں میں سے کوئی بھی ماں سے جدا رہنے پر تیار نہ تھا۔ دونوں اپنی اپنی دلیل سے ایک دوسرے کا مسکت جواب دے رہے تھے۔جب یہ معاملہ حل نہ ہوسکا اور لوگوں کی مصالحانہ جدوجہد بھی اس مقدمے کو حل کرنے سے قاصر رہی تو آخرکار یہ مقدمہ ہائی کورٹ پہنچ گیا۔ مقدمہ دونوں بھائیوں کی طرف سے دائر ہوا۔جج کے پاس یہ مقدمہ پہنچا تو اسے بڑی حیرت ہوئی۔ اس نے اس کیس کو ہر اعتبار سے جانچا، دیکھا، تولا اور پرکھا، اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کیا کرے؟ پھر اس نے دونوں بھائیوں کو اپنے چیمبر میں بلایا اور یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ ان میں سے کوئی ایک بھائی اپنی ماں کو دوسرے بھائی کے پاس رکھنے پر راضی ہوجائے۔ مگر جج کی ساری کوششیں ناکام ثابت ہوئیں۔دونوں بھائیوں میں سے کوئی بھی ماں کے فراق پر راضی نہ تھا۔ جج کو جب کسی طرح بھی بات بنتی نظر نہ آئی تو اس نے بوڑھی ماں کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔ جج کا مقصد یہ تھا کہ وہ اس معاملے میں ماں کی رائے سے بھی آگاہ ہوجائے کہ آخر خود ماں کی کیا مرضی ہے؟ وہ اپنے بڑے بیٹے حیزان کے ساتھ رہنا چاہتی ہے یا چھوٹے بیٹے کے ساتھ جانا چاہتی ہے؟
جج کے حکم کے مطابق دونوں بھائیوں نے اپنی نوے سالہ والدہ کو ایک وہیل چیئر پر بٹھاکر عدالت میں پیش کیا۔ بڑھیا کا وزن کوئی بیس 20 کلو گرام تھا، کیونکہ وہ بہت بوڑھی ہوچکی تھی۔ اس کے جسم میں گوشت پوست کی بجائے ہڈیاں ہی ہڈیاں باقی رہ گئی تھیں۔ (جاری)