نظریہ پاکستان کے محافظ مجید نظامی کا یوم ولادت

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اپریل 03, 2017 | 10:43 صبح

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک):  کی ولادت سانگلہ ہل ضلع شیخوپورہ میں 3 اپریل 1928ءکو ہوئی۔ آپ نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول سانگلہ ہل سے حاصل کی۔ بعدازاں لاہور آگئے اور اسلامیہ کالج ریلوے روڈ سے ایف اے اور گریجوایشن گورنمنٹ کالج لاہور سے کی جبکہ ایم اے پنجاب یونیورسٹی سے 1954ءمیں کیا۔ اسلامیہ کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران ہی انہوں نے مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے پلیٹ فارم تحریک پاکستان میں بھی سرگرم عمل رہے۔ آپ کی خدمات کے اعتراف میں نوابزادہ لیاقت علی خان نے ”مجاہد تحریک پاکستان“ کے اعزاز کے طور پر اعزازی تلوار پیش کی۔
 تعلیم مکمل کرنے کے بعد ”نوائے وقت“ کا حصہ بن کر عملی صحافت کا آغاز کیا۔ اس کے کچھ عرصے بعد اعلیٰ تعلیم کے لئے لندن چلے گئے۔ اس دوران وہاں سے باقاعدگی سے نوائے وقت کے لئے مکتوب لکھتے رہے۔ حمید نظامی کی بیماری کی اطلاع ملنے پر واپس آگئے اور ان کی وفات کے بعد روزنامہ ”نوائے وقت“ کی ادارت سنبھالی اور اخبار کو نئی جہت عطا کی۔ اس دوران نامساعد حالات کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ہر دور میں جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کی پالیسی پر گامزن رہے اور ادارہ کو مستحکم بنانے کے لئے دن رات تگ و دو کی جس کے نتیجہ میں انگریزی اخبار نیشن، ہفت روزہ فیملی میگزین، ہفت روزہ نوائے وقت اور ماہنامہ پھول کا اجرا کیا۔ مجید نظامی 26 جولائی 2014ءکو اس جہان فانی سے کوچ کر گئے لیکن انہوں نے خون جگر سے جس طرح صحافت کو مشن کے طور پر زندہ رکھا اس کی مثال نہیں ملتی۔ اسی طرح ان کی ساری زندگی نظریہ پاکستان کے لئے ہی وقف رہی تاکہ نئی نسل کو بھی معلوم ہو کہ یہ ملک کس طرح اور کتنی قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا۔ ان کی تحریریں اور تقریریں نظریہ پاکستان اور بانی پاکستان قائداعظم کی ترجمانی کرتی ہیں۔ 25 دسمبر 2015ءکو بابائے قوم کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں ”قائداعظم محمد علی جناح بیسویں صدی کے سب سے قدآور سیاسی رہنما اور مدبر تھے۔ انہوں نے اپنی بے مثال قیادت اور فراست سے برصغیر کے مختلف حصوں میں منتشر اور دل شکستہ مسلمانوں کو ایک قوم کی صورت یکجا کر دیا اس کے لئے ایک سمت کا تعین کیا اور مادی وسائل سے تہی دامن ہونے کے باوجود اس کے لئے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی فلاحی مملکت تخلیق کر دکھائی۔

 امریکی مورخ سٹینلے والبرٹ نے بانی پاکستان کی تاریخ ساز شخصیت کی بڑی صحیح عکاسی کی ہے۔ اس کے مطابق ”بہت کم شخصیات تاریخ کے دھارے کو قابل ذکر انداز سے موڑتی ہیں اس سے بھی کم وہ افراد ہیں جو دنیا کا نقشہ بدلتے ہیں اور ایسا تو شاید ہی کوئی ہو جسے ایک قومی ریاست تخلیق کرنے کا اعزاز حاصل ہو۔ جناح نے یہ تینوں کام کر دکھائے“۔
پاکستان اللہ کا عطاکردہ ایک تحفہ ہے جو حضرت قائداعظم کی معرفت ہمیں ملا۔ اگر قائداعظم نہ ہوتے تو پاکستان نہ بن پاتا۔ پاکستان کی بدولت ہی ہم آزاد ہیں۔ آزادی سب سے بڑی نعمت اور غلامی بالخصوص ہندو کی غلامی سب سے بڑی لعنت ہے۔ اگر پاکستان نہ بنتا تو ہم ہندوﺅں کے غلام ہوتے اور اگر آپ ہندو کی غلامی کا اندازہ لگانا چاہیں تو بھارت چکر لگا آئیں وہاں کے مسلمانوں کی حالت زار سے آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ ہندو کی غلامی کس چیز کا نام ہے؟ دوران تعلیم مجھے متعدد مرتبہ حضرت قائداعظم سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا اور ان کی تقاریر بھی سنیں۔ اگر پاکستان نہ بنتا تو آج ہمیں جو خوشحالی نظر آرہی ہے یہ نہیں ہونی تھی۔ ہم ایوان اقبال کے بعد اب ایوان قائداعظم بھی بنا رہے ہیں۔ پاکستان نہ ہوتا تو یہ عمارتیں بھی قائم نہ ہوتیں۔ ہم نے اپنی نالائقی سے ایک سے دو پاکستان بنا دیئے۔ آج بنگلہ دیش میں شیخ مجیب کی بیٹی جماعت اسلامی کے رہنماﺅں کو پھانسی دے رہی ہے جبکہ اس نے پاکستان کے حامیوں کی فہرست بھی بنا رکھی ہے۔ شیخ مجیب الرحمن یہاں گرفتاری کے بعد رہا ہو کر واپس جارہے تھے اور بنگلہ دیش بنانے پر تلے ہوئے تھے۔ وہ اس وقت ملک غلام جیلانی کے گھر ٹھہرے ہوئے تھے تو میری وہاں ان سے ملاقات ہوئی۔ میں نے ان سے کہا کہ مجیب صاحب پاکستان کی مخالفت نہ کریں۔ الیکشن ہونے والے ہیں آپ کی اکثریت ہوئی تو آپ حکومت کریں گے۔ انہوں نے مجھ سے کہا مجید بھائی، یہ فوجی مجھے حکومت نہیں کرنے دیں گے۔ (تمام بنگالی بھائی مجید بھائی کا لفظ استعمال کرتے تھے)۔ میں نے کہا آپ ایک کی بجائے دو دارالحکومت بنا لیں اور ڈھاکہ سے بیٹھ کر حکومت کریں لیکن انہوں نے میری بات نہیں مانی کیونکہ وہ بنگلہ دیش بنانے پر تلے ہوئے تھے۔ یہ سو فیصد بکواس ہے کہ قائداعظم سیکولر تھے اور وہ پاکستان کو سیکولر ملک بنانا چاہتے تھے۔ قائداعظم پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانا چاہتے تھے لیکن انہیں موقع نہ ملا۔ اگر انہیں موقع ملتا تو وہ پاکستان کو صحیح معنوں میں ایسا پاکستان بناتے جیسا علامہ محمد اقبال چاہتے تھے۔ میری اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ پاکستان کو قائداعظم، علامہ محمد اقبال اور مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کا پاکستان بنا دے۔

نظریہ پاکستان کے حوالے سے 23 مارچ 2014ءکو ایک تقریب میں صدارتی خطاب میں فرمایا 23مارچ ہماری تاریخ کا اہم ترین دن ہے اور میں اسے 14 اگست سے بھی اہم دن مانتا ہوں، 23مارچ کو اسی شہر لاہور کے منٹو پارک میں جمع ہو کر مسلمانان ہند نے حضرت قائداعظم کی زیر صدارت منعقدہ اجلاس میں حضرت علامہ محمد اقبال کے وژن کے مطابق مسلمانوں کے اکثریتی صوبوں پر مشتمل علیحدہ وطن کے حصول کا عہد کیا۔ اس قرار داد کی منظوری کے بعد حضرت قائداعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں سات سال کے مختصر عرصہ میں یہ ملک حاصل کر لیا گیا۔ میرے خیال میں تاریخ میں ایسا آج تک کبھی نہیں ہوا۔ حضرت قائداعظم اور علامہ اقبال کے وژن کے مطابق پاکستان کو ایک جدید اسلامی جمہوری فلاحی ملک بننا تھا لیکن 66 سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود پاکستان اسلامی جمہوری فلاحی ملک نہیں بن سکا ہے۔ ہم نے آدھا وقت فوجی آمروں اور آدھا وقت ان کے گردیدہ سیاسی رہنماﺅں کے سائے میں گزار دیا۔ میرے خیال میں اب اس دور کا ختم ہونا چاہئے۔ یہ ایوان ہمیں غلام حیدر وائیں شہید نے بنوا کر دیا اور انہوں نے ہی اس کام کی ابتداءکی۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہم ان کے تحفظ اور ترویج و اشاعت کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔ ہم نئی نسل کو اس بات سے آگاہ کر رہے ہیں کہ بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے جس نے ہمارے وجود کو آج تک دل سے قبول نہیں کیا اور ہر وقت ہمیں عدم استحکام سے دو چار کرنے کی کوششیں کرتا رہتا ہے۔ وہ پاکستان کو ریگستان بنانا چاہتا ہے۔
بھارت نے کشمیر پر قبضہ کر لیا اور جب جھگڑا ہوا تو مجاہدین کشمیر میں داخل ہو کر سری نگر تک پہنچ گئے مگر انہیں فوجی کمک نہ ملی اور وہ واپس آ گئے۔ نہرو اس مسئلہ کو لے کر اقوام متحدہ چلا گیا اور اقوام متحدہ میں یہ قرارداد منظور ہوئی کہ کشمیریوں کو اس بات کا فیصلہ کرنے دیا جائے کہ وہ پاکستان یا بھارت میں سے کس کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں لیکن ہندو رہنما بعد میں اس قرار داد سے مکر گئے اور آج تک مکر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہم ایک ایٹمی قوت ہیں ورنہ بھارت (خدانخواستہ) ہمارا ستیا ناس کر چکا ہوتا۔
میں ایک متحدہ مسلم لیگ دیکھنا چاہتا ہوں اور خدا کرے کہ میری زندگی میں ہی یہ دن آ جائے کیونکہ میرے خیال میں پاکستان کو بنانے والی جماعت ہی اسے موجودہ تباہ کن مسائل سے نجات دلا سکتی ہے۔ میری آپ سے گزاری ہے کہ آئندہ انتخابات میں سوچ سمجھ کر ان لوگوں کو ووٹ دیں جو پاکستان کو قائداعظم اور علامہ اقبال کے وژن کے مطابق ایک جدید اسلامی جمہوری فلاحی ملک بنا سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ بطور خاص کشمیر کو قوت بازو سے لے کر ہمیں دے سکیں۔ ہم ایک ایٹمی قوت ہیں اور کشمیر حاصل کرنے کے لئے ہمیں اس قوت کو بھی استعمال کرنا پڑے تو ضرور کریں۔ اگرچہ جوابی حملہ بھی ہوگا لیکن یاد رکھیں کہ جاپان پر ایک امن پسند ملک پر امریکہ نے دو ایٹمی حملے کیے اور اس کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی کو تباہ کر دیا لیکن آج جاپان پہلے سے زیادہ خوشحال ہے۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ کشمیر کو اپنا نصب العین بنائیں اور اسے حاصل کریں۔ 23 مارچ اسی وقت مکمل ہوگا جب ہم اس کے تقاضوں کو پورا کریں گے کیونکہ پاکستان ابھی نامکمل ہے ہمارا ایکٹ بازو ہم سے الگ ہو چکا ہے۔ میری دعا ہے کہ وہ دوبارہ پاکستان کا حصہ بنے اور مغربی و مشرقی پاکستان پر مشتمل از سر نو ایک ملک ہو اور پاکستان از سر نو دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک بن جائے۔ ایک وقت تھا کہ لوگ نظریہ پاکستان کا مذاق اڑاتے تھے لیکن آج بھی وہ اس نظریے کے حامی ہیں۔ نظریہ پاکستان ہی پاکستان کی بنیاد ہے۔ دو قومی نظریہ یعنی ہندو اور مسلمان ہر لحاظ سے الگ قوم ہیں۔ ازراہ کرم نئی نسل کو یہ بات سمجھائیں اور اسے نصاب تعلیم میں بھی شامل کیا جائے۔ ہم یہ کام کر رہے ہیں اور حکومت سے بھی بار بار کہہ چکے ہیں کہ وہ بھی یہ کام کرے ورنہ ان کی چھٹی ہو جائے گی۔ آپ کشمیر کیلئے لڑنے مرنے کیلئے تیار رہیں کیونکہ قائداعظم کے بقول یہ ہماری شہ رگ ہے۔