2020 ,اگست 22
رزاق جھرنا کی پیپلز پارٹی جانب سے ہر سال برسی کا اہتمام کیاجاتاہے ۔ اس مرتبہ بلاول بھٹو کی جانب سے رزاق جھرنا کو خراج تحسین پیش کرنے کی چھوٹی سی خبر شائع ہوئی۔ جھرنا کو پیپلز پارٹی شہید کا درجہ دیتی ہے۔ رزاق جھرنا کو چودھری ظہور الٰہی کے قتل کیس میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں پھانسی دی گئی تھی۔ اسکی گرفتاری کی روداد بھی حیران کن ہے۔ یہ داستاں ڈاکٹر غضنفر حفیظ نے چند سال قبل ایک تحریر میں بیان کی تھی جو کیمپ جیل میں ڈاکٹر تعینات تھے۔ چودھری ظہور الٰہی مولوی مشتاق حسین اور ایڈووکیٹ رحمن کے ساتھ بلٹ پروف کار میں سفر کر رہے تھے۔ لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مولوی مشتاق نے نواب احمد رضا خان قصوری کے قتل میں بھٹو کو سزائے موت سنائی اور سماعت کے دوران ان کا رویہ شدید تلخ و ترش بیان کیا جاتا ہے۔ چودھری ظہور الٰہی بھٹو کے مخالفین میں شامل اور اُنکے دور میں انتقام کا نشانہ بھی بنتے رہے۔ کہا جاتا ہے چودھری ظہور الٰہی نے جنرل ضیاء الحق سے بھٹو صاحب کی پھانسی پر دستخط کرنے والا یادگار قلم تفویض کرنے کی درخواست کی تھی۔ الذوالفقار ان دنوں پاکستان میں دہشتگردی کیلئے اعلانیہ سرگرم تھی۔ جھرنا کا ٹارگٹ تو شاید مولوی مشتاق تھے تاہم چودھری ظہور الٰہی اور ان کا ڈرائیور جاں بحق ہو گئے۔ چودھری صاحب عموماً ایگزیکٹو سیٹ پر بیٹھتے تھے، اس دن مولوی مشتاق کو عزت دینے کیلئے خود آگے بیٹھ گئے اور قاتل کانشانہ بن گئے۔مولوی مشتاق طبعی موت سے ہمکنار ہوئے۔انکے جنازے کے دوران عجب واقعہ اس وقت پیش آیاجب شہد کی مکھیاں جھپٹ پڑیں اور بھگدڑ مچ گئی۔پی پی پی والے اسے معجزہ قرار دیتے ہیں فریق ثانی کا مؤقف ہے کہ کسی نے چھتے پر روڑہ ماردیا تھا۔
اب چودھری ظہور الٰہی کے قاتل کی گرفتاری کی کہانی بھی ملاحظہ کیجئے" قاتل نے نو عمر دوست کو بریف کیس دیا کہ وہ اسکی بہن کے گھر کراچی پہنچا دے۔ اسے کچھ اندازہ تھا کہ رزاق جھرنا کی حرکات مشکوک ہیں، اِس لئے اُس نے انکار کر دیا۔ رزاق کے دھمکی دینے پر وہ مان گیا اور ٹرین پر سوار ہو گیا۔ جب صبح کے وقت ساہیوال سٹیشن پہنچا تو اخبار میں خبر پڑھی کہ چودھری ظہور الٰہی قتل کر دیئے گئے، اس کو یقین ہو گیا کہ یہ کارروائی اسکے دوست رزاق کی ہے۔ وہ ساہیوال سے کراچی جانے کے بجائے لاہور واپس آ گیا۔ اس نے سوچا کہ بریف کیس کا کیا کِیا جائے، تو اس نے اس کو ایک گندے نالے میں پھینک دیا۔ وہ بریف کیس پریشانی کی وجہ سے زیادہ دور تک نہ پھینک سکا اور نالے کے کیچڑ میں گر گیا۔ تھوڑی دیر میں لوگ بریف کیس کے نزدیک اسے دیکھنے جمع ہو گئے ۔وہ بھی ہجوم میں کھڑا دیکھتا رہا۔ کسی نے پولیس کو اطلاع کر دی ، پولیس والے بریف کیس کو اُٹھا کر تھانے لے گئے۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ یہ کہانی مجھے جیل میں اس شخص نے سُنائی جس نے بریف کیس پھینکا تھا۔ اسے ہرگز معلوم نہ تھا، اس میں کیا ہے۔اسے کھولنے پر کلاشنکوف اور کچھ وزیٹنگ کارڈ برآمد ہوئے، جن سے تفتیش کے دوران وہ رزاق تک پہنچے۔ رزاق نے اپنے دوستوں کو کہانی بتائی کہ اس نے گاڑی پر برسٹ مارا‘ بُلٹ پروف ہونے کے باعث گاڑی کوکوئی نقصان نہیں ہوا۔ ڈرائیور نے گھبرا کر شیشہ نیچے کر دیا اور جھانکا کہ کیا ہوا ہے۔ رزاق نے ایک گرنیڈ شیشہ نیچے ہوتے ہی اندر پھینک دیا۔ اس حملے میں ایڈووکیٹ رحمن بالکل محفوظ رہے، جبکہ مولوی مشتاق کافی زخمی ہوئے۔ اس مقدمہ میں مرتضیٰ بھٹو شریک ملزم تھا"۔
ایک وقت آیا جب الذوالفقار کے خالق مرتضیٰ بھٹو اپنی ہمشیرہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کے دوران ہولناک طریقے سے قتل کر دئیے گئے۔ مرتضیٰ بھٹو نے جنرل ضیاء الحق کا طیارہ تباہ ہونے کے فوری بعد اسے الذوالفقار کی کارروائی قرار دیا تھا مگر وہ اپنے اس دعوے پر قائم نہ رہے ۔
چند روز قبل 17 اگست 2020ء کو توشہ خانہ ریفرنس میں احتساب عدالت میں زرداری صاحب کی پیشی پر اودھم و اژدہام سے بچنے کیلئے سکیورٹی سخت تھی۔ پی پی پی کے کارکن اور لیڈر شاید گھروں سے نکلے لیکن عدالت نہ پہنچ سکے۔ اس پر بلاول شدید برہم نظر آئے اور میڈیا ٹاک میں کہا کہ آج مینگو ڈے بھی ہے اور ضیاء الحق اسی روز کریش ہوئے تھے۔ اس طنز کو کوئی سفاکانہ اور کوئی بلاول کی طفلانہ ذہنیت کا شاخسانہ قرار دیتا ہے۔
جنرل ضیاء الحق 17 اگست 1988ء کو بہاولپور سے پاک فضائیہ کے سی ون تھری زیروہرکولیس طیارے میں واپسی پر اُڑان بھرتے ہی گرنے سے تیس سے زائد سواروں سمیت ریت اور خون میں مل گئے تھے۔ ان میں ڈی جی آئی ایس آئی کے طور پر افغانستان میں روسی ٹینکوں ، توپوں سمیت روسیوںکا قبرستان بنانے کا کریڈٹ رکھنے والے جنرل اختر عبدالرحمن جو شہادت کے وقت جوائنٹ سروسز چیف تھے، بھی شامل تھے۔ امریکی سفیر اور ایک امریکی مہمان بریگیڈیئر جنرل جنرل بھی اس حادثے میں مارے گئے۔ دو درجن سے زائد پاک فوج کے اعلیٰ افسران کریش میں شہید ہوئے۔ کہا جاتاہے بہاولپور سے جہاز میں آموں کی پیٹیاں بھی رکھوائی گئی تھیں۔ ان میں بارود ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے۔ ملک کا سربراہ ایک حادثے میں مارا جائے تو کہرام تو مچنا ہی تھا۔ اس پر ایک عرصہ سے زیر عتاب پیپلز پارٹی کے لیڈروں نے سُکھ کا سانس لیا ، ان میں سے کئی قید کاٹ رہے تھے کئی جلاوطنی کی اذیت میں تھے اور کئی کوڑوں کی ٹیسوں کو سہلا رہے تھے۔ ملک میں افسردگی کی فضا کے ساتھ ساتھ جنرل ضیاء کے مخالفین دبے لفظوں خوشی کا اظہار کر رہے تھے۔ پی ٹی وی کے نیوز کاسٹر اظہر لودھی اگلے روز جنرل ضیاء کی تدفین کی براہِ راست صورتحال بتاتے ہوئے رو ہی نہیں رہے تھے بین بھی کر رہے تھے۔ پھر جب بینظیر بھٹو، جنرل ضیاء کی شہادت کے چند ماہ بعد حکومت میں آئیں تو رات کو خبرنامے میں اظہر لودھی ہی خبریں پڑھ رہے تھے۔ان سے بینظیر بھٹو کی حلف برداری کی خبر دو بار پڑھوائی گئی۔ اسکے ساتھ ہی جنرل ضیاء الحق خود اور ان کا دورِ اقتدار تاریخ کا حصہ بن گیا۔ تاہم انکے خیرخواہ انکی یادوں کے چراغ جلاتے رہے۔ ان میں میاں نواز شریف سرِفہرست تھے۔ میاں صاحب کئی سال تک جنرل ضیاء الحق کے مشن کی تکمیل کا عزم نجی محفلوں اور بڑے بڑے اجتماعات میں فخریہ دہراتے رہے۔ جنرل صاحب نے نواز شریف کو اپنی عمر لگنے کی دعا دی تھی۔ وہ نواز شریف کو گمنامی سے شہرت کی بلندیوں تک لے گئے۔ ایک نوازشریف ہی نہیں بہت سے اور لوگوں کا مستقبل بھی جنرل ضیاء الحق کی نوازشات و مراعات سے روشن ہوا۔ راجہ ظفر الحق کو ضیاء الحق سے زیادہ قربت کا اعزاز حاصل تھا‘ وہ اب معلوم نہیں وہ اسے اعزاز سمجھتے ہیں یا میاں نواز شریف کی طرح لاتعلق ہونے کی کوشش کرتے ہیں تاہم خواجہ آصف جنرل ضیاء کا ساتھ دینے پر اپنے والدکے فیصلے کو غلط قرار دیتے ہیں۔ خواجہ صفدر کو ضیاء الحق نے مجلس شوریٰ کا چیئرمین بنایا تھا۔ 1986ء کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد خواجہ صفدرکو سپیکر قومی اسمبلی کیلئے فوجی حکومت کی طرف سے نامزدکیا گیا۔ انکے مقابل سید فخر امام آئے جن کی کامیابی کے امکانات معدوم تھے مگر ووٹوں میں حیران کن طور پر سید فخر امام کو برتری حاصل ہو گئی مگر کچھ ہی عرصہ بعد فخر امام کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک لا کر حامد ناصر چٹھہ کو سپیکر منتخب کرایا گیا۔
راجہ ظفر الحق کو ضیاء کا اوپننگ بیٹسمین کہا جاتا تھا۔ 1996ء میں صدر فاروق لغاری نے بینظیر بھٹو شہیدکی حکومت کا خاتمہ کیا تو بینظیر انکے بارے اپنے جذبات کی شدت کا اظہار انکی وابستگی ضیاء الحق کے سیاسی وارثوں سے ملاتے ہوئے انہیں فاروق الحق کہا کرتی تھیں۔ احسن اقبال کی والدہ محترمہ آپا نثار فاطمہ بھی جنرل ضیاء الحق کے ساتھیوں میں شامل تھیں۔ شاہد خاقان عباسی کے والد خاقان عباسی اوجڑی کیمپ میں اسلحہ کا ڈپو پھٹنے سے آوارہ راکٹ کار سے ٹکرانے شہید ہوگئے تھے۔
جنرل ضیاء الحق کی اپنی ہی قائم کردہ حکومت انکی نظروں سے جلد ہی اپنا وقار کھو بیٹھی۔ محمد خان جونیجو ایک شریف وزیر اعظم تھے، شاید منافقت سے بھی دور تھے‘ کئی معاملات میں خصوصی طور پر افغان پالیسی پر انکے صدر ضیاء سے اختلافات پوائنٹ آف نوریٹرن پر پہنچ گئے تھے۔ معاہدہ جنیوا محمد خان جونیجو کی مرضی کے مطابق ہوا جس کی ضیا ء الحق حمایت نہیں کر رہے تھے۔ محمد خان جونیجو کی کابینہ کے وزیر داخلہ نسیم احمد آہیر کو فوج کا نمائندہ سمجھا جاتا تھا جس کا اظہار وہ خود بھی کرتے ہیں۔ جونیجو صاحب فلپائن کے دورے پر تھے ۔ صدر کوری اکنیو نے ملاقات میں ان سے اپنی مشکلات کے حل کے راستے میں فوج کو رکاوٹ قرار دیا تو جونیجو صاحب نے پاک فوج کے جرنیلوں کے بارے میں بھی ایسا ہی کچھ کہہ دیا۔ نسیم آہیر کہتے ہیں، وزیراعلیٰ پنجاب بھی اس دورے پر ساتھ تھے، انہوں نے یہ روداد وہیں سے فون کے ذریعے ضیاء الحق تک پہنچا دی جس کے بعد محمدخان جونیجو کے پاکستان پہنچنے تک انکی رخصتی کا پلان تیارکر لیا گیا تھا۔