تاریخ مقبرہ آصف جاہ کی

2017 ,مئی 25



لاہور(مہرماہ رپورٹ): آصف جاہ کا مقبرہ شاہدرہ لاہور میں شہنشاہ جہانگیر کے مقبرے کے پہلو میں واقع ہے۔ آصف جاہ کا اصل نام مرزا ابوالحسن تھا۔ وہ لاہور کے صوبے دار مرزا غیاث بیگ کا بیٹا اور ملکہ نورجہاں کا بھائی تھا۔ وہ اپنے باپ کی طرح بہت ذہین، تجربہ کار اور دوراندیش شخص تھا۔ وہ اپنی ذہانت و لیاقت سے شاہی دربار میں اہم مرتبے تک پہنچا۔ شہنشاہ جہانگیر نے اسے ہفت ہزاری ذات اور ہفت ہزاری سوار کا منصب دیا۔ اس کے علاوہ اسے ”آصف جاہ“ کا خطاب بھی دیا۔ 1625ءمیں جہانگیر نے آصف جاہ کو لاہور کا گورنر بنا دیا۔

شاہ جہاں کی دوسری بیوی ارجمند بانو آصف جاہ کی بیٹی تھی۔ شاہ جہاں اس سے بہت محبت کرتا تھا۔ اس نے ارجمند بانو کو ممتاز محل کا خطاب دیا تھا۔ آصف جاہ نے شاہ جہاں کو بادشا بننے کیلئے مدد اور رہنمائی فراہم کی۔ یہی وجہ تھی کہ شاہ جہاں آصف جاہ کی بہت عزت کرتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اگر اسے آصف جاہ کی مدد حاصل نہ ہوتی تو وہ بادشاہ بننے کے بجائے محلاتی سازشوں کا شکار ہو کر قتل ہو جاتا۔ شاہ جہاں آصف جاہ کی عزت و تکریم کرنے کے علاوہ اسے نوازتا رہتا۔ اس کے دور میں آصف جاہ امیر الامراءتھا اور اس کی تنخواہ چار لاکھ روپے سالانہ تھی۔

آصف جاہ کو دولت جمع کرنے کا بہت شوق تھا۔ اس کے پاس بہت زیادہ دولت تھی۔ تعمیرات میں بھی وہ دلچسپی لیتا تھا۔ اس نے ایک عالیشان حویلی تعمیر کروائی جو حویلی آصف جاہ کے نام سے مشہور ہے۔ تب اس حویلی کی تعمیر پر بیس لاکھ روپے خرچ ہوئے اور یہ دس سال میں مکمل ہوئی تھی۔ یہ حویلی آج بھی اپنی شان و شوکت کی وجہ سے مشہور ہے۔ 1641ءمیں آصف جاہ کا انتقال ہو گیا۔ شاہ جہاں جو آصف جاہ کا بہت احترام کرتا تھا اسے اس کی موت کا شدید صدمہ پہنچا۔ اس نے آصف جاہ کی تدفین شہنشاہ جہانگیر کے مقبرے کے پہلو میں کرنے کا حکم دیا۔ یہ ایک بہت بڑا اعزاز تھا۔ شاہ جہاں نے یہ بھی حکم دیا کہ آصف جاہ کا شاندار مقبرہ تعمیر کیا جائے جس کا عالی شان گنبد ہو اور مقبرے کے گرد ایک خوبصورت باغ ہو۔

شاہ جہاں کے حکم پر چار سال کے عرصے میں ایسا شاندار مقبرہ تیار کیا گیا کہ جو بھی دیکھتا دنگ رہ جاتا۔ مقبرے کی تعمیر پر بیس لاکھ روپے لاگت آئی۔ یہ مقبرہ آصف جاہ کے شایان شان تھا جو لاہور اور ملتان کا گورنر رہا اور اسے شاہی دربار میں بلند مقام حاصل تھا۔ یہ مقبرہ اس کی جاہ و منزلت کا آئینہ دار تھا۔ اس مقبرے کی خوبصورتی کا اندازہ اس سے بھی کیا جا سکتا ہے اسے تاج محل کی شکل میں دنیا کا آٹھواں عجوبہ تیار کروانے والے باذوق شاہ جہاں نے تعمیر کروایا تھا۔

مقبرہ آصف جاہ کے آٹھ دروازے ہیں۔ مقبرے میں سونے چاندی کی قندیلیں اور فانوس لگے ہوئے تھے۔ قرآن پاک کی تلاوت کرنے والے حفاظ کیلئے ایک الگ کمرہ تھا جہاں قرآن پاک پڑھا جاتا تھا اور اس کا ثواب آصف جاہ کی روح کو بخشا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ محافظوں کے کمرے، باورچی خانہ اور دیگر تعمیرات بھی موجود تھیں۔ مقبرے پر قیمتی پتھر لگایا گیا تھا۔ مقبرے کے گنبد کے اندر پرکشش نقش و نگار حوادث زمانہ کے باوجود آج بھی دیکھنے والوں کو حیرت زدہ کر دیتے ہیں۔ یہاں ایک نہر کا بھی سراغ ملا ہے جو مٹی کے تودوں میں دب چکی تھی۔

برصغیر میں مغلوں کی عظیم الشان عمارتوں کی بربادی کا احوال سامنے آتا ہے تو نہ چاہتے ہوئے بھی سکھوں کا ذکر آ جاتا ہے۔ رنجیت سنگھ نے امرتسر میں گولڈن ٹمپل کی تعمیر شروع کی تو لاہور کی دیگر تاریخی عمارتوں کے علاوہ مقبرہ جہانگیر، مقبرہ نورجہاں اور مقبرہ آصف جاہ سے بھی تمام قیمتی پتھر اکھاڑ لیا گیا۔ سنگ مرمر کا کوئی ٹکڑا نہ چھوڑا۔ آصف جاہ کی قبر کا تعویذ اس لئے بچ گیا کہ اس پر اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام کندہ تھے جو سکھ اپنی کسی عمارت میں استعمال نہیں کر سکتے تھے۔

انگریز سیاح ولیم مور کرافٹ اپنے سفرنامہ میں لکھتا ہے ”مہاراجہ رنجیت سنگھ نے حضوری باغ میں نشست گاہ بنائی ہے۔ اس میں دیگر مقبروں کے علاوہ نورجہاں کے بھائی آصف جاہ کے مقبرے کا پتھر بھی اس کے فرش اور گنبد سے اکھاڑ کر لگایا گیا ہے“۔

برطانوی میں 1880 ءحکومت نے رائے بہادر کنہیا لعل انجینئر کے ذریعے مقبرے کی مرمت کروائی۔ 1904ءمیں محکمہ آثار قدیمہ نے گنبد کی تباہ حال سیڑھیوں کو دوبارہ تعمیر کروایا۔ اس طرح یہ مقبرہ تباہ ہونے سے بچ گیا۔کھجور کے درختوں میں گھرا مقبرہ آصف جاہ حوادث زمانہ کی دست برد کے باوجود آج بھی مغلوں کے فن تعمیر اور حسن ذوق کا آئینہ دار ہے۔

متعلقہ خبریں