مردم شناس

2020 ,فروری 15



ڈاکٹر بابراعوان اپنے یو ٹیوب چینل پر پاکستان کی روشن اور اجلی تصویر پیش کرتے ہیں۔ گو انکے پاس کوئی عہدہ نہیں مگر عمران خان اور حکومت کی مثبیات اجاگر کرنے کے ساتھ جہاں اینٹ ٹیڑھی نظر آئے کھل کر تنقید کرتے ہوئے درست کرنے کا چارہ کرتے ہیں ۔ حکومتی پارٹی کا شملہ اُبھارنے اور مخالفین کی پگڑی اچھالنے کیلئے سرکاری ٹی وی کا استعمال کبھی بے محابہ کیا جاتا تھا۔ڈاکٹر بابر اعوان کا چینل اپنے خرچے پر چل رہا ہے۔ عمران خان کے معتمد ساتھی،کابینہ اجلاس میں بیٹھتے ہیں۔ عمران انکی سنتے اورمانتے بھی ہیں۔ ایڈمنٹی بانڈ کی شرط انکی تجویز پر رکھی گئی۔ بابرحکومت کی تھوڑی سائڈ مار لیتے ہیں،انٹ شنٹ نہیں مارتے، ٹو دی پوائنٹ بات کرتے ہیں،تاہم مبالغہ آرائی سے مبرا کہنا بھی مبالغہ ہوگا۔ انکا انتخاب عمران کی مردم شناسی ہے۔ چند روز قبل اعوان صاحب نے پرنس عطا محمد خاں کی موت کاتذکرہ کیا۔ ملک عطا بہترین نیزے باز، گھڑ سوار تھے۔ اسلامی جمہوری اتحاد کے ٹکٹ پر 1990ء میں پنجاب اسمبلی کے ممبرمنتخب ہوئے۔ اسی اتحاد کے بطن سے مسلم لیگ ن نے جنم لیا اور یہی وہ اتحاد تھا جس کی جیت یقینی بنانے کیلئے فوج پر رقوم کی تقسیم کاالزام ہے۔ رقوم ملٹری انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر میجر جنرل محمود درانی کے توسط سے تقسیم کی گئیں۔ میاں نواز شریف کے حصے میں مبینہ طور پر 35 لاکھ روپے آئے۔ بات ملک عطاء محمد کی ہو رہی تھی۔ آکسفورڈ سے تعلیم حاصل کی۔ ڈگری لینے گئے ملکہ الزبتھ مہمان خصوصی تھیں۔ بوسکی کی قمیض اور ویسٹ کوٹ زیبِ تن ہونے پرسکیورٹی نے سٹیج پر جانے سے روک دیا ۔ یہ تو خاص قابلِ اعتراض نہیں تھا، اعتراض انکے تہبند پر تھا۔ ان کا نام پکارا گیا وہ حاضرین میں بیٹھے ، وہیں سے گویا ہوئے مجھے سٹیج پر آنے سے روک دیا گیا ہے۔ ملکہ نے انکے پاس آ کر ڈگری تفویض فرمائی ۔ ملکہ دو مرتبہ پاکستان آئیں ہربار ان سے ملیں۔ ملک صاحب کو اداکاری کا شوق تھا۔ دو سال قبل فلم ورنہ میں گورنر کا کردار ادا کیا۔الفا بریوو چالرلی ڈرامے میں بھی کام کیا۔اعلیٰ نسل کے گھوڑے اور بیل رکھنے کا شوق، بیل دوڑ بھی کراتے۔نیزے بازی میں ویسٹ کوٹ کے ساتھ ’’طرلے والا پگڑ‘‘ انکی شخصیت کو مزید باوقار بنا دیتا۔ نواب کالاباغ سے بھی بڑی مونچھیں تھیں۔ ملک عطا نواب کالا باغ کے داماد تھے۔

گورنر نواب کالاباغ جیسا بھی کوئی مردم شناس ہوسکتا ہے!گارڈ کی ضرورت پڑی تو خود گورنر نے انٹرویو کئے۔ انتخاب پولیس سے کرنا تھا۔ ملٹری سیکرٹری لیفٹیننٹ کرنل شریف تھے جو بعدازاں جوائنٹ سروسز چیف بنے۔ ملٹری سیکرٹری اے ایس آئی کو گورنر کے سامنے لے جاتے اور خود باہر آجاتے۔ تیسرا نوجوان شیر خان تھا۔وہ جلدہی انٹرویو بھگتا کرآگیا۔اسکے ساتھ ہی گورنر نے ملٹری سیکرٹری کو بلا کر ناراضی کا اظہار کیا، شیرا آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا رہاتھا۔ ملٹری سیکرٹری پریشانی میں باہر آئے، شیرے کو ڈانٹنے ، ڈسپلن ،ادب آداب کا لیکچر دینے لگے۔ نوجوان بلاجھجک اور دبنگ بولا۔’ کرنل صاحب! روزی خدا نے دینی ہے ،گورنر صاحب جس طرح بات کر رہے تھے اور دیکھ رہے تھے‘ میں نے بھی اسی طرح بات کی اور دیکھا، میں کوئی اس کا ’’کانا‘‘ ہوںجو نظریں جھکا کر بات کرتا۔ گورنر صاحب سب سن رہے تھے، انکے جلال سے زمانہ واقف تھا۔شیر خان کو پیش کرنے کا حکم دیا۔ اسکی خیر نہیں!عمومی تاثر یہی تھا۔ شیرا گیا تو سلیکٹ کرنے کا فیصلہ سنادیا۔اس کا تعلق نواب صاحب کے مخالف میانوالی کے نیازی قبیلے سے تھا۔اس واقعہ کے بقول میجر نذیر راوی جنرل شریف ہیں۔ ایئرمارشل نورخان کو ایئر چیف بنانے کا مشورہ صدر ایوب کو گورنر امیر محمد خان نے ہی دیا تھا۔ جنرل شریف کی طرح ایئرمارشل نور خان کا تعلق بھی ملک عطاء محمد خان کے علاقے سے تھا۔ نور خان نے ایئرفورس کو بہترین طریقے سے چلایا۔ انکی سربراہی میں 65ء کی جنگ میں پاک فضائیہ نے بھارتی فضائیہ کی ’’گِچی‘‘ مروڑ کراسکا سرِغرور چکنا چور کردیا تھا۔ نور خان ہاکی فیڈریشن کے سربراہ بنے تو پاکستان مسلسل ہاکی کا چیمپئن رہا۔ پی آئی اے لاجواب سروس نورخان کی چیئرمین شپ میں رہی اور یہ تو کبھی دنیا میں ہوا ہی نہیں:مسافر جہاز اغوا کرلیا گیا۔ نور خان جہاز میں اغوا کار سے مذاکرات کیلئے خودگئے ۔پسٹل لہراتے اغواء کارکی نظر مذاکرات کار پرجمی تھی۔ چُست، چاک و چوبند ، چوکنا تھا۔ نورخان نے گفتگو کے دوران اسکے عقب میں دیکھتے ہوئے کہا۔’’ آپ اپنی جگہ بیٹھے رہیں‘‘۔ اغوا کار بجلی کی ہی تیزی سے گردن گھما کر دھاڑا۔’’ کوئی نہ ہلے‘‘۔اسکی دھاڑ کے ’’ بیچ وچکار‘‘ کاری وار ہوگیا۔ ایئرمارشل کے ایکشن میں برقی لپک تھی۔ پسٹل چھن کر’سورمے‘ بے بس کر دیا۔

یہ ایوب خان کی بھی مردم شناسی تھی کہ ملک امیر محمد خان کو گورنر بنایا۔وہ بہترین منتظم تھے۔ذخیرہ اندوزوں منافع خوروں کے سامنے ہمارے حکمران بے بسی کی تصویر بن جاتے ہیں۔حاکم ان کو مافیا کہتے ہیں۔ مافیاز ہر دور میں رہے۔ اُس دور میں گندم دو روپیہ من مہنگی کر دی گئی۔ سیاپا تو ہونا تھا۔ گورنر نے آڑھتیوں تاجروں کو بلا لیا۔یہ لوگ تشریف لائے۔ گورنر کو انکی آمد کی اطلاع دی گئی۔ وہ دربارہال کے دروازے تک آئے وہیں سے کہا میرے’ بھراؤ‘! آج سنا گندم بیس سے 22 روپے ہو گئی، کل سنوں 20 روپے پر آگئی ہے۔ اگلے روز گندم کا ریٹ گر گیا تھا۔ وہ آمریت تھی اب جمہوریت ہے۔ قانون وہی ہے اگر یہ حضرات نہ مانتے تو ان کو پھانسی نہیں ہونی تھی۔ انہیں یقین تھا من مانی جاری رکھی تو سزا سے بچنا ممکن نہیں۔ آج مافیاز کو زعم ہے جو بھی کرلیں پکڑا جانا ناممکن ہے۔

نواب کالاباغ بڑے مردم شناس توتھے مگر نہ جانے کہاںکمی رہ گئی تھی بیٹے کے ہاتھوں قتل ہو گئے۔ ایوب اور نواب صاحب کی کاوش سے اُس دور میں ترقی کا جادو سر چڑھ کر بولتا تھا:اس دور میں منگلا، تربیلہ، وارسک، حب،سملی،راول،خان پوراور سپیالہ ڈیم بنے۔اسکے بعد ڈیم بناتے موت پڑتی رہی۔

ہر حکمران معاملات چلانے کیلئے بہترین ٹیم کا انتخاب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ کونسے معاملات چلانا چاہتا ہے یہ الگ بحث ہے۔ کئی کی مال بنانے میں دلچسپی ہوتی اور وہ اسی طرح کی ٹیم بناتے ہیں۔اچھی گورننس کیلئے عمران خان نے بھی بہتر لوگ لانے کی کوشش کی۔ ضروری نہیں آپ کا ہر انتخاب لا جواب ہو۔عمران کے چنیدہ وسیم اکرم‘ انضمام، وقار یونس،عاقب اور دیگر سپر سٹار بن گئے۔ ایک منصور اختر تھے، عمران خان نے اپنے ’ویو رچرڈز‘ کوآگے بڑھانے کیلئے پورا زور لگایا مگروہ قربانی کے بکرے کی طرح رسہ پیچھے کھینچتے رہے۔ عمران کی حکومتی ٹیم میںکچھ ماٹھے لوگ بھی ہونگے۔ البتہ کچھ کرگزرنے کا عزم و ارادہ رکھنے والوں کی کارکردگی خود بولتی ہے۔ مراد سعید‘ حماد اظہر، فواد چودھری اپنی وزارتیں بہتر چلا رہے ہیں ۔ شیخ رشیدکو منقارزیر ہی رہنا ہے۔ ٹرینوں کی آمدورفت بروقت‘ ریلوے خسارے سے نکلے‘ نئی ٹرین پر ٹرین چلے‘ وہ ریلوے کو جس قدر بھی جدتوں سے ہمکنار کریں‘ انکے حریف جو کبھی حلیف اور ’’شریف‘‘ تھے‘ وہ ریلوے کے بارے میں شیخ رشید کی کارکردگی نہیں‘ انکی شکل و شخصیت کو دیکھ کر نالائقی و نااہلی کا فتویٰ لگاتے ہیں۔ حادثات کے گراف کا موازنہ کریں،تو انکے کھاتے میںضرورت پڑنے پر ایمرجنسی بریک لگانے کوبھی شامل کردیا جاتا:جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔

یہ اپنی اپنی عینک کی بھی بات ہے، تنقید برائے اصلاح خوش آئند ، جو لوگ کوے کو سفید کہنے پر تل جائیں،علاجے نیست۔کوئی بغض سا بغض ہے جو کچھ عمران خان کر رہے ہیں‘ وہ سابقون کرتے تو بلے بلے‘ بہہ جا بہہ جا ہو جا تی۔ عمران خان کرے تو کیوں کرے،اسے کریڈٹ کیوں جائے۔ بہرحال سب مانتے ہیں، عمران خان کرپٹ نہیں۔ بس ایک یہی خوبی وزیراعظم کیلئے کافی ہے۔ اسکے اثرات نیچے تک جاتے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق لاہورایئرپورٹ آ رہے تھے۔ سول ایوی ایشن والے کسٹم حکام کے پاس گئے۔ پریشانی کا اظہارکیا۔ صدر صاحب آرہے ہیں، نماز کا وقت ہو گیا تو وہ مسجد کا پوچھیں گے۔ انہوں نے کسٹم والوں سے 16 بائی 16 کی جگہ لی اور لکیریں لگا کر نماز گاہ بنا دی۔ عمران خان کے ہوتے ہوئے اعلیٰ ایوانوں سے کرپشن اور منی لانڈرنگ ممکن نہیں رہی۔ انکے بارے میں کرپشن فری ہونے کا تصور ہی کرپشن میں کمی کا باعث ہے۔نیت بر مراد: یہ سیٹ اپ قائم رہا توچند سال میں کرپشن کا نام و نشان بھی نظر نہیں آئیگا۔ابھی انکی ٹیم میں بھی دو نمبر لوگ ہونگے،بکرے کی ماں آخر کب تک خیر منائے گی۔

متعلقہ خبریں