2017 ,ستمبر 5
لاہور(مہرماہ رپورٹ): موتی مسجد لاہور کا شمار سترہویں صدی کی خوبصورت مذہبی عمارتوں میں ہوتا ہے۔ یہ شاہی قلعہ لاہور کے اندر واقع ہے۔ قلعہ کے مرکزی دروازہ عالمگیری گیٹ کے قریب مکتب خانہ سے متصل یہ خوبصورت مسجد مشہور انجینئر مامور خان نے اپنی نگرانی میں تعمیر کروائی تھی۔ یہ مسجد سفید سنگ مرمر سے تعمیر کی گئی۔ مسجد کے تین گول گنبد ہیں۔ موتی نما سفید گنبدوں کی وجہ سے اسے موتی مسجد کا نام دیا گیا۔
موتی مسجد کب تعمیر کی گئی اس کا تعین کرنا مشکل ہے کیونکہ جہانگیر اور شاہ جہاں کے عہد کے مورخین نے اس مسجد کے بارے کچھ نہیں لکھا۔ لیکن بعدکے مورخین لکھتے ہیں کہ اسے شاہ جہاں نے تعمیر کروایا تھا۔ وکی پیڈیا نے بھی یہی لکھا ہے کہ یہ مسجد شاہجہاں نے تعمیر کروائی تھی۔ اس کی تعمیر کا آغاز 1630ءمیں کیا گیا جبکہ یہ 1635ءمیں مکمل ہوئی۔ مسجد کے تین گنبد ہیں اور یہ پانچ محرابوں پر مشتمل ہے۔موتی مسجد لاہور کے علاوہ موتی مسجد کے نام کی چار مساجد اور بھی مشہور ہیں۔ ان میں موتی مسجد آگرہ‘ موتی مسجد بھوپال‘ موتی مسجد دہلی اور موتی مسجد کراچی شامل ہیں۔
مغلیہ دور کے خاتمے کے دوران لاہور پر سکھوں کا قبضہ ہوا تو رنجیت سنگھ نے موتی مسجد میں شاہی خزانہ رکھنے کا حکم دیا۔ لوٹ مار اور سالانہ واجبات کی وصولی سے حاصل شدہ رقوم یہاں رکھی جاتی تھیں۔ اس مقصد کے لئے مسجد کا دروازہ مضبوط آہنی تختوں سے بند کرکے بڑے بڑے قفل لگا دئیے گئے۔ محراب نما دروازوں میں اینٹیں کی دیواریں کھڑی کر دی گئیں۔ مسجد کے کھلے دالان کے سامنے والے حصہ پر چھت تعمیر کر دی گئی جس کے سامنے ایک کمرہ پہرہ داروں کے لئے تعمیر کر دیا گیا تھا۔مسجد کی یہ حالت رنجیت سنگھ کے دور کے بعد انگریزوں کے دور میں بھی برقرار رہی۔ 7 فروری 1900ءکو وائسرائے ہند لارڈ کرزن نے ”ایشیائی سوسائٹی آف بنگال“ سے خطاب کرتے ہوئے کہا۔
”جب میں گزشتہ سال اپریل میں لاہور میں تھا تو میں نے تین سو سال قبل تعمیر شدہ شہنشاہ جہانگیر کی انتہائی خوبصورت مسجد کو دیکھا جو سکھ دور حکومت کی طرح اس وقت بھی بطور شاہی خزانہ استعمال ہو رہی تھی۔ ضرورت کے تحت اینٹوں کی محرابوں کا اضافہ کر دیا گیا تھا اور سنگ مرمر کے فرش کو توڑ پھوڑ کر خزانے کے آہنی صندوقوں کو فرش پر رکھا جاتا تھا۔ لہٰذا یہ حالت زار دیکھتے ہوئے میں نے اس خوبصورت مسجد کو سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنانے کے لئے ازسرنو تعمیر کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔“
لارڈ کرزن کے بقول رنجیت سنگھ نے اپنے عہد حکومت میں انتہائی بے توجہی اور مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس مسجد کے مذہبی تقدس اور ظاہری حسن کو پامال کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور پچاس سالہ انگریز کے دور میں بھی اسی روش کو اختیار کئے رکھا گیا۔ لارڈ کرزن کے احکامات پر یہ مسجد دوبارہ مسلمانوں کے حوالے کر دی گئی۔
موتی مسجد کے بارے مشہور ہے کہ یہاں جنات کا بسیرا ہے لیکن یہ جنات مسلمان ہیں اور کسی کو تنگ نہیں کرتے۔ اس حوالے سے لوگ بہت سے حیرت انگیز واقعات بھی بیان کرتے ہیں۔ بعض لوگ ان جنوں کو دیکھنے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ وہاں آکر منتیں مانگتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ان کی مرادیں پوری ہوتی ہیں۔ ان سب باتوں سے قطع نظر موتی مسجد اپنی خوبصورتی‘ دلکشی اور رعنائی کی وجہ سے سیاحوں کو آج بھی متاثر کرتی ہے۔ شاہی قلعہ لاہور کی سیر کے لئے آنے والے موتی مسجد کو دیکھنا نہ بھولیں۔