مائوزے تنگ اور مولانا کا لانگ مارچ

2021 ,جنوری 16



مولانا فضل الرحمٰن کی سربراہی اورمیاں محمد نواز شریف کی پشت پناہی میں پی ڈی ایم لانگ مارچ کی تیاری کررہی ہے۔عمران خان کی حکومت گرانے کیلئے یہ آخری آپشن ہوسکتا ہے۔قبل ازین ضمنی الیکشن کے بائیکاٹ اور سینٹ انتخاب میں حصہ نہ لینے کے اعلانات کئے گئے تھے۔مگر سب اچھے بچے ہیں ضد نہیں کرتے۔کسی نے سمجھایا تو ضمنی اور سینٹ انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔اسمبلیوں سے استعفے دینے کااٹل فیصلہ کرکے فاضل ارکان سے استعفے لے لئے گئے۔میاں نواز شریف نے کہا تھا، استعفے مولانا فضل الرحمٰن کے پاس جمع کرائے جائیں گے۔ مولانا کو تو ابھی تک اپنی پارٹی کے ارکان کے بھی استعفے شاید نہیں ملے۔مریم نواز کہتی ہیں۔ ان کے پاس تمام ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کے استعفے آچکے ہیں۔ مخالفین کو مریم نواز کے اس دعوے پر شک ہے۔وہ اسے کیلبری فونٹ اور’’میری تو لندن میں کیا پاکستان میں بھی جائیداد نہیں ‘‘ جیسا دعویٰ قرار دیتے ہیں۔مگر' سیکڑوں' لوگوں کو انکے دعوے کی صداقت پر اعتبارہے۔ان کے پاس نہ صرف جملہ ارکان کے استعفے موجود ہیں بلکہ جن لوگوں کو ضمنی الیکشن کے ٹکٹ دیئے ہیں ،ان سے پارٹی فنڈ کے ساتھ استعفے بھی لے کر رکھ لئے گئے ہونگے۔میاں نواز شریف کے حکم پر مریم نواز نے بھی ابھی تک استعفے مولانا کے حوالے نہیں کئے۔میاں صاحب بھی ’’اچھے‘‘ ہیں، ضد نہیں کرتے۔کچھ لوگوں کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ استعفوں پر پی ڈی ایم ڈرامہ کررہی ہے۔یہ استعفے ہرگز نہیں دیں گے کیونکہ کسی بھی پارٹی کے ارکان استعفے دینے پر آمادہ نہیںہیںجنہوں نے استعفے جمع کرادیئے ہیں وہ مرتضیٰ جاوید عباسی اور ساجد اعوان کی پیروی کریں گے۔ویسے استعفے اس طرح نہیں دئیے جاتے ۔استعفے تو آئی جی سندھ اور انکے جاں نثار ساتھیوں نے دیئے تھے۔جب آئی جی کے اغوا کا معاملہ سامنے آیا۔سندھ پولیس کے اعلیٰ افسروں نے مبینہ اغوا کو سبکی قرار دیتے ہوئے استعفوں  اور چھٹیوں کی درخواستوںکی  بھر مار اوربرسات کردی تھی۔میاں نواز شریف کے ترجمانِ اعلیٰ محمد زبیر نے کہا تھا کہ انہیں مراد علی شاہ نے بتایا ہے کہ آئی جی کو رینجرز نے اغوا کرکے کیپٹن صفدرکیخلاف مزار قائد کی بے حرمتی کی ایف آئی آر درج کرائی۔اس حوالے سے دو انکوائریاں ہوئیں۔ ایک بلاول کے مطالبے پر فوج نے، دوسری مرادعلی شاہ کے وزیروں کی کمیٹی نے کی۔فوج کی انکوائری کا بلاول نے زبردست خیر مقدم کیا جبکہ نواز شریف نے ڈان لیک انکوائری پر جنرل آصف غفورکے "Rejected"والے موقف کو دہرا کر گویا بدلہ لے لیا۔ وزیراعلیٰ سندھ کے وزرا کی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ آئی جی کو اغوا نہیں کیا گیا تھا۔اس حوالے سے کس نے جھوٹ بولا۔مراد علی شاہ نے،بلاول نے محمد زبیر نے،آئی جی  نے یا پھر وزارتی کمیٹی نے۔کبھی کبھی سب ہی سچ بول رہے ہوتے ہیں۔’’اپنا اپنا سچ‘‘۔ مٹی پائو یہ بھی سب کے سب اپنااپنا سچ بول رہے ہیں۔ مولانا نے کل لورالائی میں سچ والا سچ بول دیا۔مولانا کے بقول:عوام کہہ  رہے ہیں پرانے چوروں کو واپس لائیں روٹی تو ملے۔جن کو عمران چور کہتے ہیں مولانا نے بھی تصدیق کردی ہے۔ویسے پاکستان میں کوئی بھی فرد کبھی بھوک سے مرا ہے نہ مرے گا۔آج بھی صاحب حیثیت لوگ دسترخانِ عام لگاتے ہیں۔مزاروں،درباروں، درگاہوں پر لنگر خانے 24/7کھلے رہتے ہیں۔

سپریم کورٹ کی ہدایت پر جنرل قمر جاوید باجوہ کی  بطور آرمی چیف توسیع کیلئے میاں نواز شریف نے پارٹی ارکان کو حمایت کی تاکید کرتے ہوئے ہدایت کی تھی کہ اس معاملے پر پُر مغز اور ہر پہلوپر بحث کم از کم بھی دو ہفتوں پر محیط ہونی چاہئے۔مگر ساری کارروائی ایک دن کے مختصر وقفے میں مکمل کرلی گئی۔جس کا میاں صاحب نے بُرا نہیں منایا۔کیونکہ اچھے بچے ضد نہیں کرتے۔

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ،یہ تحریک یا اتحاد عمران خان اور انکی حکومت سے ہر صورت نجات حاصل کرنا چاہتا ہے۔اس کے لئے عمران خان کی پارٹی کی حکومت تو قابل قبول ہوسکتی ہے مگر عمران خان کا وزیر اعظم رہنا قطعی منظور نہیں۔اس کار خیر کیلئے پی ڈی ایم عزم صمیم کئے ہوئے ہے۔بلاول نے ایک نہیں دو تین بار کہا’’جب چاہوں حکومت کو لات مار کر گرا دوں‘‘۔بلاول شاید مناسب موقع کے منتظر ہیں۔مولانا ان کو جلد لات مارنے پر آمادہ کریں۔ بلاول کے اباحضور زرداری صاحب نے جلسہ عام میں کہاتھا۔’’  میں نے جنرل مشرف کو دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال باہر کیا تھا۔ عمران خان کیا چیز ہے۔‘‘مشرف کو ہٹانے میں زداری صاحب کا منتر پی پی پی کے حکومت میں آنے کے بعد چلا تھا۔اُس وقت مشرف اقتدار میں آٹھ سال گزار چکے تھے۔اس دوارن زرداری صاحب قید بھی رہے اور اسی مشرف کے این آر او کا وقتی طور پرفائدہ بھی اُٹھایاجو جسٹس افتخار محمد چودھری نے اپنی بحالی کے بعد کالعدم کردیا ۔پی ڈی ایم زرداری صاحب کے اب عمران خان کے خلاف منتر کا آٹھ سال انتظار نہیں کرسکتی۔

پی ڈی ایم اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا پتھر پر لکیر کی مانند فیصلہ کئے ہوئے ہے۔کب؟ جب موسم بہتر ہوجائے گا۔اس کے لیڈر یہی کہتے ہیں۔مارچ کے پُر بہار موسم میں یا اپریل کے شروع میں رمضان سے پہلے پہلے۔

ایک لانگ مارچ چین میں مائوزے تُنگ کی قیادت میں کیا گیا تھا۔جو اکتوبر 1934ء  سے اکتوبر 1935ء تک جاری رہا۔گویا اس دوران ہر موسم کا سامنا کرنا پڑا۔اس مارچ نے نو ہزارکلو میٹر کا فاصلہ طے کیا۔ یہ بڑی مشکل اور جاں گسل مہم تھی۔ شرکائے مارچ  بھاگتے جاتے اوپر سے 

طیارے شیلنگ کرتے تھے۔مارچ میں لاکھوں لوگ شریک تھے ۔مارچ  اپنی منزل پر پہنچا تو 8 ہزار رہ گئے۔ بہت سے  لا پتہ ہو گئے۔ کئی  موسم کی شدت ،بیماریوں اور فاقوں  سے دنیا چھوڑ گئے۔ لاپتہ ہونیوالوں میں مائوزے تنگ کے دو بیٹے اور ایک بھائی بھی تھا۔ چین کا لانگ مارچ تاریخ انسانی کا  ناقابل یقین اور ناقابل فراموش واقعہ ہے۔؎

کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا

ہمارے مارچیوں کو سہانے موسم کی ضرورت ہے۔وزارت عظمیٰ کے منصب پر جلوہ افروز ہونیکی آرزو رکھنے والوں کو ہرسہولت اور نعمت  سے آراستہ کنٹینر چاہئیں۔راستے بھر پھولوں کی پتیاں نچھاور ہوتی رہیں۔کچھ کو تویہ تکلف بھی گوارہ نہیں۔کراچی و لندن سے مواصلاتی شرکت کریں گے ۔بالفرض پی ڈی ایم کا مارچ مائوزے تُنگ کے مارچ کو مات دے دیتا ہے۔فرض کرنے میں کیا حرج ہے۔مولانا کی قیادت میں پچاس لاکھ لوگ اسلام آباد کو مفلوج کر کے قابض ہو جاتے ہیں ۔اس کے بعدکیا ان کی حکومت قائم ہوجائے گی؟۔اس سوال کا جواب قارئین  تلاش کرکے آمادۂ مارچ اکابرین کے کان میں پھونک دیں۔’’ ہونہار بچے ضد نہیں کرتے‘‘۔

متعلقہ خبریں