1971 کی جنگ کے ہیرو محمد محفوظ شہید کی قبر میں ایسا کیا معجزہ ہوا تھا جسکا نظارہ ہزاروں لوگوں نے کیا

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اکتوبر 26, 2016 | 15:53 شام

لاہور(شیر سلطان ملک) . لانس نائیک محمد محفوظ شہید 25اکتوبر 1944 کوضلع راولپنڈی کے گاوں پنڈ ملکاں محفوظ آباد میں پیدا ہوئے۔انہوں نے 25اکتوبر1962 پاک فوج کی پنجاب رجمنٹ میں شمولیت اختیار کی،اور 1965 کی جنگ میں شاندار خدمات انجام دیں جبکہ 1971 کی جنگ میں بھی کی پاک بھارت جنگ میں واہگہ بارڈر پردلیری اور شجاعت کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کیا اور جام شہادت نوش کیا ان کی بہادری و جذبہ انہیں اس مقام پر لے گیا جس پر انہیں نشان حیدر جیسے اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازا گیا۔ انہوں نے دنیا و آخرت میں اپنا مقام بن

الیا ۔ لانس نائیک محمد محفوظ شہید کے بھائی محمد معروف نے انٹرویو میں ایسا ایمان افروز واقعہ سنایا کہ سننے والے جھوم اٹھے انہوں نے بتایاکہ محفوظ شہید کیلئے نشان حیدر کے اعلان پر کرنل نے اْنہیں بلایا اور چھٹی کی ہدایت کی کیونکہ چیف آف آرمی سٹاف نے آناتھا، جب وہ گھر پہنچے تو چیف آف آرمی سٹاف جنرل ٹکاخان ہوکر چلے گئے تھے لیکن ان کی گھرموجودگی میں ہی 15پنجاب ایس ای او آئے انہوں نے آکر مزار پرپھولوں کی چادر چڑھائی ،عام قبرستان میں قبر تھی،سلامی دی اور کہاکہ یہ جگہ بہت تنگ ہے اوریہاں سلامی وغیرہ مشکل سے ہوگی اورمزار بناناہے لیکن اس جگہ پر مزار نہیں بن سکتا ، کھلی جگہ میں ہوتوبہترہے جس پر محمد محفوظ شہید کے بھائی محمد معروف مزار کی منتقلی پر راضی ہوگئے کیونکہ اردگرد اپنی زمین موجود تھی۔یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ لوگوں کی بڑی تعداد ایسا کرنا نہیں چاہتی تھی اور ڈرانے کا سلسلہ بھی پورے عروج پر تھا۔ یہ 30جون کا دن تھا اور شدیدگرمی ، سخت دھوپ تھی ، جیسے ہی قبرکشائی شروع کی تو بادل کا ایک ٹکڑا قبرستان پر آگیا اور اس سے بونداباندی شروع ہوگئی ، قبرستان کے علاوہ نواح میں کڑکتی دھوپ تھی ، جب مٹی ہٹائی تو اتنی پیاری خوشبوآناشروع ہوگئی جو شاید اس سے کبھی نہیں سونگھی اور نہ ہی اس کے بعد محسوس کی۔ قبرکشائی مکمل کرنے کے بعد جب صندوق کو اٹھانے لگے تو نیچے ہاتھ ڈالا، پوراہاتھ خون میں لت پت ہوگیا، نیچے ساراخون تھا، صندوق باہر نکال کر چارپائی پر رکھا،چارپائی سے خون کے قطرے گرناشروع ہوگئے اور پھر پلیٹ منگواکر نیچے رکھ دی تاکہ شہید کے خون کی بے حرمتی نہ ہو، پہلے ارادہ تھا کہ صندوق نکال کر فوری دوسری جگہ تدفین کردیں گے مگر خوشبواور نورہی نور کی وجہ سے ہمیں حوصلہ ملا، پھر ہم نے آرام سے منتقلی کی ،اس وقت کے جذبات بیان نہیں کرسکتا، چونکہ پہلی تدفین کے وقت حاضرنہیں تھا اس پر درخواست کی کہ چہرہ مبارک دیکھناچاہتاہوں اور حاجی صاحب نے اجازت دیدی۔

محمدمعروف نے بتایا جب چہرہ دیکھاتو حیران رہ گیا، شہید کی تدفین کے وقت چہرے پر تازہ شیو تھی لیکن چھ ماہ بعد داڑھی مبارک بڑھی ہوئی تھی ،پھول بھی اسی طرح تازہ تھے جیسے ہم نے ابھی ابھی پودوں سے توڑ کر وہاں رکھے ہیں، خون جاری تھا، خون تو ساری دنیا نے دیکھا وہاں کوئی اڑھائی ہزار لوگ تھے ، انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس چارپائی پر بھی والدہ نے اپنے انتقال تک کسی کو سونے کی اجازت نہ دی ، والدہ کوان سے بہت پیار تھا ، والدہ یہ دکھ برداشت نہیں کرسکی ،بہت سمجھایاکہ وہ جنتی ہے اور آپ کو بھی جنت میں بلائے گا، والدہ جب تک زندہ رہیں ، کسی نہ کسی تکلیف میں مبتلارہتیں ، بہت علاج کرایا لیکن بالآخر اپنے بیٹے کے پاس جا کر انہیں سکون ملا۔