2019 ,نومبر 13
میں نے زندگی کے خوبصورت ترین منظر دیکھے جو آج کل کے بچوں نے نہیں دیکھے ہوں گےواقعی ہم وہ آخری نسل ھیں جنہوں نے زندگی کو اس کے روایتی رنگ میں دیکھاوہ سارے روایتی کھیل کھیلے جو اب خواب و خیال ھو گئے۔۔
عید پر جھولے ج ھولےایک روپے میں چار گول گپے کھائے۔۔۔آٹھ آنے میں ایک کلو بھنڈی لی۔۔۔گھر والوں سے چھپ کر سینما پر فلم دیکھی۔۔۔پانچ پانچ روپے چندہ کرکے ٹی وی /وی سی آر کرائے پر لا کر ایک رات میں چار چار فلمیں دیکھیں
کان پکڑ کر یعنی مرغا بن کر تشریف پر استاجی سے ڈنڈے کھائے۔۔۔۔کانے کی قلم سے لکڑی کی تختی پر لکھاتختی پر گوبر ملی سلیٹ پر لکھے کو اپنی تھوک سے مٹایا
۔۔۔۔پرانی جینز اور گٹار، ٹالی دے تھلے بے کے آ کرئیے پیار دیّاں گلاں، دل دل پاکستان، گوری تمھاری گاگر سے پانی پیا تھا پیاسا تھا میں یاد کرو۔۔۔۔مجھے پیار تم سے نہیں ہے
ھمارے سامنے ھوئےھم نے اندھیرا اجالا، نیلام گھر، گیسٹ ھاؤس کیلئے روڈوں کو ویران ھوتے دیکھا
ھم نے 70،75 سال کے بزرگوں کو یہ کہتے سنا کہ عینک والا جن اج اے پٹھے جلدی جلدی کتر کے مال ڈنگر نوں پاؤ فیر ڈرامے دا ٹائم ھو جائیگا۔۔۔۔ھم نے عشرت فاطمہ کو سر پر ڈوپٹہ لیے خبریں پڑھتے دیکھا
ھم نے وہ بسیں دیکھیں جن کے پیچھے رفتار 65کلومیٹر فخریہ انداز میں لکھا دیکھا۔۔۔۔ھم نے لاھوراسلام آباد کا سفر دس گھنٹے میں پرسکون انداز میں کرتے لوگ دیکھے۔۔۔
ھم نے سارا بچپن ایک ساتھ کھیلتے کزنز کو منگنی کے بعد دو دو سال ایک دوسرے سے پردہ کرتے دیکھا۔۔۔۔ھم نے شادی پر شرماتے دولہے دیکھے۔۔۔۔
ھم نے پہلی دن کے دولہے دلہن کو فجر کی نماز پڑھتے دیکھا۔۔۔۔پہلے دن کی دلہن کو ساس نند کے ساتھ کچن میں کھڑے دیکھا کہ اس کی زلفوں سے پانی ٹپکنے کے کوئی آثار نہیں تھے۔۔۔
اب نہی ہے میسر وہ پنیاں السی کی اب نہیں ملتا باداموں والاگڑ اب نہیں ہیں وہ عید والے دن کی چاہتیں اب نہیں ہیں وہ شبرات پہ پٹاخے۔۔۔اب نہیں ہیں وہ خلوص حتیٰ کہ وہ چاہتیں بھی نہیں
ہم نے روائتی زندگی کے اصول کو خودکشی کرتے دیکھا