معراج خالد،ماں اور آج کے حکمراں۔۔۔ایک دل دہلا دینے والا واقعہ

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع مارچ 31, 2017 | 19:21 شام

لاہور ( خصوصی رپورٹ) پاکستان کے درویش صفت وزیر اعظم ملک معراج خالد کہتے ہیں کہ ” میں تیسری جماعت میں پڑھتا تھا، صبح سکول جانے لگا تو ہمارے گھر میں کھانے کو کچھ نہیں تھا، میں بھوکا تھا اور ضدی بچوں کی طرح اپنی ماں سے لڑ پڑا وہ بے چاری رونے لگی اس کے پاس کچھ نہیں تھا ۔ میں خالی پیٹ سکول چلا گیا ۔ شام کو گھر لوٹا میری ماں نے کچھ کھانے کا انتظام کر لیا تھا، لیکن نوالا حلق سے نیچے نہیں اتر رہا تھا۔ میں اس کے جھریوں بھرے چہرے کو دیکھتا رہا ۔ بہت ترس آیا ، وہ مجبور تھی میرے لیے اس نے پتہ نہیں کہاں سے کھانا لایا تھا۔ یہ واقعہ نوک خنجر بن کر سینے میں پیوست ہو گیا ۔میری ماں ایک سو پانچ برس کے بعد فوت ہوئیں ۔ میں ساری زندگی اس سے معافی مانگتا رہا ۔ وہ معاف بھی کر چکی تھیں لیکن میں نے اپنے آپ کو معاف نہیں کیا ۔ ساری زندگی میں نے دن کو جو کمایارات کو کھالیا ۔‘‘ کچھ بھی بچا کر نہیں رکھا ۔ مجھ سے اس دنیا میں بہت سے لوگ ناراض ہوتے رہے ہیں ۔ میں ان کو راضی کر لیا کرتا تھا۔ لیکن ’’ ماں کو میں کچھ بھی نہ دے سکا لیکن اﷲ توجانتا ہے ناں میرے پاس دینے کو کچھ بھی نہیں تھا۔کیا کہتے ہیں آپ مذہبی لوگ؟‘‘ جس ملک کا ایک بی ڈی ممبر کروڑوں کمالے ، ایک ممبر اسمبلی ، اسپیکر ، وزیر اعظم کیوں نہ کما سکا ۔اپنی ماں تو دور کی بات اپنے اکلوتے بیٹے کو بھی ویسا ہی چھوڑ گیا جیسا خود تھا۔ اپنے لیے کچھ نہ کر سکا ۔ اس کے ہاتھ کس نے باندھے تھے اورہمارے حکمرانوں کے ہاتھ کس نے کھول رکھے ہیں ؟ ایک سوال باقی ہے ۔ جس کا جواب نہیں ملتا۔ ملک معراج خالد ۱۳جون ۲۰۰۳ء کو اس دنیا سے چلے گئے اپنی ماں کے پاس ۔ اس ملک کا سربراہ خالی ہاتھ چلا گیا ایک کچا مکان ‘ چھ ایکڑ زمین ۔ حیرت ہے معراج خالد!حیرت۔