موہنجوداڑو کی تاریخ

2017 ,اگست 8



لاہور(مہرماہ رپورٹ): موہنجوداڑو وادی سندھ کی قدیم تہذیب کا ایک اہم مرکز تھا۔ یہ لاڑکانہ سے بیس کلو میٹر دور اور سکھر سے اسی کلو میٹر جنوب مغرب میں واقع ہے۔ یہ ہڑپہ سے 686 میل دور ہے۔ یہ شہر 2600 قبل مسیح موجود تھا اور 1700 قبل مسیح میں نامعلوم وجوہات کی بنا پر ختم ہو گیا۔ تاہم ماہرین کے خیال میں دریائے سندھ کے رخ کی تبدیلی، سیلاب، بیرونی حملہ یا زلزلہ اہم وجوہات ہو سکتی ہیں اسے قدیم مصر اور بین النہرین کی تہذیبوں کا ہم عصر سمجھا جاتا ہے۔ 1980ءمیں اسے یونیسکو نے عالمی ورثہ قراردیا تھا۔

وکی پیڈیا کے مطابق 1921ءکا واقعہ ہے کہ رائے بہادر دیارام سہنی نے ہڑپہ کے مقام پر قدیم تہذیب کے چند آثار دیکھے اس کے ایک سال بعد اسی طرح کے آثار راکھال داس بینرجی کو موہنجو داڑر کی سرزمین سے دستیاب ہوئے۔ اس کی اطلاع ہندوستان کے محکمہ آثار قدیمہ کو ملی تو محکمہ آثار قدیمہ کے ڈائریکٹر جنرل سرجان مارشل نے دلچسپی کا اظہارکرتے ہوئے ان دونوں مقامات کی طرف توجہ دی اور محکمہ آثار قدیمہ کے تحت کھدائی کا کام شروع کیا گیا لیکن یہ کھدائی کا کام مکمل نہ ہو سکا۔

جدید تحقیقات کی روشنی میں اب تک جو معلومات فراہم ہوئی ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ تقریباً ڈھائی ہزار سال قبل مسیح وادی سندھ ایک عظیم تہذیب و تمدن کا گہوارہ تھی اس وادی میں ایک مستحکم حکومت قائم تھی یہ حکومت صدیوں سے مضبوط چلی آ رہی تھی تب موہنجو داڑو کو سندھ کے دارالخلافہ کی حیثیت حاصل تھی۔

وادی سندھ کی تہذیب کی بے نقابی اور تشریح شاید بیسویں صدی کا عظیم ترین واقعہ ہے کیونکہ اس تہذیب کی وسعت اور معنویت کو 1922ءمیں موہنجوداڑو کی کھدائی سے پہلے سمجھا ہی نہ جا سکا تھا۔ اس کھدائی سے تاریخ کے ہزاروں سربستہ رازوں سے پردہ اٹھا۔ ان رازوں کے افشا ہونے سے پہلے ہندوﺅں کی مقدس کتابوں، تاریخ کی قدیم روایات غیر ملکی سیاحوں کے تذکروں کے مطابق آریاﺅں کی آمد سے قبل برصغیر میں وحشی او غیر متمدن لوگ آباد تھے۔ ان کا کوئی مذہب تھا نہ تہذیب یہ لوگ سیاہ فام تھے۔ ان کی ناک چپٹی تھی جو چہرے پر نہ ہونے کے برابر تھی۔ ان کو آریوں نے حملہ کرکے غلام بنا لیا لیکن موہنجوداڑو کی کھدائی کے بعد یہ سب باتیں غلط ثابت ہو گئیں۔ اس حملے سے پہلے وادی سندھ کا امیر طبقہ دولت کی فراوانی کی وجہ سے عیش و عشرت میں مگن تھا او رجرأت و بہادری کا جذبہ مفقود ہو چکا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی تساہل پسندی اور بزدلی کی وجہ سے یہ مغلوب ہو گئے۔ ورنہ تب سے 500 سال قبل وادی سندھ میں ایسے ذہین، باشعور اور مہذب لوگ آباد تھے جو کسی بھی متمدن تہذیب سے پیچھے نہ تھے۔

شیخ نوید اسلم اپنی کتاب ”پاکستان کے آثار قدیمہ“ میں لکھتے ہیں کہ موہنجوداڑو کا مطلب ہے ”مرے ہوئے لوگوں کا ٹیلہ“ کسی بلند مقام پر کھڑے ہو کر اگر ساری بستی کا جائزہ لیا جائے تو موہنجوداڑو کی یہ بستی چھ سات محلوں پر مشتمل معلوم ہوتی ہے۔ ان محلوں کو وسیع سڑکیں یا راستے ایک دوسرے سے جدا کرتے ہیں۔ یہ شہر شکل و صورت میں جزائر برطانیہ کے قدیم شہروں سے ملتا جلتا ہے۔ جس طرح آئرلینڈ کا سمندر انگلینڈ سے آئرلینڈ کو جدا کرتا ہے بالکل اسی طرح دریائے سندھ کی طغیاتی نے شاید ”اسٹوپہ علاقے“ کو ایک دوسرے علاقے سے الگ کر دیا تھا اور اب یہ کھنڈرات دو بڑے حصوں میں منقسم ہیں۔ ایک بالائی شہر اورایک نشیبی شہر، بالائی شہر ایک بیضوی ٹیلے پر قدیم آبادی کے مغربی سرے پر واقع ہے۔ اس شہر میں اسٹوپہ، ایک حوض، درسگاہ اور بڑے ستونوں والا ہال خاص طور پر قابل ذکر ہیں جبکہ نشیبی شہر میں رہائشی مکانات، دکانیں، کھلی سڑکیں اور گلیاں ہیں۔ ان کھنڈرات میں موجودہ طرز تعمیر کی جھلک بھی بخوبی نظر آتی ہے۔ ان آثار اور کھنڈرات کو دیکھ کر ایک برطانوی سیاح نے کہا تھا کہ میں ان کھنڈرات میں کھڑا ہو کر یوں محسوس کر رہا ہوں جیسے لنکاشائر کے کھنڈرات میں کھڑا ہوں۔کہنے کو تو موہنجوداڑو مردوں کا ٹیلہ ہے۔ بے جان اور خاموش شہر، لیکن جو لوگ آثار قدیمہ کی زبان سمجھتے ہیں یہ شہر ان سے باتیں کرتا ہے اور خوب باتیں کرتا ہے

موہنجوداڑو کا عمومی نقشہ ہڑپہ جیسا ہی تھا۔ شہر کے مغرب میں قلعہ ہے شہر کی گلیوں کی ترتیب، مکانات اور اناج گھر سب ہڑپہ جیسے ہیں۔ البتہ یہاں کی سب سے منفرد اور سب سے نمایاں جگہ اشنان گھر ہے۔ بڑا غسل خانہ، بڑی باﺅلی یا وسیع حمام، یہ ایک بڑی سی عمارت ہے۔ جس کے وسط میں ایک تالاب ہے یہ تالاب 39 فٹ لمبا، 23فٹ چوڑا اور 8 فٹ گہرا تھا۔ شمال اور جنوب دونوں سمتوں سے اینٹوں کے زینے نیچے اترتے تھے جن پر لکڑی کے تختے چپکا دیئے گئے تھے۔ تالاب کی چار دیواری کی بیرونی سمت لک یعنی تارکول کا لیپ کیا گیا تھا جو اس وقت بھی مختلف حالتوں میں دستیاب تھی۔ اس کے ذریعے تالاب میں سے پانی کے رسنے کا سدباب کیا گیا تھا۔

موہنجوداڑو دریائے سندھ کے اندر ایک جزیرہ نما خشکی پر واقع تھا۔ اس کے ایک طرف دریائے سندھ تھا تو دوسری طرف دریائے سندھ سے نکلنے والا نالہ بہتا تھا۔ یہ آگے جا کر واپس دریا میں مل جاتا تھا۔ اس لئے شہر کی حفاظت کے لئے ایک میل لمبا حفاظتی بند باندھ دیا گیا تھا۔ موہنجوداڑو میں بار بار سیلاب کی تباہ کاریوں کا ثبوت ملتا ہے۔ سیلاب کی لائی ہوئی مٹی سے اس شہر کی سطح زمین سے 30 فٹ بلند ہو گئی تھی۔

ہم جب موہنجوداڑو جیسے عالی شان شہر کے آثار دیکھتے ہیں جس کے مکانات پختہ اور مضبوط، دو دو تین تین منزلہ اونچے تھے۔ ان میں سڑکیں اور بازار ہیں۔ ان باشندوں کی زندگی و رواج اور عادات تہذیب کے سانچے میں ڈھلی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔ موہنجوداڑو کی عمارتوں میں سادگی اور پختگی ہے۔ تمام رہائشی مکانات آرام دہ تھے۔ عمارتوں کی بنیادیں گہری تھیں اور عمارتوں کو سیلاب سے محفوظ رکھنے کا خاص خیال رکھا جاتا تھا۔ ہوا کے لئے دیواروں میں جالیاں لگائی جاتی تھیں۔ رہائشی عمارتوں کے علاوہ بڑی بڑی عمارتیں، غسل خانے اور حمام بھی تعمیر کئے جاتے تھے۔ اناج کے ذخیروں کے لئے وسیع ہال اور گودام تعمیر کئے گئے تھے۔

موہنجوداڑو کے لوگ صفائی کا بہت خیال رکھتے تھے ہزاروں سال پرانے تعمیر کردہ کنویں میں سے ملبہ نکالنے کے بعد اب بھی صاف اور ٹھنڈا پانی نکل رہا ہے۔ گندے پانی کے نکاس کا جو طریقہ موہنجوداڑو میں پایا گیا ہے اس دور میں روئے زمین پر کسی بھی تہذیب میں اس کا سلیقہ نہیں تھا۔ گلیوں اور سڑکوں کے دونوں اطراف گندے پانی کے نکاس کے لئے نالیاں تعمیر کی جاتی تھیں جنہیں پتھر کی سلوں سے ڈھانپ دیا جاتا تھا اور صفائی کے وقت انہیں اٹھا کر صفائی کی جاتی تھی۔

موہنجوداڑو کے لوگ زراعت اور تجارت پیشہ تھے۔ ان کے زرعی آلات کانسی کے بنے ہوئے تھے شاید وہ لوگ لوہے کے استعمال سے واقف نہیں تھے۔ اس لئے یہ لوگ تانبہ اور کانسی جیسی دھاتیں کام میں لاتے تھے۔ یہ لوگ کشتیوں کے ذریعے دور دراز کے تجارتی سفر کرتے تھے اور اپنی مصنوعات کی فروخت کے ساتھ ضرورت زندگی کی اشیا دیگر علاقوں سے لاتے تھے۔ اس شہر کے بنے ہوئے مٹی کے برتن وادی دجلہ اور فرات میں بھی پائے گئے ہیں۔

یہاں کے لوگ زندگی گزارنے کے اصولوں سے اچھی طرح واقف تھے۔ ان میں فنکارانہ صلاحیتیں موجود تھیں۔ وہ فن تعمیر کے ماہر تھے، ان کی بنائی ہوئی اشیا میں خوبصورتی اور نفاست انتہائی عروج پر تھی۔ ان کے تعمیر کردہ مکان خوبصورتی اور مضبوطی کا بہترین نمونہ تھے۔ وہ حفظان صحت کے اصولوں سے بھی واقفیت رکھتے تھے۔ ناپ تول کے پیمانوں کی سختی سے جانچ پڑتال ہوتی تھی۔ ہیرے جواہرات، سونے چاندی کے زیورات اور نفیس برتن ان کے دولت مند ہونے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ وہ لوگ ہر کام انتہائی منصوبہ بندی کے تحت کرتے تھے۔ آبپاشی کے لئے نہریں کھودتے تھے اور سیلاب سے بچنے کے لئے بند تعمیر کرتے تھے۔ یہ لوگ کانسی اور تانبے کے ہتھیاروں اور اوزاروں کے ساتھ ساتھ پتھر کے برتن اور ہتھیار بھی استعمال کرتے تھے۔ ان کا ایک اپنا رسم الخط تھا جس میں یہ لوگ لکھتے تھے۔ لیکن کوشش کے باوجود وہ پڑھا نہیں گیا۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے یہ رسم الخط دائیں سے بائیں لکھا جاتا تھا لیکن ابھی اس کی تصدیق نہیں ہو سکی۔

موہنجوداڑو کے لوگ سنگ تراشی کے ماہر تھے۔ پتھروں پر نہایت خوبصورت اورنفیس تصویریں بنایا کرتے تھے۔ ان تصویروں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ فن مصوری پر بھی عبور رکھتے تھے۔ ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ برتن سازی کی ابتدا بھی قدیم سندھ سے ہوئی۔ یہاں کے لوگ تیروں سے جانوروں کا شکار کرتے تھے۔ وہ جانور پالتے بھی تھے۔ کھدائی کے دوران مختلف جانوروں کی ہڈیاں بھی برآمد ہوئی تھیں۔ اس دور کے والدین بچوں کے کھیل کود میں دلچسپ لیتے تھے۔ یہاں کافی مقدار میں بچوں کے کھلونے برآمد ہوئے ہیں جن پر بندر، کتے، بلی اور طوطے وغیرہ کی تصویریں بنی ہوئی تھیں۔ اس شہر کی کھدائی سے شطرنج کے مہرے بھی برآمد ہوئے جو موجودہ شطرنج کے مہروں سے خاصی مشابہت رکھتے تھے۔ اس دور کی عورتیں بناﺅ سنگھار کی بھی دلدادہ تھیں اور سونے چاندی اور ہیرے جواہرات کے زیورات پہنتی تھیں۔ ہاتھوں میں کنگن اور چوڑیاں، گلے میں ہار، انگلیوں میں انگوٹھیاں اور پاﺅں میں جھانجھریں پہنی جاتی تھیں۔ یہاں سے جو سرمے دانیاں برآمد ہوئی ہیں وہ آج کی سرمے دانیوں سے ملتی جلتی ہیں۔

عجیب بات یہ ہے کہ موہنجوداڑو کے وہ آثار جو زیادہ گہرائی میں ہیں وہ سب سے زیادہ ترقی کا پتہ دیتے ہیں یعنی جب شروع میں یہاں کے شہر بنے تب یہاں کی تہذیب اپنے عروج پر تھی اور بعد میں زوال آتا رہا جب تک موہنجوداڑو سے قدیم تہذیب کےآثار دریافت نہیں ہوتے تب تک یہ کہا جا سکتا ہے کہ موہنجوداڑو کی تہذیب ہی برصغیر کی سب سے قدیم تہذیب ہے۔ یہاں کے باسیوں کا تمدن اور ترقی آج بھی لوگوں کو حیرت زدہ کر دیتی ہے۔

متعلقہ خبریں