2017 ,فروری 25
اسلامی ضابطہ حیات اس اعتبار سے نوع انسانی میں ایک منفرد حیثیت کا حامل ہے کہ اس نے روز مرہ کی زندگی گزارنے کے اعلیٰ و ارفع اصولوں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو ایک خاص طرز فکر بھی دیا جس کی چھاپ زندگی کے تمام شعبوں پر نمایاں نظر آتی ہے طب سائنس تعلیم فلسفہ صنعت و حرفت تجارت غرض ہر شعبہ ہائے حیات میں اسلامی اصول و ضوابط کار فرما نظر آتے ہیں اسلامی فن تعمیر کا شمار بھی ایسے شعبوں میں ہوتا ہے جس نے تعمیرات کو ایک نئی جہت اور نیا تشخص عطا ءکیا۔
مسلمانوں کی مساجد دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں یہ دوسری عمارتوں سے ممتاز اور الگ تھلگ دکھائی دیتی ہیں ان کا انداز تعمیر سب سے نمایاں اور جدا نظر آتا ہے اسلام کی اولین درسگاہ مسجدنبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے کراب تک ان عبادت گاہوں کا ایک اپنا رنگ ڈھنگ ہے ان میں داخل ہوتے ہی انسان کو جو قلبی سکون اور طمانیت ملتی ہے وہ صرف اسلامی فن تعمیر کا حصہ ہے۔مساجد لاہور کی ہوں یا برصغیر کے کسی دور دراز مقام کی، خوبصورت گنبد اور محراب ان کا بنیادی وصف ہیں لیکن ان کی کشادگی وسیع عریض صحن اونچی چھتیں آسمان کی بلندی کو چھوتے ہوئے مینار خوبصورت ہوا دار جالیاں گنبد کی اندرونی آرائش و زیبائش اور دیدہ زیب فرشی ٹائلیں بھی ان مساجد کو ہر شخص کی توجہ کا مرکز بناتی ہیں۔ دیگر عبادت گاہیں ممکن ہے نقش نگاری اور مینا کاری کے اعتبار سے خوبصورت ہوں لیکن ان کے تنگ کمرے اور پیچیدہ راھداریاں گھٹن کا احساس دلاتی ہیں جبکہ مساجد میں کشادگی کا احساس ایک عجیب روحانی کیف اور قلبی سکون سے ہمکنار کرتا ہے۔ مغلوں نے پنجاب میں جتنی مساجد تعمیر کیں ان میں اسلامی فنِ تعمیر کو پیش نظر رکھا۔
بادشاہی مسجد لاہور، مغل شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر نے 1673ءمیں بنوائی تھی۔اورنگ زیب عالمگیر ایک دین دار اور علم پرور بادشاہ تھا اس نے اسلام کی بڑی خدمت کی برصغیر پاک و ہند کا یہ عظیم بادشاہ اپنی گذر اوقات کے لیے قرآن پاک کی کتابت کرتا اور ٹوپیاں سیا کرتا تھا۔ اورنگ زیب عالمگیر کی تعمیر کردہ اس مسجد کا شمار دنیا کی سب سے بڑی تاریخی مساجد میں کیا جاتا ہے اور یہ ”الولید مسجد“ کے نمونے پر تیار کی گئی جو شہر مکہ میں واقع ہے پوری مسجد سرخ و سفید پتھروں سے تیار کی گئی ہے اور اسے دیکھ کر منہ سے بے اختیار اس کے بنانے والوں کی تعریف نکلتی ہے۔
یہ مسجد ایک بہت بڑے چبوترے پر بنائی گئی ہے جو تمام کا تمام سرخ پتھر کا بنا ہوا ہے اور زمین سے کافی بلندی پر واقع ہے اس چبوترے کے چاروں کونوں پر چا ر اونچے
اونچے مینار ہیں اور ہر مینار کی چار منزلیں ہیں اوپر کی آخری منزل تک پہنچنے کے لیے مینار کے اندر چکر والی سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں جن کے ذریعے اوپر چڑھ کر لوگ آس پاس کے مناظر دیکھ کر لطف اٹھاتے ہیں چاروں میناروں سے شہر لاہور کے چاروں حصوں کو دیکھا جاسکتا ہے۔مسجد کے ایک طرف دریائے راوی بہتا ہے جو مینار کی اونچائی سے ایک چمکدار اور سانپ کی طرح بل کھاتی ہوئی لکیر کی مانند نظر آتا ہے دوسری طرف شہر کی چھوٹی بڑی عمارتیں یوں دکھائی دیتی ہیں جیسے دور تک مٹی کے گھروندے بکھرے ہوئے ہیں دروازے کی طرف لاہور کا شاہی قلعہ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے سیاحوں کا منتظر رہتا ہے۔
ان میناروں کے متعلق ایک خاص بات یہ مشہور ہے کہ ان میں سے چاہے کسی مینار پر کھڑے ہو کر جہانگیر کے مقبرے کے میناروں کو دیکھا جائے ہر صورت میں صرف تین نظر آتے ہیں اور چوتھا آنکھوں سے اوجھل رہتا ہے لیکن اگر جہانگیر کے مقبرے سے شاہی مسجد کے مینار دیکھے جائیں تو چاروں نظر آتے ہیں صرف اسی ایک بات سے اس زمانے کے ماہر انجینئروں کی فنی مہارت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔مسجد کے باہر کے حصے میں گیارہ محرابیں اور سنگ مر مر کے بنے ہوئے آٹھ منارے ہیں ان کے علاوہ تین بڑے گنبد بھی ہیں جو سنگ سرخ اور سنگ مر مر سے تیار کیے گئے ہیں۔
مسجد کا اندرونی فرش سفید سنگ مر مر کا ہے جس میں سیاہ دھاریاں ہیں ان سیادہ دھاریوں سے نماز پڑھتے وقت سیدھی صفیں بنانے میں مدد ملتی ہے اندرونی دیواروں اور محرابوں پر بھی خوبصورت نقش ونگاری اور مینا کاری کے اعتبار سے خوبصورت ہوں لیکن ان کے تنگ کمرے اور پیچیدہ راھداریاں گھٹن کا احساس دلاتی ہیں جبکہ مساجد میں کشادگی کا احساس ایک عجیب روحانی کیف اور قلبی سکون سے ہمکنار کرتا ہے۔ مغلوں نے پنجاب میں جتنی مساجد تعمیر کیں ان میں اسلامی فنِ تعمیر کو پیش نظر رکھا۔
بادشاہی مسجد لاہور، مغل شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر نے 1673ءمیں بنوائی تھی۔اورنگ زیب عالمگیر ایک دین دار اور علم پرور بادشاہ تھا اس نے اسلام کی بڑی خدمت کی برصغیر پاک و ہند کا یہ عظیم بادشاہ اپنی گذر اوقات کے لیے قرآن پاک کی کتابت کرتا اور ٹوپیاں سیا کرتا تھا۔ اورنگ زیب عالمگیر کی تعمیر کردہ اس مسجد کا شمار دنیا کی سب سے بڑی تاریخی مساجد میں کیا جاتا ہے اور یہ ”الولید مسجد“ کے نمونے پر تیار کی گئی جو شہر مکہ میں واقع ہے پوری مسجد سرخ و سفید پتھروں سے تیار کی گئی ہے اور اسے دیکھ کر منہ سے بے اختیار اس کے بنانے والوں کی تعریف نکلتی ہے۔
یہ مسجد ایک بہت بڑے چبوترے پر بنائی گئی ہے جو تمام کا تمام سرخ پتھر کا بنا ہوا ہے اور زمین سے کافی بلندی پر واقع ہے اس چبوترے کے چاروں کونوں پر چا ر اونچے اونچے مینار ہیں اور ہر مینار کی چار منزلیں ہیں اوپر کی آخری منزل تک پہنچنے کے لیے مینار کے اندر چکر والی سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں جن کے ذریعے اوپر چڑھ کر لوگ آس پاس کے مناظر دیکھ کر لطف اٹھاتے ہیں چاروں میناروں سے شہر لاہور کے چاروں حصوں کو دیکھا جاسکتا ہے۔مسجد کے ایک طرف دریائے راوی بہتا ہے جو مینار کی اونچائی سے ایک چمکدار اور سانپ کی طرح بل کھاتی ہوئی لکیر کی مانند نظر آتا ہے دوسری طرف شہر کی چھوٹی بڑی عمارتیں یوں دکھائی دیتی ہیں جیسے دور تک مٹی کے گھروندے بکھرے ہوئے ہیں دروازے کی طرف لاہور کا شاہی قلعہ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے سیاحوں کا منتظر رہتا ہے۔
ان میناروں کے متعلق ایک خاص بات یہ مشہور ہے کہ ان میں سے چاہے کسی مینار پر کھڑے ہو کر جہانگیر کے مقبرے کے میناروں کو دیکھا جائے ہر صورت میں صرف تین نظر آتے ہیں اور چوتھا آنکھوں سے اوجھل رہتا ہے لیکن اگر جہانگیر کے مقبرے سے شاہی مسجد کے مینار دیکھے جائیں تو چاروں نظر آتے ہیں صرف اسی ایک بات سے اس زمانے کے ماہر انجینئروں کی فنی مہارت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔مسجد کے باہر کے حصے میں گیارہ محرابیں اور سنگ مر مر کے بنے ہوئے آٹھ منارے ہیں ان کے علاوہ تین بڑے گنبد بھی ہیں جو سنگ سرخ اور سنگ مر مر سے تیار کیے گئے ہیں۔
مسجد کا اندرونی فرش سفید سنگ مر مر کا ہے جس میں سیاہ دھاریاں ہیں ان سیادہ دھاریوں سے نماز پڑھتے وقت سیدھی صفیں بنانے میں مدد ملتی ہے اندرونی دیواروں اور محرابوں پر بھی خوبصورت نقش و نگار بنائے گئے ہیں جس سے اس زمانے کے کاریگروں کی اپنے فن میں مہارت کا اندازہ ہوتا ہے مسجد کے دروازے کے ٹھیک سامنے ”حضوری باغ“ ہے جس کے اندر سکھوں نے بارہ دری کے نام سے ایک عمارت بنوائی یہ بھی سفید سنگ مر مر سے بنی ہوئی ہے مسجد کے دروازے کے ساتھ ہی پاکستان کے تصور کے خالق علامہ اقبال کا مزار ہے جو اگرچہ بہت چھوٹا سا ہے لیکن اپنی عظمت اور خوبصورتی میں کسی سے کم نہیں۔
اس عظیم الشان مسجد کو دیکھنے کے لیے روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں سیاح دور و نزدیک کا سفر طے کرکے یہاں آتے ہیں خصوصاً اسلامی ممالک کے وزرائے اعظم صدر صاحبان اور دیگر معزز وفود کے دروہ¿ لاہور کے موقعہ پر شاہی مسجد کی زیارت دورے کا اہم اور لازمی حصہ شمار کی جاتی ہے اب تک بیشتر اسلامی ممالک کے رہنما اور لیڈر جن میں سعودی عرب، لیبیا، اردن، ایران، مصر، شام، کویت، متحدہ عرب امارات، سوڈان، انڈونیشیا، ترکی، ملائیشیا، اور بنگلہ دیش وغیرہ کے رہنماءاور وفود شامل ہیں۔ اس عالمی مسجد کی زیارت کا شرف حاصل کر چکے ہیں۔
m