2019 ,اکتوبر 18
یہ مردہ پچھتاوے کا اظہار کرتے ہوئے کہہ رہا تھا‘ میں نے ہمیشہ اپنے وجودکو اللہ تعالیٰ کی کبریائی سے مقدم رکھا۔. میں تین منٹ میں سب سے معافی مانگنا چاہتا ہوں اور میں اپنے گلابوں کو چھو کر دیکھنا چاہتا ہوں‘‘ہم سب سناٹے میں تھے کہ اگلی قبر سے ایگزیکٹو قسم کا مردہ تھا۔ اس کے چہرے پر کامیاب بزنس مین کا اعتماد تھا۔ میں نے اس سے پوچھا ’’ تم بھی مر گئے؟‘‘ اس نے افسوس سے سر ہلایا اور جواب دیا ’’ میں بھی اس بات پر حیران ہوں،میں دنیا کے بہترین ڈاکٹر، اعلیٰ ترین ہسپتال اور مہنگی ترین دوائیں افورڈ کر سکتا تھا۔ میں نے دنیا کی مہلک ترین بیماریوں کی ویکسین لگوا رکھی تھی۔ میں امریکا اور یورپ کی بہترین لیبارٹریوں سے ہر چار ماہ بعد اپنے ٹیسٹ کرواتا تھا۔ ہفتے میں دو بار اسٹیم باتھ لیتا ، میں ڈائیٹ چارٹ کے مطابق خوراک کھاتا تھا۔ ہر ہفتے فل باڈی مساج کرواتا تھا۔ میں کام کا سٹریس بھی نہیں لیتا تھا۔ میں نے ہمیشہ بلٹ پروف گاڑی اور ذاتی جہاز میں سفر کیا‘ میرے پاس پانچ ہزار لوگ ملازم تھے. یہ لوگ میرا سارا سٹریس اٹھا لیتے تھے اور میں صرف عیش کرتا تھا مگر پھر مجھے کھانسی آئی‘ میں نیچے جھکا‘ فرش پر گرا اور مر گیا اور میں پچھلے تین منٹ سے یہ سوچ رہا ہوں‘ میں کیسے مر سکتا ہوں‘ میں نے تو کبھی مرنے کے بارے میں سوچا ہی نہیں تھا‘‘میں نے اس سے پوچھا ’’ تم اب کیا چاہتے ہو‘‘ اس نے تڑپ کر جواب دیا ’’بس دو تین منٹ کی زندگی‘ میں واپس جا کر اپنی ساری دولت کسی مدرسہ یا ویلفیئر کے لیے وقف کرنا چاہتا ہوں‘ میں اس سے بڑا اسلامک ادارہ یا فری میڈیکل کالج‘ ملک کا سب سے بڑا تھیلیسیمیا اسپتال یا پھر ملک کی سب سے بڑی سائنس یونیورسٹی بنانے کا حکم دوں گا اور پھر واپس آ جاؤنگا۔
ابھی اس کی بات جاری تھی تیسرا مردہ بول پڑا‘ یہ مردہ چال ڈھال اور شکل شباہت سے سیاستدان دکھائی دیتا تھا‘ اس کے چہرے پر ’’فنکاری‘‘ موجود تھی۔
میں نے پوچھا ’صاحب آپ بھی فوت ہو گئے‘‘وہ دکھ میں ڈوبی آواز میں بولا ’’ ہاں اور میں اسی بات پر حیران ہوں‘ سوچ رہا ہوں‘ میں کیسے مر سکتا ہوں‘ میں تو وہ شخص تھا جس کے ایک نعرے پر لوگ جان دیتے تھے‘ میری گرفتاری‘ میری قید پر میرے ورکر خود سوزی کر لیتے تھے‘ لوگ مجھ سے ٹکٹ لینے کے لیے گیارہ ہزار وولٹ کے کھمبے پر چڑھ جاتے تھے۔ میرے جوتے اٹھا کر سینے سے لگا لیتے تھے اور میں اس وقت تک کوئی چیز کھاتا تھا اور نہ ہی پیتا تھا میرے ڈاکٹر جب تک اس کی تصدیق نہیں کر دیتے تھے. میں ہمیشہ بلٹ پروف شیشوں کے پیچھے رہا اور میں تقریر بھی بلٹ پروف کیبن میں کھڑے ہو کر کرتا تھا‘ میں ہر مہینے عمرے کے لیے جاتا تھا اور ہر دوسرے دن دو لاکھ روپے خیرات کرتا تھا مگر آج اچانک میرے سر میں درد ہوا‘ میں نے کنپٹی دبائی‘ میرے دماغ میں ایک ٹیس سی اٹھی‘ میں نے چیخ ماری اور مر گیا۔میں نے اس سے بھی پوچھا ’’ آپ کی اس وقت سب سے بڑی خواہش کیا ہے‘‘ اس نے اسی طرح سر پکڑا جیسے مرنے سے قبل پکڑا تھا اور جواب دیا ’’ صرف دو منٹ کی زندگی‘ میں اس دنیا کے تمام سیاستدانوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں‘ آپ موت سے نہیں بچ سکتے چنانچہ عوام اور اپنے درمیان سے بلٹ پروف شیشے ہٹا دیں‘ خدمت اور تبدیلی وہی ہے جو آپ آج لے آئے‘ اگر آج کی ٹرین مس کر دی تو دوبارہ نہیں پکڑ سکیں گے‘ آپ خادم ہیں تو خدمت کریں نعرے نہ لگائیں‘‘
ابھی اس کی بات جاری تھی کہ مولوی صاحب کا مردہ سیدھا ہو گیا۔ ان کے ماتھے پر زہد اور تقویٰ کا نشان تھا‘ گردن عجز اور انکساری کے بوجھ سے جھکی ہوئی تھی‘
میں نے انھیں پوچھا ’’ حضور آپ بھی مر چکے ہیں‘‘مولوی صاحب بولے ’’ میں بھی اس بات پر حیران ہوں‘ میں نے زندگی میں سیکڑوں جنازے پڑھائے‘ اپنی ہر تقریر میں موت‘ میدان حشر اور حساب کا ذکرکیا لیکن اس کے باوجود مجھے یقین تھا میں نہیں مروں گا‘ اللہ تعالیٰ مجھے بہت عمر دے گا اور میں جب تک موت کے فرشتے کو اجازت نہیں دوں گا یہ میرے بستر کے قریب نہیں پھٹکے گا مگر ہوا اس سے الٹ, میں مسجد میں نماز سے فارغ ہوا ابھی مسجد سے نکلنے بھی نہ پایا کہ روح جسم سے پرواز کرگئی۔مجھے بھی اب صرف تین منٹ چاہئیں۔ میں دنیا کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ لوگوں کو اللہ تعالیٰ ،کتاب اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کو اپنانا چاہئے اللہ سے اپنی غلطیوں‘ گناہوں اور کوتاہیوں کی معافی مانگو‘ قرآن کریم پڑھو اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر ایک سنت سے اپنی زندگی سنوارتے جاؤ۔ کل ہر ایک کو دنیا میں تین منٹ کیلئے دنیا میں آنے کی حسرت ہوگی مگر ایسا ممکن نہیں ہوگا۔ اب آپ کے پاس ایسے بے شمار منٹ ہیں‘ ان کو انسانیت کی بھلائی کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ (ختم شد)