مشعال خان قتل کیس کی اصل حقیقت کیا ہے ؟

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اپریل 18, 2017 | 08:47 صبح

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک / سجاداظہرپیرزادہ): سوابی انٹر چینج سے 6کلومیٹر دور ضلع مردان کے شہر سوابی کے گائوں زیداں میں واقع محلہ بابو خیل کے ایک ساڑھے چار مرلہ مکان میں رہائش پذیر مشعال نامی 23سالہ نوجوان کو توہین مذہب کے نام پر قتل کردینے کے سانحہ کے پس پردہ اصل کہانی سامنے آئی ہے۔ نوائے وقت میگزین کو تحقیق کے بعد ملنے والی مصدقہ اطلاعات کے مطابق واقعہ کا اصل کھرا نوجوان مشعال سمیت بعض نوجوانوں اور یونیورسٹی کی انتظامیہ کے درمیان یونیورسٹی کے معاملات کو لے کر کچھ عرصہ سے چلنے والی چپقلش سے جا ملتا ہے۔ 13اپریل 2017ء کی دوپہر 12بجے ہوئے مشعال خان کے قتل سے پہلے عبدالولی خان یونیورسٹی میںکوئی وائس چانسلر تعینات نہیں تھا۔ اطلاعات کے مطابق مشعال اور یونیورسٹی کی انتظامیہ کے درمیان جس بات پر چپقلش چل رہی تھی اِس میں یہ مطالبہ سرفہرست تھا کہ یونیورسٹی میں وائس چانسلر کی تعیناتی کی جائے۔مشعال کا انتظامیہ سے مطالبہ تھا کہ عبدالولی خان یونیورسٹی کی فیسیں باقی یونیورسٹیوں سے زیادہ کیوں ہیں؟مشعال احتجاج کرتا تھا کہ یونیورسٹی انتظامیہ کو عارضی بنیادوں پر رکھنے کی بجائے میرٹ پر لوگوں کی تعیناتی کیوںنہیںکی جاتی۔نوائے وقت میگزین نے مشعال خان کا وہ انٹرویو بھی حاصل کیا جو مرحوم نے اپنے قتل سے دو دن قبل خیبر ٹی وی کو دیا تھا۔اس انٹرویو میں مشعال خان نے کہا ’’یونیورسٹی میں کئی سینئر اساتذہ دو عہدوں پر براجمان ہیں۔ آخر یہ کس قانون کے تحت دو عہدوں پر بیٹھے ہیں ؟ بعض پروفیسرز تو ایک ساتھ تین تین عہدے لئے بیٹھے ہیں۔ اس معاملے پر اور فیسوں میں اضافے کے خلاف ہمارا احتجاج جاری ہے۔ یہ بھی سرکاری یونیورسٹی ہے، دوسری یونیورسٹیز میں 5تا 10ہزار فیس ہے۔ مگر اس یونیورسٹی میں 25ہزارفیس لی جارہی ہے۔ آخر اتنی زیادہ فیس کس بات کی وصول کی جارہی ہے؟ یہ ظلم ہے جس کے خلاف ہم میڈیا کے تعاون سے آواز اٹھا رہے ہیں۔

اہل علاقہ جمال، سعید عالم ،محمد علی نے نوائے وقت میگزین کو بتایا کہ عبدالولی خان یونیورسٹی ایڈہاک پر چل رہی ہے۔ یونیورسٹی میں عارضی بنیادوں پر کام کرنے والی انتظامیہ کی کارکردگی کے حوالے سے طلباء کی اکثریت کے ذہنوں میں سوالات تھے اور وہ اپنے حق کو استعمال کرتے ہوئے یونیورسٹی انتظامیہ کے ساتھ اپنی شکایات کا اظہار کئی دنوں سے جاری احتجاج کی صورت میں کر رہے تھے۔ عبدالولی خان یونیورسٹی میں عارضی بنیادوں پر روز مرہ کے امور سر انجام دینے والی انتظامیہ کی کارکردگی کے خلاف احتجاج میں شامل مشعال نامی نوجوان ایک ایسا طالب علم تھا جو شعور ، انسانیت، انصاف اور روشن نظریات کا پرچار کرتا تھا۔ یہ ہی وجہ تھی کہ یونیورسٹی انتظامیہ کی کارکردگی پر سب سے زیادہ آواز مشعال کی جانب سے ہی اٹھائی جارہی تھی۔ اور اِس دوران اِسے کچھ لوگوںکی جانب سے مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑا۔

نوائے وقت میگزین کی جانب سے کی گئی تحقیق کے مطابق مشعال نے اِس خطرے کا اظہار اپنے فیس بک پیچ پر 24 دسمبر 2016ء کو ایک پوسٹ کے ذریعے اِن الفاظ میں کیا تھا ’’ کچھ لوگ میری جعلی آئی ڈی بنا کر گھنائونا کھیل کھیل رہے ہیں، اور اِس گھنائونے کام میں اس کے اپنے دوست بھی شریک ہیں‘‘۔

نوائے وقت میگزین نے اس حوالے سے مزید چھان بین کرتے ہوئے لیاقت یوسفزئی نام کے ایک بزرگ کو تلاش کیاجن کے ہاتھوں میں پل کر مشعال نوجوان ہوا تھا۔ لیاقت یوسفزئی نے بتایا کہ مبینہ طور پرمردان کے ناظم حیات اللہ کے دو کزن یونیورسٹی انتظامیہ میں شامل ہیں۔ اور مبینہ طورپران دونوں کو مشعال سے شدید مخاصمت تھی۔ لیاقت یوسفزئی نے مشعال خان کے کردار کے بارے میں بتایا کہ وہ ایک سچا اورکَھرا انسان تھا۔ وہ سائنسی سوچ کا جدید دور کا انسان تھاجو انسانیت کی بات کرتا تھا۔ مبینہ طور پریونیورسٹی انتظامیہ کے اِن دونوں لوگوں نے مشعال خان کو اپنے راستے سے ہٹانے کے لئے مذہب کا سہارا لیا اور مشعال پر جھوٹا الزام لگا کے اس کو جان سے مار ڈالنے کی گھنائونی سازش کی۔ لیاقت یوسفزئی نے بتایا کہ مشعال میرے سب سے قریبی دوست اقبال خان کا بیٹا ہے۔ میرے ہاتھوں میں پلا بڑھا اور جوان ہوا ہے۔ مشعال پر ظلم ہوا اور یہ کھلی دہشتگردی ہے۔ خوشی ہوئی کہ چیف جسٹس نے واقعہ کا نوٹس لیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ انتظامیہ کے اِن دونوں لوگوں کا نام بھی ایف آئی آر میں شامل ہے اور یہ گرفتا بھی ہیں۔

نوائے وقت میگزین نے واقع کی مزید تفصیلات اور حقائق جاننے کے لئے مشعال کے والد اقبال خان سے رابطہ کیا۔چیئرمین سینٹ رضا ربانی جب ‘ مشعال خان کی بے رحمانہ موت پرمرحوم کے سوئم میں شرکت کے لئے ان کی رہائش گاہ سوابی پہنچے تواُس وقت شام 6بج کر 15منٹ پرمشعال کے والداقبال خان بھائی ایمل خان ہمارے ساتھ فون پر گفتگو کرتے ہوئے حقائق سے آگاہ کر رہے تھے۔بعد ازاں وہ رضا ربانی کے ساتھ مشعال خان کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لئے روانہ ہوگئے اور جاتے جاتے

مشعال کے والد اقبال خان نے ایک شعر پڑھا

’’بس کہا تھا کہ میری آنکھ دیکھ سکتی ہے

تو مجھ پر ٹوٹ پڑا سارا شہر نابینا ‘‘

مشعال کے والد اقبال خان پشتو کے شاعر اور بزنس مین ہیں۔ اقبال خان،مشعال کی والدہ نے بتایا ’’مشعال نے ماں سے جمعہ کو آنے کا وعدہ کیاتھا، اور وہ جمعہ کو ہی آیا مگر زندہ سلامت نہیں!۔اقبال خان نے کہا صرف میرے بیٹے کو ہی نہیں مارا گیا ، بلکہ ریاست کی رٹ کو بھی چیلنج کیا گیا ہے، پورا گائوں ہمارے دین و ایمان کی گواہی دیتا ہے، جب بھی پیارے نبی ؐ کا نام آتا تھا ، مشعال درود پڑھتا تھا۔

مشعال کی دو بہنیں اور ایک بھائی ہے۔ ایک بہن یونیورسٹی کی طالب علم تو دوسری نویں کلاس میں پڑھتی ہے۔ مشعال کا بھائی ایمل خان ایئر فورس میں ملازم ہے۔رات گئے سامنے آنے والے حقائق سے باخبر رکھنے کیلئے ایمل خان نوائے وقت میگزین کے ساتھ 2 بجے تک رابطے میں رہے ۔ ایمل خان نے بتایا کہ جب وقوعہ ہورہا تھا تو انتظامیہ کہاں تھی ؟سکیورٹی کہاں تھی ؟اور سب سے بڑی بات انسانیت کہاں تھی ؟کیا یہ سب سوالات اس بات کی دلیل نہیں کہ اس کے خلاف سازش ہوئی ؟ مشعال کے بھائی ایمل خان نے بتایا کہ مشعال نے قائد اعظم پبلک سکول پشاور سے ایف۔ ایس ۔ سی کی۔ روس جا کر ماسکو سے انجیئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے ایڈمیشن لیا۔ اور پھر عبدالولی خان یونیورسٹی میں جرنلزم کے شعبہ میں داخلہ لے لیا، جہاں پراِن کا چھٹا سمسٹر چل رہا تھا۔

نوائے وقت میگزین کونام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر پولیس کے ذرائع نے بتایا کہ 13اپریل کی دوپہر 12بجے جس وقت مشعال پر ظلم ہورہا تھا اُس وقت یونیورسٹی کے باہر پولیس کی بھاری نفری ، 3موبائل اورایک پولیس افسر بھی موقع پر موجود تھا۔ نوائے وقت میگزین نے اس بارے میں حقائق جاننے کے لئے ڈی آئی جی مردان عالم خان سے رابطہ کیا۔ڈی آئی جی مردان عالم خان نے نوائے وقت میگزین کو بتایاکہ وہ ہمیں پریس ریلیز بھجوادیں گے۔ تفتیش کر رہے ہیں۔ ڈی آئی جی عالم خان سے پھر سوال کیا گیا کہ وہ موقع پر پولیس نفری کے موجود ہونے پر کیا کہیں گے تو انہوں نے کوئی جواب دینے کی بجائے کچھ نہ کہا۔اور پھر فون نہ اُٹھایا۔

یونیورسٹی انتظامیہ کے متعلق حقائق جاننے کے لئے ڈی پی اومردان میاں سعید سے جب نوائے وقت میگزین نے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ مشعال پر توہین کا الزام ثابت نہیں ہوا، باقی تفتیش ہورہی ہے، ہماری توجہ قاتلوں کو پکڑ نے پر مرکوز ہے۔آج مزید 6ملزمان کو گرفتا ر کیا جاچکا ہے۔ 25میں سے 22ملزموں کو گرفتا کیا جاچکا ہے۔ڈی پی او مردان سے سوال کیا گیا کہ یونیورسٹی سے صرف ایک کلومیٹر دوری پر واقع پولیس اسٹیشن کا عملہ وقوعہ کے وقت کہاں تھا ؟ تو وہ بھی کوئی جواب نہ دے پائے۔

اتوار کی رات10بج کر 9منٹ پر ڈی پی اور مردان میا ں سعید سے نوائے وقت میگزین نے پھر رابطہ کر کے سوال کیا کہ پولیس وقوعہ کے وقت کہاں تھی ؟توان کا کہنا تھا’’آپ ہمیں کام کرنے دیں ‘‘