خود فناہی

2022 ,نومبر 19



تحریر: مہرماہ
”میں ایک بار پھر اس کیفیت سے ہمکنار ہونے کی جستجولئے ہوئے ہوں۔ وہ ایک عجب کیف تھا، سرور تھا، لذت آشنائی شاید اسی کو کہا گیا ہے“۔
 یہ بات کرتے ہوئے اس کے چہرے کے تاثرات کے ساتھ رنگ بھی بدل رہا تھا۔ آواز کے اُتار چڑھاؤ اور لب و لہجے کے تغیر سے اس کی اندرونی حالت کی غمازی ہوتی تھی۔کبھی مایوسی کی گہرائی میں گری نظر آتی، کبھی طمانیت کی معراج پر دِکھتی۔ ایسی کیفیت میں اس کا چہرہ چہکتے ہوئے گلنار ہو جاتا۔
 ”وہ کیفیت کیسے ہوئی؟ کوئی خواب دیکھا؟ کوئی دیومالائی مقام دیکھا؟ کسی طلسم کدے میں چلی گئیں ؟“۔ میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے سوال کیا۔ 
” میں ایک دوست اور دوستی کی بات کر رہی ہوں “۔یہ فقرہ کہتے ہوئے وہ کھوسی گئی اور ایک لمحے کے لیے خلاءمیں گھورنے لگی۔
 ”دوست کوئی لڑکا تھا؟“۔میں نے اندازہ لگاتے ہوئے پوچھا۔

350+ Romantic Couple Pictures | Download Free Images on Unsplash
”فرشتہ!لڑکے کے روپ میں فرشتہ۔فرشتے سنا ہے نور سے بنے ہوئے ہیں وہ بھی سراپا نور تھا“۔یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں میں چمک اور چہرے پر چہک آ گئی۔
”تو کیا ہوا؟ وہ کہاں گیا؟۔ آپ نے وفا نہ کی یا اس نے؟“۔ میں نے اس کے دل کے تار چھیڑتے ہوئے استفسار کیا۔
 ”میں شروع سے سٹوری سناتی ہوں ۔کانفرنس میں سب کا تعارف ہو رہا تھا، اس کی باری آئی تو اس نے اپنا نام بتایا۔ ہال میں داخل ہوتے ہوئے میری اس سے آنکھیں ملی تھیں۔ مجھے اس میں ایک عجیب سی کشش محسوس ہوئی۔ اس نے بھی مجھے دیکھاتھا۔ اب تعارف ہو رہا تھا تو میری نظریں اسی پر جمی ہوئی تھیں اور تعجب خیز امر ہے کہ تعارف کراتے ہوئے وہ بھی میری ہی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں کی جاذبیت میں مزید اضافہ ہو گیا تھا۔ یوںلگا جیسے اس کی آنکھیں مجھے اپنی طرف کھینچ رہی ہیں۔ تعارف ہوتا رہا مگر میری نظر یں اس پر اور اس کی بھی اتفاق سے مجھ پر ٹکی ہوئی تھیں ۔ تعارف کی میری باری آئی تو میں نے دوسرے شرکاءکی طرح تعارف کرایا مگر ہماری آنکھیں تو گویا ایک دوسرے میں پیوست تھیں۔ کانفرنس کا یہ سیشن ختم ہوا تو ہم اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔ میں نے جاتے ہی اپنا فون آن کیا۔ اس کے نام پر سرچ کیا تو کئی اکاؤنٹس اس کے نام کے سامنے آگئے۔لیکن اس کی فوٹو نے مشکل پیدا نہ ہونے دی۔ میںنے فرینڈ ریکوئسٹ سینڈ کی۔ عین اسی وقت اس کی طرف سے بھی ایسی ہی ریکوئسٹ آچکی تھی۔ میں نے اس کا مسینجر کھولا اسے میسج کیا۔ ”آپ کو پہلی بار دیکھا مگر لگتا ہے برسوں کی شناسائی ہے“۔ میں نے یہ میسج سینڈ کر دیا مگر ایک سیکنڈ میں بلکہ اس بھی کم وقت میں مجھے میسج وصول ہوا جومیرے میسج کا جواب نہیں تھا۔

Cute Couple in Sunset Wallpapers on WallpaperDog
 ”آپ کو پہلے کہاں دیکھا ہے؟ دیکھا بھی ہے یا گماں ہی ہے“۔ ایک ہی بات مگر چند لفظوں کے فرق کے ساتھ۔
”آپ کی آنکھوں میں کشش مجھے اپنی طرف کھینچ رہی ہے“۔ میں نے یہ میسج کیا۔ عین اسی موقع پر دوسری طرف سے میسج آ چکا تھا۔
 ”میں خود کو آپ کی آنکھوں کی گہرائی میں ڈوبتا ہوا محسوس کرتا ہوں“۔
 پھر ایک ہی بات مگر الفاظ اپنے اپنے۔ اِدھردل میں ایک عجیب سا تلاطم اور دماغ میں ہلچل ہونے لگی۔ اس سے ملاقات کی جستجو اب ہلکی سی تڑپ میں ڈھل رہی تھی۔ میں جس کمرے میں ٹھہری تھی وہاںدو اور لڑکیاں بھی تھیں۔ ان کی اپنی مصروفیات تھیں۔ وہ اس سیشن کے بعد ڈنر کے لیے چلی گئیں۔ مجھے بھوک نہیں تھی یا یہ کہیں کہ کسی اور قسم کی بھوک تھی۔
”آپ کھانا کھا لیں پھر بات کرتے ہیں“۔ میں نے میسج کیا۔
”ابھی بھوک نہیں لگی ویسے بھی جو بھوک ہے وہ لنچ اور ڈنر سے نہیں مٹے گی۔ ایسا لگتا ہے صدیوں سے پیاسا ہوں ۔ آب کو دیکھا تو لگا ساگر کے ساحل پر آگیا ہوں۔ شاید چند بوندیں میسر آجائیں“۔اس نے ادیبانہ انداز میں بات کی تو میں اسے داد دیئے بنا نہ رہ سکی۔ تو یہ ہماری پہلی گفتگو تھی مگرتمام تر تکلفات برطرف تھے۔
 ”یہ ساگر تو پیاسے کے پاس آنے کو بے تاب ہے۔ چند بوند کیا پورے ساگر کو اپنے اندرسمیٹ لو“۔
 جس طرح میں نے اسے اس کے ادبی ذوق پر داد دی تھی، اسی طرح اس نے بھی میری پذیرائی کی۔ دل کی دھڑکن میسج کرتے اور جواب پڑھتے مدوجزر کا شکار رہی۔ کافی باتیں ہوئیں۔ 
دوسرے سیشن کے لیے جانا تھا۔کانفرنس میں ہونے والی تقاریر پر فوکس کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ میری آرزوو¿ں، تمناو¿ں اور نظروں کا مرکز وہی شناسا اجنبی تھا جو میرے لیے کسی شہزادے سے کم نہیں تھا۔ ہماری سیٹیں اس طرح تھیں کہ ایک دوسرے کے روبرو تھے۔ گوکہ ہم با ہم گفتگو نہیں تھے مگر آنکھوں سے دل کا پیغام بھیجنے اور موصول ہونے کا سلسلہ جاری رہا۔اس موقع پر لگ رہا تھا کہ میں اس میں سما رہی ہوں اور وہ میرے وجود میں اتررہا ہے۔ یہ سیشن شام کواختتام پذیر ہوا ۔ اس کے بعد اگلے روز آڈیٹوریم میں آنا تھا۔اپنے اپنے کمروں میں جا کر پہلا کام فون آن کر کے رابطہ کرنے کا کیا۔
”آپ نے کیا جادو کر دیا ہے؟“۔ میں نے دلی کیفیت بیان کرتے ہوئے میسج کیا مگر حیران کن طور پر دوسری طرف سے میسج آ چکا تھا۔ 
”میں آپ کے سحر کا اسیر ہو چکا ہوں۔ لگتا ہے آپ میرے اندر اتر رہی ہیں“۔

Pin de dream catcher en lesbian️‍ | Fotos de abrazos, Fotos de novios  tumblr, Fotografía de pareja
 ایک بار پھر دلی کیفیت ایک جیسی تھی۔ میں نے اپنی عمر کے مطابق جتنی ممکن ہوا دنیا دیکھی ہے۔ ایک لمحے کے لیے دل میں سوچا کہ کہیں یہ نوجوان فلرٹ تو نہیں کر رہا۔ اور پھر خود ہی اپنے آپ کو تسلی دی، چلیںضرورت پڑی تو آزما لیں گے ، مگر اب دل بے قابو اور دماغ لہرارہا تھا۔ مزید قربت کی تمنا بے طرح سے انگڑائی لے رہی تھی۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا اس کی طرف کھینچاؤ بڑھ رہا تھا۔ قریب سے قریب تر ہونے کی خواہش اضطراب بڑھا رہی تھی۔ میں اس میں سمٹ جاﺅں بس یہی میری ایک تمنا تھی۔میں نے خود کو ٹٹولا کہ اس میں محبت کا وہ پہلو کتناہے جو اس عمر کے لڑکے اور لڑکیوں کی دوستی میں ہوتا ہے۔ یہ محبت نہیں تھی بلکہ یہ محبت سے بہت آگے کا کچھ تھا۔ کیا تھا....؟ میں اسے کوئی بھی نام دینے سے قاصرتھی۔ اس کو پالینے کا، اس کے ساتھ رہنے کا،سدا کے لیے اس کی ہو جانے کا،بس ایک جذبہ تھایا یوں کہیں کہ جنوں تھا۔ کتنا جنو؟۔ اتنا کہ میں پُجاری ہوتی اور وہ دیوتاہوتا۔ بے چینی، بے قراری، بے تابی ایسی کہ زندگی میں پہلی بار ایسی کیفیت ہو رہی تھی۔ اس دوران مجھے ایک لمحے کے لیے بھی اس کے لڑکا اور اپنے لڑکی ہونے کا گماں نہ ہوا۔ بس دو انسان ہیں اور ایک دوسرے کے لیے بنے ہیں، ہمیشہ ساتھ ساتھ رہنے کے لیے۔ حالانکہ دو انسان خواہ دو مرد ہوں یا دو عورتیں اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ مرد اور عورت شادی کر کے ایک ساتھ رہتے ہیں مگر اُس وقت دل و دماغ کے کسی نہاں خانے میں بھی ایسی کسی سوچ کا وجود نہیں تھا۔ یہ ساری سوچ ایک مووی کی طرح دماغ کے سامنے گھوم رہی تھی۔ اسی دوران میسنجر کے نوٹیفیکیشن کی ٹون نے اپنی طرف توجہ دلائی۔
 ”آپ مجھے دیوی لگتی ہیں اور مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں پُجاری ہوں“۔
 اس میسج نے دل کے تلاطم میں مزید ہیجان برپا کر دیا۔
”میں بھی ایسا ہی سوچ رہی ہوں۔ آپ دیوتا لگتے ہیں“۔ 
”چلیں چینج کر لیں، ڈنر سے قبل لابی میں ملتے ہیں“۔

couples, relationship and romance - image #2378449 on Favim.com
 ڈنر 8بجے ہونا تھا۔ اس میں ابھی دو گھنٹے تھے۔ میں نے باتھ لیااورکپڑے بدلے۔ اس سے ملنے کا خصوصی اہتمام نہیں کیا مگر ملنے کی ایسی تڑپ تھی کہ ابھی آٹھ بج جائیں۔ کمرے میں انتظار مشکل ہورہا تھا۔سوچا لابی میں جا کر انتظار کرتی ہوں۔ اس وقت سات بجے تھے۔میں لابی کی طرف نکل آئی۔ ایک ٹیبل خالی تھی جس کے اطراف میں دو کرسیاں لگی تھیں۔ میں نے ایک کرسی کو بیٹھنے کے لیے تھوڑا پیچھے کیا تو اسی وقت سامنے والی کرسی بھی اسی طرح پیچھے کھینچی گئی۔ کرسی کھینچے والا وہی تھا۔ اس سے بھی یقینا کمرے میں انتظار نہیں ہوا تھا۔ ہم نے ڈنر سے15منٹ پہلے آنا تھا۔ اب ایک گھنٹہ قبل ایک دوسرے کے سامنے موجود تھے۔ اس وقت ہمارے درمیان زبان سے باتیں کم آنکھوں سے زیادہ ہوئیں۔ فرطِ جذبات سے کبھی میرے اور کبھی اس کے چہرے پر آنسوقطرہ آب کی صورت میںلکیر بناتے ہوئے گردن سے بھی نیچے ڈھلک جاتا۔
 ”وقت کم ہے، باتیں بہت کرنی ہیں۔ آپ سے مل کر جو کیفیت ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا“۔ میں نے اسے وقت کی کمی کا خصوصی طور احساس دلایا۔ ”میری بھی حالت ایسی ہی ہے۔ کئی دوستیاں ہوئیں، حدیں عبور کر لیں مگر آپ کے ساتھ جو تعلق پیداہوا عجیب سا ہے۔ سہانا بھی اور بے لالچ اور کسی بھی منفعت سے ماورا بھی ہے۔ میںنے خود کو ٹٹولا دل کے نہاں خانے میں وہ جذبات کہیں موجود نہیں جو اس عمر میں جنس مخالف کی قربت میں ہوسکتے ہیں۔“

couple sleeping together | Tumblr | Cute couples cuddling, Cute  relationship goals, Couple sleeping
 ”آپ نے تو میرے دل کی بات چوری کر کے کہہ دی“۔ میں نے اس کی گفتگو میں مخل ہوتے ہوئے کہا۔ اس پر ہم دونوں شرما سے گئے ۔”وقت کم ضرور ہے مگر اتنا بھی کم نہیں۔ کبھی انسان کی، قدرت بن کہے سن لیتی ہے۔ میرے کمرے کے باقی دونوں ساتھی، رات کے لیے قریبی قصبے میں چلے گئے ہیں۔ آپ رات کو آجائیں جی بھر کر باتیں کریں گے“۔
اس نے یہ کہا تو میں جھٹ سے بولی”یہ تو مرادوں والی رات ہوگی، قربتوں والی رات“۔ 
اس پر وہ مسکرایا تو اس کے دانت مجھے موتیوں کی طرح چمکتے ہوئے لگے۔ دل کیا اس کے مسکراتے لبوں پر اپنے ہونٹ رکھ دوں۔اس کے ساتھ میں جس طرح خود کو ملوث پاتی تھی، اس کے ساتھ رات گزارنے میں کوئی حرج نہیں تھا۔ وہ جذبات ہی نہیں تھے جوایک لڑکی کے لڑکے کے لیے ہوسکتے ہیں۔رات کو پھر ملنا تھا اس لئے لابی سے ہم اپنے اپنے کمرے میں آگئے۔
رات دس بجے مجھے اس کے کمرے میں جانا تھا۔ وہاں کب تک رُکناتھا، یہ وہاں کے حالات اور ملاقات پر منحصر تھا۔میں اپنی سوچوں اور خیالوں میں کبھی اس کے کندھے سے کندھا لگا کر کھڑی تھی،کبھی اس کا سر میرے کندھے پر ٹِکا محسوس ہوتا،کبھی اس کے گلے مل رہی تھی۔ اس دوران میرے وہی جذبات ہوں گے جوتین چارسالہ ننے منے بچے کے لیے ہوتے ہیں۔ میں ایسے بچے کو اٹھاتی ہوں، گلے لگاتی ہوں۔ کِس کرتی ہوں یہ خالص بے عیب اور بے لالچ چاہت ہے۔
جدید دور میں نوجوان کس طرح زندگی گزارتے ہیں کسی کو اعتراض نہیں ہوتا۔ ہوٹل میں بھی کوئی کیاکرتا ہے کوئی نوٹس نہیں لیتا۔ سب اپنی اپنی زندگی میں مگن رہتے ہیں۔ رات دس بجے میں اپنی نائٹی میں اس کے کمرے کی طرف چل دی ۔ملاقات کا کوئی اشتیاق سا اشتیاق تھا۔ 

New free stock photo of afeição amor ao ar livre | Romantic couple images,  Love couple photo, Romantic photos couples
”سر جی ! آپ سن رہے ہیں ناں“۔
 اس لڑکی نے اپنی داستان حسرت و مروت سناتے ہوئے مجھے مخاطب کیا تو میں نے کسی بھی تاثر کے بغیر ہاںمیں سر کو جنبش دیتے ہوئے کہا۔”کیوں نہیںِ“ میرے ہاں میں سر ہلانے پر اس نے اپنی کہانی کو آگے بڑھایا۔
 ”مقرر کردہ وقت پر میں اس کے کمرے کے سامنے تھی۔ دروازہ آدھا کھلا تھا۔ اسے یہ تو یقین تھا کہ میں بروقت آجاؤں گی۔ میری پرچھائی دیکھ کر اور قدموں کی چاپ سن کر وہ دروازے پر آگیا۔ نیم وا دروازہ اس نے تھوڑا سا مزید کھول دیا۔ میں اندر داخل ہوئی۔ دو قدم آگے بڑھائے اس دوران اس نے دروازہ بند کر دیا وہ اب مڑ کے میرے سامنے کھڑا تھا میں بھی دو قدم چلنے کے بعدپیچھے کی طرف مڑ گئی تھی۔ ہمارے درمیان دو قدم کا فاصلہ ہی تھا۔ایک قدم وہ آگے آیا ایک قدم میں نے اٹھایا اور پھر ایک ساتھ ہمارے بازو خود کار طریقے سے اوپر اٹھے۔ پہل کس نے کی بازو اٹھانے میں؟ میں نے نہیں کی۔ اس نے بھی نہیں کی۔ دوسرے الفاظ میں اس نے بھی کی اور میں نے بھی۔بازو اٹھے ایک دوسرے سے حمائل ہوگئے۔ میری گال اس کی گال سے مس ہوئی اورکان کے ساتھ لگ گئی۔ اس کی گال بھی ایسے ہی میری گال سے ملائمت کیساتھ رگڑ کھاتے ہوئے گزرگئی۔ میرا دائیں اور اس کا بائیں والا رُخسارتھا۔ہم اب ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح لپٹے تھے کہ درمیاں میں ہوا تو کیا روشنی کا گزر ممکن نہیں تھا“۔
”سر جی! ہماری کیا کیفیت ہوگی اس وقت؟“۔ اس نے داستان سناتے سناتے ایک بار پھر مجھے مخاطب کیا۔
”آگے بولیں میں سن رہا ہوں“۔میں نے مختصر سا جواب دیا۔

Feeling on hands of passion couple having sex. two Lovers couple Holding  hands under blanket white sheets on the bed with lust and making love.  concept having sexual romantic moments. Stock Photo |
” ہم ایک دوسرے میں پیوست تھے۔ اس نے ٹراﺅزرشرٹ پہنا ہوا تھا۔ یہ شاید اس کی شب خوابی کا لباس تھا۔ہم جس طرح ایک دوسرے سے لپٹے ہوئے تھے اس طرح لپٹنے سے جذبات میں ہیجان پیدا ہو جاتا ہے ۔ سانس تیز اور دل کی دھڑکن میں طوفان آجاتا ہے لیکن اس رات اور اس وقت ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ ہم ساحل وساگر اور افق پر زمین و آسمان کے ملنے کی طرح ملے ہوئے تھے اور ساکت حالت میں کھڑے تھے۔ خواہش تھی کہ وقت تھم جائے۔ اگر وقت چلتا رہے تو بھی قیامت تک ہم ایسے ہی کھڑے رہیں ، آج ہی منزل دیکھی۔ آج ہی منزل کو پالیا ۔ ہم جیسا کوئی خوش نصیب نہیں ہو سکتا۔ اس کی سانسوں میں تغیر آیا نہ میرے دل کی دھڑکن میں کوئی تبدّل ہوا۔ہم ایسے ہی کھڑے رہے۔ ایک لمحے کے لیے بھی مجھے محسوس نہیں ہوا کہ اس کے دل میں کوئی میل ہے۔ میں نے شروع میں کہا کہ اگر وہ فلرٹ کر رہا ہے تو وقت آنے پر آزمالوں گی ۔ ایک آزمائش تو اب ہو رہی تھی۔ اتفاق سے ہمارے قد بھی عمروں کی طرح برابر تھے۔ میرے پاؤں کا ایک پنجا اس کے پاؤں پر اور اس کے پاؤں کا دوسرا پنجا میرے پاؤں پر تھا ۔ سینے سے سینا لگا ہوا ، پیٹ سے پیٹ ملا ہوا تھا۔ میں نے ایک لمحے کو اپناچہرہ پیچھے کیا اور اس کے گال پر ایک کس کر دی۔ اس نے میرے ماتھے پر یہ عمل دُہرایا۔ اس کے بعد ہم ایک بار پھر مزید اپنے بازوو¿ں کی گرفت مضبوط کرتے ہوئے پہلے کی طرح کھڑے تھے۔ اسی دوران ہلکی سی دروازے پر دستک ہوئی۔ جتنی آہستگی سے دستک ہوئی تھی ہم اس سے بھی زیادہ آہستگی سے ایک دوسرے سے الگ ہوئے۔ ہمارے دل صاف تھے۔ اس لیے نہ اسے کوئی گھبراہٹ ہوئی نہ مجھے ہوئی۔ دروازہ کھولا تو ویٹر چائے لیے کھڑا تھا۔ اسے اس نے ساڑھے دس بجے چائے لانے کا وقت دیا تھا۔ گویا ہم آدھا گھنٹہ دنیا و مافیہا سے بے خبر ایک دوسرے میں کھوئے رہے۔ پھر ہم نے ایک دوسرے کے سامنے بیٹھ کر چائے پی۔ 

41 Cute Couple Gifts 2022 - Best Gift Ideas for Couples
ہم دوستی کی اس سطح پر پہنچ گئے تھے جہاں ایک خود کو دوسرے کے کلی طور پر حوالے کر دیاکردیتا ہے۔ جو زبانی نہیں کہا جاتا لیکن سمجھ لیا جاتا ہے۔ تنہائی میں دو بدن ملے مگر کچھ غلط نہیں کیا۔ کچھ غلط نہیں ہوا۔ اخلاص تھا، جذبات میں شفافیت تھی۔ جو پانا چاہا مل گیا اس کو روندا تو نہیں جا سکتاتھا ۔رات گئے تک باتیں ہوتی رہیں۔ کبھی قہقہے بلند ہوتے ، کبھی سسکیاں ابھرتیں اور کبھی آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی۔ کبھی اُٹھ کر گلے مل لیتے ۔ 
بیڈ پر آلتی پالتی مار کر بیٹھے ہم دونوں کسی اورہی دنیا سے آئے لگتے تھے۔باتیں کرتے ہوئے اس نے میرا سر اپنی گود میں رکھنے کے لیے اپنا ہاتھ میرے کندھے کی طرف بڑھایا تو میں خود کار طریقے سے اس کاہاتھ اپنے کندھے پر آنے سے پہلے اس کی منشا اور اپنی طلب کے مطابق اس کی گود میں اپنا سر رکھ چکی تھی۔ باتیں کرتے ہوئے اس کی آنکھ سے ایک قطرہ میرے چہرے پر گرا ،اس نے اپنے جذبات اور محبت کی عکاسی کرتا وہ قطرہ میرے چہرے سے صاف کرنے کے لیے ٹشو اٹھایا ۔ میں نے منع کر دیا کہ اسے خود ہی جدھر جانا ہے جانے دویا خشک ہو لینے دو۔ یہ وقت کیف و مستی کا وقت تھا۔ ہم ایک دوسرے کی روح میں سمائے ہوئے تھے۔ کسی قدر بے پردگی کے باوجود ایک سچائی ، شفافیت اور پاکیزگی کا پردہ تھا جو ہم دونوں کے درمیان حائل تھا۔ہمارے دل صاف تھے۔ جذبات ہر قسم کی آلائش سے پاک تھے۔ باتیں کرتے میں کئی مرتبہ فرطِ جذبات میں اٹھ بیٹھتی اس کے گلے سے لگتی۔ اور پھر اس کی گود میں سر رکھ کر لیٹ جاتی۔ سانسوں میں تیزی آتی نہ جذبات میں کوئی ہیجان ۔ یہ تعلق محبت سے بھی بڑھ کر تھا۔جس میں حد عبور کرنے کی سوچ ہی جاگزیں نہیں ہوتی۔

Why Make up sex is the best | Pulse Nigeria
 یہ تو بس پہلی ملاقات کی کہانی تھی سر جی!۔ اگلی ملاقات میں حد میں رہتے ہوئے حدیں بھی عبور ہوگئیں مگر اس پر کوئی پشیمانی نہیں ہے ۔ میں حد عبور ہونے کے قبل کی کیفیت سے ہمکنار ہونے کی متمنی تھی۔ کیونکہ جوکچھ میں نے اس وقت اس کے ساتھ وقت گزارتے ہوئے محسوس کیا وہ جذبات آج سے پہلے کبھی نہیں تھے۔ وہ میری آنکھوں سے دل میں اترا اور پھر روح تک سرایت کر گیا اور حیرانگی کی بات یہ ہے کہ جذبات اور احساسات یک طرفہ نہیں تھے۔
وہ میری مکمل توجہ پانے کے لیے بولتے بولتے مجھے مخاطب کرتی رہی۔
رات کے پچھلے پہر بادل نخواستہ میں نے واپس اپنے کمرے میں جانے کا عقد کیا۔اس کا کمرہ نمبر 368تین سو اڑسٹھ میرے کمرے کا نمبر 308تھا۔ بیڈ سے اتر کر ہم ایک بار پھر کھڑے ہو گئے۔”میں چھوڑ آتا ہوں“۔اس نے ساتھ جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔
”ٹھیک ہے آ جائیں۔ لیکن چھوڑنے کے لیے نہیں مجھے میرے کمرے تک اپنی محبت کے دامن میں لے کر پہنچانے کے لیے۔کیونکہ روح میں سماجانے کے بعد کسی کو چھوڑنا ممکن نہیں ہوتا“۔ میں نے مسکراتے ہوئے فلسفیانہ انداز میں کہا ۔اس کے لبوں پر بھی مسکراہٹ چھا گئی۔ جس نے چند لمحوں کے لیے مجھے ایک بار پھر اسے اپنی آغوش میں لینے پر مجبور کیا۔ الوداعی ملاپ کے بعد ہم وہاںسے نکلے اور میرے کمرے تک آئے۔دروازہ کھول کر میں نے اندر آنے سے قبل اسے خدا حافظ کہا۔ اس نے جواب پژمردگی سے دیا۔ میرا دل بھی پسیج رہا تھا مگر اب الگ تو ہونا تھا۔ اس کاریڈور میں کوئی نہیں تھا۔ میں ایک بار پھر اس سے لپٹ گئی ۔ پہلے کی طرح میں نے اس کی گال پر اور اُس نے میرے ماتھے کو بوسہ دیا۔ یہ عمل تین چار سیکنڈ کا تھا۔پھر وہ واپس ہو لیا اور میں کمرے میں داخل ہو گئی۔ لائٹ آن کی ، دیکھا کہ کمرہ خالی ہے۔ کہاں گئیں یہ دونوں؟ میں نے خود سے سوال کیا۔ اس کے ساتھ ہی موبائل کھولا تو نمل کا میسج تھا، ہم شاید صبح واپس آئیں۔ ان میں سے ایک لڑکی کے عزیز اسی شہر میں رہتے تھے۔ 
اسی دوران اس کا بھی شب بخیر کا میسج آ چکا تھا۔ میں نے اسے بتایا کہ ہمارے کمرے میں کوئی نہیں ہے اور ساتھ ہی شب بخیر کہہ دیا۔ 
”آپ کو اکیلے ڈر تو نہیں لگتا“۔اس نے فکر مندی سے پوچھا۔

453 Couple Down Road Walking Stock Photos - Free & Royalty-Free Stock  Photos from Dreamstime
”نہیں کوئی بات نہیں۔ آپ سو جائیں ، صبح ملتے ہیں“۔
میں نے اسے ایک بار پھر شب بخیر کہا۔ نائٹی پہلے ہی پہنی ہوئی تھی، بیڈ پر دراز ہو گئی۔ مگر نیند کہاں آنی تھی۔ اسی کے خیالوں میں گم، اسی میں سما جانے کی دُھن، مزید قریب ہونے کی جستجو۔ دل کر رہا تھا اس کے پاس چلی جاؤں یا اسے اپنے پاس بلا لوں، آنکھ بند کر کے سونے کی کوشش کی تھوڑی سی غنودگی آئی مگر نیند دور ہی رہی....آخر کار جب رہا نہ گیا تو اُٹھی اور اس کے کمرے کی طرف چل دی۔ آدھے راستے میں تھی کہ وہ بھی سامنے سے آتا دکھائی دیا۔
”میں نے سوچا آپ ڈر رہی ہوں گی۔ اس لیے آپ کو لینے آ رہا تھا“۔ یہ کہتے ہوئے اس نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا اور اپنے کمرے کی جانب چل پڑا۔ جو چند لمحے ہم نے اپنے اپنے کمروں میں ایک دوسرے کے بغیر گزارے تھے وہ صدیوں پر بھاری تھے۔کمرے میں داخل ہوتے ہی ہم نے ایک دوسرے کو اس طرح دیکھا جیسے بچھڑ کر صدیوں بعد مل رہے ہوں۔ ان چند لمحوں نے مدتوں کی جدائی کا گماں دیا۔ دونوں کی آنکھیں نم ہوئیں اورہم ایک بار پھر ایک دوسرے میںپیوست ہو گئے۔ 
”میں چاہتی ہوں میں آپ کے اندر تحلیل ہو جاؤں “۔میں نے رُندھی آواز میں کہا۔
”میں سوچتا ہوں ہم دو بدن کیوں ہیںہم حلول کیوں نہیں ہو جاتے“۔ اس نے بھی بھیگے لہجے میں کہا۔
کچھ پل کے لیے ہم دونوں جذباتی ہو گئے اور کتنی ہی دیر ایک دوسرے کی بانہوں میں لہراتے رہے، جھولتے رہے۔ وقت گزر رہا تھا لیکن ایک خالی پن تھا جو ہمیں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہونے دے رہا تھا۔ میں نے جو اس کے گرد مضبوطی سے بازوﺅں کا ہالہ بنایا ہوا تھا اپنی گرفت کم کی تو اس نے آہستہ سے مجھے خود سے الگ کیا۔ میرے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور چہرے پر موجود ہر نقش پر اپنے ہونٹوں کا لمس چھوڑنے لگا۔ میں نے آنکھیں بند کر کے اس کی خوشبو کو اپنے اندر سمانے دیا۔ چہرے پر اپنی محبت کے نشان ثبت کرنے کے بعد اس نے میری گردن سے بال پیچھے کیے اور اپنا چہرے میری گردن پر جھکا دیا۔ مجھے یہ سب خواب لگ رہا تھا۔ 

Free stock photo of couple, kissing, kissing forehead - Stock Image -  Everypixel
”کیا ہم ایک دوسرے میں سما سکتے ہیں۔ ایک بدن ہو سکتے ہیں۔روحوں کا ملن ہوسکتا ہے؟؟؟جیسے دریا سمندر میں گر کر دریا نہیں رہتا سمندر بن جاتا ہے۔میں اس طرح آپ میں سمٹ جانا چاہتی ہوں “۔ میں نے اس میں سمٹ جانے کی بے پایاں خواہش کا اظہارکیا۔میں بھی آپ کو اپنے اندراتار لینے اور آپ کے اندر اُتر جانے کی حسرت لئے ہوئے ہوں۔ہم ایک دوسرے میں سما سکتے ہیں؟؟۔“اس نے بھی اپنی محبت میں ڈوبے ہوئے جذبات کو لبوں پر لاتے ہوئے کہااور اس کے ساتھ ہی دھیرے سے مجھے اپنے قریب ترکر لیا۔
 ”پھر دیر کیسی؟“۔ میں نے بیقراری سے سمندر بننے کی خواہش کا اظہار کیا۔اس وقت، ایک لمحے کے لیے میرا دل زور سے دھڑکا۔ اس میں سما جانے کی خواہش کیا پوری ہو سکے گی؟اوراگر پوری ہوگی تو کیسے ہوگی؟؟ دماغ نے سوال کیا لیکن دل کی دھڑکن تیز تھی۔ جواب نہیں آیا۔ہم اس وقت ایک دوسرے سے لپٹے ہوئے تھے۔ایک قالب ہونے کی تمنا یکساں تھی۔ 
٭٭٭٭٭

I need a deep hold hug for a moment | Hugging couple, Cute couples hugging,  Passionate couples
اس نے مجھے خود سے الگ کیا اور اشارے سے اپنی قمیض کے بٹن کھولنے کو کہا میں نے ایسا ہی کیا۔اس دوران اس نے لائٹیں بند کردیں اور پھر ہم ایک دوسرے کا لباس بننے کی پوزیشن میں آ گئے۔اب ہمارالباس اندھیراتھا۔ہمارے درمیان اندھیرے کا پردہ تھا۔اب کے گلے ملے تو میں نے خود کو فضاءمیں محوِ پرواز محسوس کیا۔لگ رہا تھا ہم ہوا بن گئے ہیں۔ہمارے جسد موم میں ڈھل گئے ہیں۔پھرہم غیر محسوس طریقے سے پاﺅں اُٹھائے بِنا ہوا میں تیرتے ہوئے بستر پر آگئے۔میں نے واضح طور پر لمس محسوس کیا۔اسی دوران میرے دماغ میں خیال کوندا کہ کہیں اس نے یہ سب کچھ اسی لیے تو نہیں کیا۔ یہی آزمائش کا وقت تھا۔ میں نے اس سے پوچھا” آپ میرے لیے کس حد تک جا سکتے ہیں؟“۔ 
”آپ پہلے بتائیں“۔ اس نے سوال کر دیا۔
”آپ کی خاطر جان دے سکتی ہوں“۔ میں نے جذبات کی رو سے نکلتے ہوئے کہا۔
” میں ہزار جانیں آپ پر نچھاور کر دوں“۔اس نے کہا۔

790 Passion ideas | cute couples, cute relationships, couple goals
”ٹھیک ہے پھر پیچھے ہٹ جائیں“۔وہ دھیرے سے بلا تاَمّل پیچھے ہٹ گیا۔لائٹ جلائی اور کپڑے پہن لیے۔ وہ آزمائش پر پورا اترا تھا۔اس کی بے غرض محبت میں کوئی شبہ نہیں تھا۔اس حد تک آگے بڑھ جانے کے بعد واپسی ممکن نہیں ہوتی۔ میں بھی اُٹھ بیٹھی۔لباس زیب تن کیااور واپسی کیلئے کہا مگر ایک بدن بن جانے کا جنون جوں کا توں تھا۔اس نے واپس جانے کی اجازت دے دی۔ میں اس کے کمرے سے نکلنے لگی تو وہ بھی ساتھ تھا لیکن میں نے اسے منع کر دیا اور کہا میں خود چلی جاو¿ں گی۔ اس نے اصرار نہیں کیا مگر جانے سے پہلے ہم ایک بار پھر الوداعی طور پر ملے۔ پھرکچھ جذباتی پن ہمارے درمیان دَر آیا۔وہاں سے جانے کا نہ میرا ارادہ تھا اور نہ اس کا دل تھا، مجھے وہاں سے بھیجنے کا۔مگر میں اب وہاں سے ہرصورت واپسی کا سوچ چکی تھی۔ دروازہ کھولنے لگی ۔ایک ہاتھ ہینڈل پر رکھا دوسرا اس کی طرف ملنے کیلئے بڑھایا۔وہ بھی بے تابی سے ملااور میرا ہینڈل پر رکھا ہاتھ بھی اس کے گرد حمائل ہوگیا۔ پھر ہم ہوا میں تیرتے اور لہراتے ہوئے مخملیں بستر پر آگئے۔اس کے بعد ....۔ہم دنیا مافہیا سے بے نیاز ایک دوسرے میں پیوست ہو گئے۔ہمارے درمیان وہ ہوا جو شادی کے بعد جوڑے کے مابین ابتدائی طور پر ہوتا ہے۔جی ہاں ابتدائی طور پر بالکل شروع میں۔میری اس کے گرد گرفت مضبوط تھی،اس کی بھی۔یہ گرفت ہمیں ساکت رکھے ہوئے تھی۔نہ وہ ہلا نہ میں نے کوئی جنبش کی۔وقفے وقفے سے ایک دوسرے کی آنکھوں میں جھانک لیتے تھے۔ مجھے لگ رہا تھا میں پگھل کر اس کے اندر سما رہی ہوں۔ ہمیں حوس اور جسم کی پیاس نہیںتھی لیکن ایک جنون تھا جو ہمیں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہونے دے رہا تھا۔ اس لمحے ہمیں بس ایک دوسرے میں سما جانے ، تحلیل ہو جانے ، ایک روح اور ایک بدن میں ڈھل جانے کا جنون تھا۔ لگ رہا تھا ہم ذرہ ذرہ ہو کربکھر رہے ہیں اور پھر سمٹ رہے ہیں ۔ایک ہو رہے ہیں ۔ ہم جتنابھی ایک دوسرے میں سمانے کی کوشش کرتے اتنی ہی ہماری پیاس میں اضافہ ہوتا جاتا۔ لذت ہمارا مطمحِ نظر ہرگز نہیں تھا۔جو تھا وہ ایک دوسرے میں سما جانے کا جنون تھا۔ وہ پورا ہورہا تھا۔ وقت کوپر لگ گئے تھے یاوقت تھم گیا تھا۔ پرندوں کے چہچہانے نے دن کے آغاز کا پیغام دیا۔
باتھ کے بعد میں اپنے کمرے 308 میں چلی گئی۔ تڑپ تو اب بھی موجود تھی مگر پہلے جیسی انتہا کو پہنچی ہوئی بے تابی میں ذرا ساٹھہراﺅ تھا۔
٭٭٭

Video Conference Hall - Centre for Continuing Education (CCE) | NIT  Jalandhar
 اگلے روز ورکشاپ میں ملے۔ آنکھیں ایک دوسرے کے چہرے کا محور بنی رہیں۔ لنچ اور ٹی بریک ایک ساتھ کیا۔
”میری لاکٹ چین آپ کے کمرے میں رہ گئی تھی۔ آج لے لوں گا“۔اس نے چائے کا سپ لیتے ہوئے کہا۔
میں چپس اٹھا کر منہ میں رکھنے لگی تھی کہ اس کی بات سن کر حیرت زدہ رہ گئی۔ وہ میرے کمرے کے دروازے تک آیا تھا۔اندر نہیں گیا اور پھر لاکٹ چین جو اس کے گلے میں ہوتی تھی میرے کمرے میں کیسے رہ گئی۔
”کیا کہہ رہے ہیں!۔ آپ کی چین میرے کمرے میں؟آپ کب میرے کمرے میں آئے؟“۔میں نے حیرانگی سے کھلی رہ جانے والی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”کیا ہوا؟آپ تو بھول گئیں ۔ رات کو میرے کمرے سے جانے کے بعد آپ نے ہی فون کیا تھا کہ لڑکیاں کمرے میں نہیں ہیں ۔ فون سننے کے بعد میں آپ کے کمرے کی طرف آ رہا تھا کہ راستے میں آپ ملیں اور اپنے کمرے میں لے گئیں“۔ اس کا یہ کہنا حیران کن سے بھی کچھ زیادہ تھا۔
”ہیں؟“۔ میں نے ایک بار پھر تعجب سے کہا۔
”آپ کے کمرے میں جانے کے بعد ہم ایک بار پھر دنیا و مافیہاسے بے خبر ہو گئے تھے۔ ہم پھر سے ایک ہو گئے۔ ایسے جیسے پانی میں نمک مل جاتا ہے۔دودھ میں شہد گُھل جاتا ہے۔ چنبیلی اور گلاب کی خوشبو آپس میں مل جاتی ہے۔اس کے بعد میں نے باتھ لیا تھا۔ لاکٹ چین اس دوران آپ ہی کے باتھ روم کے ٹاول رینک پر لٹکا دی تھی۔ وہ ٹاول بھی آپ ہی نے اپنا پرسنل نکال کر دیا تھا“۔
اس کی بات سن کر میں حیرتوں کے سمندر میں ڈوب رہی تھی۔ وہ رات تو میں اس کے ساتھ اسی کے کمرہ نمبر 368 میں تھی۔ پھر یہ کیا ماجرا ہے؟۔ اس کی بات سن کر میں خاموش ہو گئی۔ حیرانگی میرے چہرے سے عیاں تھی۔

DirectHome
”کیا ہوا؟۔ آپ کچھ پریشان لگ رہی ہیں۔ میں نے کچھ غلط کہہ دیا ؟“۔اس نے میرے اضطراب کو بھانپتے ہوئے کہا۔
 ”نہیں کچھ نہیں، بس تھوڑی سی کنفیوژن ہو رہی تھی ۔ مجھے لگا کہ میں آپ کے کمرے میں گئی تھی اور ہم وہیں رات بھر رہے تھے۔ میں آپ ہی کے کمرے کے اٹیچ باتھ روم میں فریش ہو کر آئی تھی“۔میں نے اس کے کمرے میں اس کے ساتھ رہنے کا یقین ہونے کے باوجود کنفیوژن کا لفظ استعمال کیا تھا۔
”اتفاق سے آپ کے باتھ میں میری انگوٹھی اور بریسلیٹ رہ گئی تھی۔آپ ایک بار اپنے باتھ کو بھی دیکھ لینا“۔اس نے میری بات کو شاید احمقانہ سمجھا اور صرف ہاں میں تھوڑا سا سر ہلا دیا۔
میرے کمرے میں اس کے لاکٹ چین کے موجودہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھامگر وہ جس وثوق سے کہہ رہا تھا میں اس پر حیران کیا ششدر تھی۔ اگر واقعی اس کا لاکٹ میرے کمرے میں موجود ہوا تو؟ایک لمحے کو یہ سوچ آئی اور اسے میں نے سر سے جھٹک دیا۔ 
شام کوسیشن کے بعد دو گھنٹے ریسٹ کے لیے تھے اس کے بعد ڈنر تھا۔ ان دو گھنٹوں میں ورکشاپ کے شرکاءعموماً ہوٹل کے لانز میں ، کیفے ٹیریا میں،شاپنگ سنٹرمیں یا اپنی دلچسپی کے مشاغل میں مصروف ہو جاتے، کوئی قریبی مارکیٹ چلے جاتے اور کچھ فریش ہونے کے لیے کمروں میں چلے جاتے۔
”چلیں لاکٹ لے آئیں“۔ اس نے ہال سے نکلتے ہوئے کہا۔ میں خاموشی سے اس کے ساتھ چل پڑی۔دل میں مسکرا بھی رہی تھی اور کبھی افسوس کی کیفیت بھی محسوس ہوتی کہ وہاں لاکٹ نہیں ہوگا۔ وہ اس کے اپنے کمرے سے ہی ملے گا۔
”آج کہیں باہر جانے کا ارادہ ہے“۔ میں نے لاکٹ کی سوچ کو پرے کرتے ہوئے پوچھا۔
”جیسے آپ چاہیں اور کہیں“۔اس نے گیند میری کورٹ میں پھینک دی۔ اتنی دیرمیں ہم کمرے تک آگئے۔ میںنے دروازہ کھولا۔ وہ پورے یقین کے ساتھ باتھ کی جانب چل پڑا۔ میں متذبذب تھی۔ میں بھی اس کے ساتھ باتھ تک گئی۔ سامنے تو لاکٹ نظر نہیں آرہا تھا۔ تولیہ البتہ رینک پر موجود تھا۔ وہ میراپرسنل ٹاول تھا۔ اس کے بقول میں نے ہی اسے دیا تھا۔ مگر میں یاد ہی کرتی رہ گئی کہ کب دیا تھا۔ میں نے آگے بڑھ کر پہلے ٹاول کو چھوا ۔ یقین آگیا کہ یہ ٹاول ہی تھا، بلیو کلر کا اور میرا ہی تھا۔ اس ٹاول کو اتارا تو نیچے لاکٹ لٹک رہا تھا جس میں اس کی تصویر فٹ تھی۔میں نے حیرتوں کی قلزم میں موجزن ہو کر لاکٹ کو اتارا اوراس کے حوالے کیا۔ اس نے اسے دونوں ہاتھوں میں تھام لیا۔اگلے لمحے یہ کہتے ہوئے میرے گلے میں ڈال دیا۔”اب یہ آپ کا ہوا“۔
”صرف یہی میرا ہوا؟“۔ میں نے ہنس کر کہا تو اس نے مجھے زور سے گلے لگاکر ماتھے پر کس کرتے ہوئے کہا۔”میں بھی پورے کا پورا آپ کا ہوں“۔ میں نے اس کے گلے پر کس کی۔ تھوڑی دیر میں الگ ہوئے، میں جلدی سے فریش ہوگئی۔ چینج کیا اورہم اس کے کمرے کی طرف چلے گئے۔کمرے میں جا کر میں صوفے پر بیٹھ گئی وہ فریش ہونے باتھ روم چلا گیا۔ اب حیران ہونے کی باری اس کی تھی۔ وہ اِدھر باتھ روم گیا اور اُدھر اچانک سے باہر آگیا۔ چہرے پر ایسی حیرت اور ہوائیاں جیسے کوئی غیر مرئی یا مافوق الفطرت مخلوق دیکھ لی ہو۔ اس کے ہاتھ میں میری انگوٹھی اور بریسلیٹ تھی۔

200402-A-UY332-368
”یہ کیا، یہ کیا.... ک ک کیا؟“۔ وہ ہکلاتے ہوئے بول رہا تھا۔
اب ہم دونوں ایک طرح حیرت زدہ تھے۔ میری سمجھ میں بھی کچھ نہیں آ رہا تھا۔ ہمارے درمیان جو کچھ ہوا وہ حقیقت تھی جس کا دونوں کو اعتراف تھا مگر وہ سب ہوا کہاں؟ اس کے خیال میں میرے کمرے میں.... جس کا ثبوت میرے کمرے سے اس کے لاکٹ کا ملنا اور بلیو ٹاول کا موجود ہونا ....اور میرے خیال میں اس کے اسی کمرے میں کمرہ نمبر 368 میںہم ایک بدن بن گئے تھے ....جس میں اب موجود تھے اور اس کا ثبوت اس کے ہاتھ میں میری انگوٹھی اور بریسلیٹ کا ہونا تھا۔ اپنے اپنے خیال میں ہم پُر یقین تھے۔“
”سر جی ایسا کیسے ممکن ہے؟“۔ اس نے مجھے بھی اپنی حیرت میں شریک سمجھتے ہوئے پوچھا۔مگر میں حیران نہیں تھا۔
اگلی صبح ہمیں پارک میں ملنا تھا۔میں ناشتے کی غرض سے لابی میں گئی تو وہ بھی وہیں موجود تھا۔ ایک بار پھر ہماری نظر برابر ہوئی تو ہم اردگرد سے بےگانہ ہو گئے۔ ناشتہ کی طلب نہ اس کی باقی رہی تھی نہ میری۔ ہم ایک ساتھ چلتے ہوٹل کے قریب موجود پارک میں آگئے۔ موسم میں خنکی تھی اور بارش کسی بھی وقت شروع ہو سکتی تھی۔ محبت میں ایک دوسرے میں سمانے کی خواہش اب بھی ناتمام تھی۔ ہم اب بھی دو الگ بدن ہی تھے۔ نہ جانے ایسا کیا تھا جو ہمیں نا چاہتے ہوئے بھی ایک دوسرے کی طرف کھینچتا تھا۔ 
”جیسے جیسے جانے کا وقت قریب آرہا ہے۔ میرا دل گھبرا رہا ہے“۔میں نے بڑی آزردگی سے کہا ۔
”اور میرا دل حلق میں آ کر دھڑکنے لگتا ہے“۔ ہمیشہ کی طرح الفاظ کے ہیر پھیر کے ساتھ جذبات ایک سے تھے۔
ہماری جذباتی گفتگو سن کر موسم نے انگرائی لی اور آسمان سے بارش کے ننھے ننھے قطرے ہمیں بھگونے لگے۔ اس سے پہلے کہ ہم پارک سے نکلتے ہم پورے گیلے ہو گئے۔ وہ مجھے اور
 میں اس کے ساتھ بارش کے قطروں کی چھیڑ خانی دیکھنے لگے۔ رات والے جذبات ایک بار پھر مچلنے لگے۔ ایک دوسرے کے اتنے قریب ہونے کی خواہش ہونے لگی کہ ہمارے درمیان سے ہوا کا گزر بھی نہ ہو۔اس نے مجھے اپنے دامن میں سمیٹا اور ہوٹل میں اپنے کمرے میں لے گیا۔ کیونکہ اس کے ساتھی ابھی تک واپس نہیں آئے تھے اور بارش کی وجہ سے ان کی آج بھی واپسی ممکن نہیں تھی۔ اس نے مجھے اپنے کپڑے دیئے لیکن میں نے ایک بار پھر اس کی بانہوں میںسمٹنے کی خواہش کی۔ شاید وہ میرے ارادے کو جان گیا تھا، تبھی اس نے اس مضبوطی سے میرے گرد بازو حمائل کئے کہ میں اس کی خوشبو کواپنے اندر اترتے محسوس کرنے لگی۔ وہی لمس وہی میں اور وہی اس کا اور میرا جنوں۔ اس کے ہونٹ میرے جسم سے چھیڑ خانی کر رہے تھے اور میں مٹی کے ڈھیر کی طرح اس کی بانہوں میں ڈھلتی جا رہی تھی۔ دل میں تمنا تھی کہ کاش یہ وقت تھم جائے اور ہم ہمیشہ اسی طرح ایک دوسرے میں پیوست رہیں۔ لیکن ہر خواہش پوری ہونے والی بھی نہیں ہوتی۔ وقت اپنی رفتار سے چل رہا تھا اور ہم دو بدن اور ایک جان ہونے کی ہر ممکن کوشش کر رہے تھے۔ پیاس تھی کہ بجھنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ اس سے الگ ہونا مشکل سے مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ اس کے وجود نے مجھے ہر چیز سے بے خبر کر دیا تھا۔ یہاں تک کہ مجھے اپنے کپڑوں کی بھی ہوش نہیں رہی تھی۔ اس کا وجود میرے جسم کا لباس تھا ۔مَیں اس کی آغوش مِیں خود کو محفوظ سمجھنے لگی تھی۔ اس کی حالت بھی مجھ سے الگ نہیں تھی۔ جنون کوئی بھی ہو، حوس کا نام و نشان نہیں تھا۔ ایک دوسرے میں سما جانے کی تمنا تھی لیکن ایک دوسرے کو استعمال کرنے کی خواہش نہیں تھی۔ اپنائیت کی یہ ایک الگ ہی حدتھی جس نے ہمیں حدود میں رہنے بھی نہیں دیا تھا اور حوس کا طلبگار بھی نہیں بنایا تھا۔ پہلی نظر کی محبت کے بارے میں تو سنا تھالیکن پہلی نظر میں کسی کی طلب کے جنوں کو پہلی بار دیکھا تھا۔“ 

Pin on Weddings- Candle & Quill Photography- Charlotte, NC Photographer
وہ مجھے اپنا مسئلہ بتا کر حل کی سبیل نکلوانے آئی تھی، میں اس کی ایک ایک بات توجہ سے سن رہا تھا۔ انہی باتوں میں اس کا حل تھا۔اس نے چند ثانیے توقف کیا اور بات آگے بڑھائی۔
”ہمارے جسم الگ۔ ہمارے شہر الگ۔ ہمارے گھر الگ تھے لیکن ہمارے جذبات، ہماری محبت اور ہمارا جنون ایک جیسا تھا۔سمجھ نہیں آتی تھی اس جذباتیت کو کیا نام دیں۔ پھر وقت کا قہرٹوٹا۔ موسم کے اتار چڑھاو¿ جاری تھے۔ ہمیں بتایا گیا کہ آج رات ہمیں واپس اپنے شہروں کو جانا ہے۔ میں نے جانے سے پہلے تک کا سارا وقت اس کی آغوش میں گزارا۔ جانے کا وقت ہوا تو الوداعی کلمات کہتے ہوئے ہم دونوں ایک دوسرے کے گلے لگ کے زاروقطاررو دیئے۔ ایک بار پھر ہوا کا گزر ہمارے درمیان سے ناممکن ہو گیا۔ اس نے میرے چہرے پر بے شمار بوسے دیئے اور میں بھی اس موقع پر وہی عمل دُہرا رہی تھی۔ اس کے ہونٹوں کا لمس آج بھی مجھے اپنے جسم پر اپنے چہرے پر محسوس ہوتا ہے۔ آج بھی مجھے اس کی آغوش میں ساری زندگی گزارنے کی آس اورپیاس ہے۔ آج بھی میرا وہ جنون ادھورا ہے جس میں ہم ایک دوسرے میں ایسے سما جائیں کہ کوئی ہمیں پھر الگ نہ کر سکے۔ کبھی بھی نہیں۔وہ اپنی دانست میں بولتی جا رہی تھی۔
اس کے بقول وہ میرے پاس خصوصی طور پر اس لیے آئی کہ میری بدھ مت، مسلم، عیسائیت اور ہندو مذہب کی روحانیت پر یکساں دسترس تھی۔ یہ معلومات میرے کلائنٹس کی طرف سے انٹرنیٹ پر دی گئی تھیں۔جب مرد کلائنٹ عورت کنسلٹنٹ کے پاس یا عورت مرد ماہر کے پاس جاتی ہے تو ان میں (جنس کا امتیاز)جینڈر ڈس کریمینیشن ختم ہو جاتی ہے۔ کلائنٹ کچھ بھی کنسلٹنٹ یعنی ماہر یا معالج سے مخفی نہیں رکھتا۔ وہ جو کچھ بتا رہی تھی اسے بولڈنیس نہیں کہا جا سکتابلکہ وہ ریکوائرمنٹ تھی۔ ورنہ وہ مسئلہ ہی نہ سمجھا پاتی تو حل کیسے نکلتا۔
عمر میں یہ لڑکی مجھ سے زیادہ چھوٹی نہیں تھی۔اس کی عمر تیس سے چند ماہ زیادہ جبکہ میری تین سال اس سے زیادہ تھی، مجھے پریکٹس کرتے پندرہ سال ہوگئے تھے۔وہ میرے پاس ایک مسئلہ لے کر آئی تھی۔ میری سمبالئم میں ڈگری ہے۔ اس میں روحانیت، نفسیات اور انسانی جبلت و شعور کے بارے میں بھی پڑھایا جاتا ہے۔ میں اس کی باتیں سن کر اپنے ذہن میں تجزیہ کرنے کے ساتھ ساتھ نتیجہ بھی اخذ کر رہا تھا۔ اس کی طرف سے مجھے سر جی احترام سے کہا جاتا ۔اس کے علاوہ بھی وہ کوئی القاب یا الفاظ استعمال کر سکتی تھی۔ اس سے یہ میری پہلی ملاقات تھی۔ اس کے بعد مزید کا بھی امکان تھا۔
”آگے بتاؤ“۔ وہ میرے ردِ عمل کی منتظر تھی جو اس کی توقع کے مطابق نہیں تھا۔

What My First Appointment With a Psychiatrist Was Really Like
”جس دن ہم لوگ الگ ہوئے اس کے بعد سے اس کے ساتھ رابطہ ٹوٹ گیا۔ اُس کا فیس بُک بند تھا، موبائل بھی آن نہیں ملتا تھا۔ میں ایک بار پھر اس شہر کے اسی ہوٹل میں گئی۔ اس کے شہر کا وہاں سے پتہ چل گیا اور یہ بھی کہ وہ کس ادار ے میں تھا۔ چھ ماہ بیت چکے تھے۔ میں نے اس کی کمپنی کے نمبر پر فون کیا۔ اس کے بارے میں پوچھا تو بتایا گیا کہ واپسی پر پہلے ہی روز کوسٹر کو حادثہ پیش آیا جس میں وہ شدید زخمی ہوا۔ دو ماہ کومہ میں رہا، کوما سے نکلا تو یاداشت کھو چکا تھا۔ میں یہ سب سن کر لرز رہی تھی ۔ آنکھیں برس رہی تھیں، پھر میرے کانوں نے سنا کہ وہ اب بالکل ٹھیک ہے، آفس بھی آ رہا ہے۔ کچھ دن ہوئے اس کی شادی بھی ہوگئی ہے۔شادی کا سن کر تو میں سکتے میں آگئی۔ ہمارے درمیان بہت باتیں ہوئی تھیں۔ بڑے عہدو پیماں ہوئے تھے۔ مگر سچی بات تھی ہمارے درمیان کبھی شادی کی بات نہیں ہوئی تھی اور میرے خیال میں یہ بات کرنے کی بھی نہیں تھی۔ ایسی چاہت اور جنونیت میں یہ اَن کہا عہد ہوتا ہے، وعدہ اور پیماں ہوتا ہے۔ اس نے کیسے شادی کر لی ! یہی بات کئی راتیں اور دن سوچتی رہی۔ دل کو تسلی دینے کی کوشش کی کہ کوئی مجبوری ہوگی۔ لیکن سکون کہاں ملتا تھا۔پھر ایک روز میں نے اس سے ملنے کا فیصلہ کر لیا۔میرے اندر اس کیلئے کہیں بھی کوئی منفی جذبہ نہیں تھا۔ کوئی اشتعال اور غصہ نہیں تھا۔اس کی چاہت پر ایک لمحے کو بھی شک و شبہ نہیں ہوا تھا۔ میں صرف اس کی مجبوری جاننا چاہتی تھی۔ 
٭٭٭٭٭
اس کا آفس جدید طرز کا تھا جس میں ایک گیسٹ روم بنا ہوا تھا۔ میں وہاں بیٹھی اس کا انتظار کرنے لگی۔ اسے انٹرکام پر اطلاع دی گئی۔ میرے پاس اس کا نیا فون نمبر بھی آگیا تھا مگرمیں اس سے ملاقات کرنا چاہتی تھی۔چند منٹوں بعد وہ گیسٹ روم میں داخل ہوا اور مجھے دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا۔مجھے حیرت سے دیکھتے اس کی آنکھوں میں نمی اترنے لگی اور اگلے ہی لمحے ہم پہلے روز اس کے کمرے کمرہ نمبر 368 میں ملنے کی طرح ایک دوسرے کے گلے لگ گئے۔ وہی لمس ، وہی جذبات، وہی احساسات جو پہلے روز کی قربت کے دوران تھے۔ اتفاق سے گیسٹ روم میں کوئی نہیں تھا۔ سسکیوں اور آہوں کے درمیان کچھ وقت ایک دوسرے کے سینے سے لگنے کے بعد الگ ہوئے اور آمنے سامنے کی کرسیوں پربیٹھ گئے۔میں تو گویا پہلے روز کی طرح آج بھی ہپنا ٹائز ہو چکی تھی۔ وہ آنکھوں کے ذریعے میرے دل میں میرے روئیں روئیں میں،رَگ رگ میں اتر رہا تھا۔ میں سمجھتی تھی کہ اس کی بھی یہی کیفیت تھی۔ باتیں شروع ہوئیں ، کوئی گلہ شکوہ میری زباں پر نہیں آیا۔ 
”مجبوری کیا تھی اتنی جلدی شادی کی؟“۔ میں نے روہانسی آواز میں پوچھا۔
”میری شادی ہو گئی تو کیا اس کا مطلب ہے کہ آپ کی جگہ کسی اور نے لے لی؟“۔ اس نے مجھ سے سوال کیا۔ جواب میں دو موٹے آنسو میری آنکھوں سے گالوں پر آگئے۔ میں نے دیکھا ایسا ہی طوفان اس کی آنکھوں سے بھی اُمڈاتھا۔

Two years on, Sikh Marriage Act still awaits implementation
” جس سے شادی ہوئی وہ میری کزن ہے۔ اسے انرپِنا ہو گیا تھا جس کا فوری علاج شادی ہے ورنہ انسان بچ نہیں سکتا۔وہ بھی ملازمت کرتی تھی۔ گھر سے دور دوسرے شہر میں۔ جب چھٹی پہ گھر آئی تو انرپِنا میں مبتلا ہو گئی۔ وہ پوری طرح حواس میں نہیں تھی۔ والدین اور خاندان نے میرے ساتھ اس لڑکی کی شادی کا فیصلہ کیا۔ ہماری شادی ہوگئی۔ لیکن حیرانگی کی بات یہ ہے کہ اس روز کے بعد سے ہمارے مابین ایک بار بھی ازدواجی تعلق قائم نہیں ہوا اور وہ اس روز کے بعد سے معجزاتی طور پرٹھیک ہے۔ازدواجی تعلق کی اسے کوئی خواہش تھی نہ مجھے ہے۔ مگر ہم شادی شدہ ہیں۔ ایک ہی گھر میں ایک ہی کمرے میں رہتے ہیں۔ وہ میرے ساتھ بڑے احترام اور محبت سے پیش آتی ہے، میں بھی اس کی عزت کرتا ہوں۔ اس کی ہر آسائش کا خیال رکھتا ہوں۔ مگر کبھی کبھی وہ ایسی کھو جاتی ہے کہ دیر تک خلاءمیں گھورتی رہتی ہے کبھی کبھی تو اس کی آنکھیں بھی بھیگ جاتی ہیں۔ شادی کے بعد سے وہ ملازمت پر نہیں گئی “۔ 
مجھے اس کی مجبوری کا علم ہوگیا تھا۔ اس لیے زیادہ دیر وہاں رکنا مجھے مناسب نہیں لگا۔ میں جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی۔ ایک بار پھر ہم پہلے کی طرح ملے اور میں واپس اپنے شہر آگئی۔“
”سر جی! اب میں اس پوائنٹ پر آتی ہوں کہ میں آپ کے پاس کیوں آئی ہوں“۔ اس نے اپنی کہانی کے اس موڑ پر پہنچ کر کہا۔
”سن رہا ہوں“۔ میںنے مختصر جواب دیا۔
”اب گھر والے میری شادی کر رہے ہیں۔گھر والوں نے شادی کا نام لیا تو میں نے خود کشی کا فیصلہ کر لیا مگر پھرسوچاایک بار آپ سے کنسلٹ کرلوں مگر میںخود کشی اس وجہ سے نہیں کر رہی کہ مجھے میری چاہت اور محبت نہیں ملی۔اس کی وجہ کچھ اور ہے“۔ یہ کہہ کر اس نے توقف کرتے ہوئے میری طرف دیکھا۔
میں خاموش رہا۔ کیونکہ ہمارے شعبے میں کلائنٹ کو زیادہ سے زیادہ بولنے دیا جاتا ہے۔ حالانکہ مجھ پر اس کی ناقص وجہ واضح ہو چکی تھی۔اس کے باوجود میں اس کے منہ سے وجہ جاننا چاہتا تھا۔وہ سر جھکا کر بولی:۔”بد نامی کا ڈر ہے۔ جس خاندان میں میری شادی ہو رہی ہے وہاں لڑکی کا ٹیسٹ کروایا جاتا ہے، آیا وہ واقعی کنواری ہے اور میں....“۔
”تم کنواری ہو“۔ میں نے اس کی پہلی بار بات کاٹتے ہوئے کہا۔یقیناًوہ کہنا چاہتی تھی کہ وہ کنواری نہیں ہے۔ 
وہ اس طرح میرے بولنے پر ششدر رہ گئی۔ ”سر جی! میں نے پوری کہانی سنا دی۔ ہوٹل کے کمرے میں ہمارے درمیان "تقریباً"وہ سب کچھ ہو گیا جو ایک جوڑے مرد اور عورت کے درمیان شادی کے بعد ہوتا ہے۔ پھر میں کیسے کنواری ہوں؟“۔

aesthetic | Aesthetic photography people, Aesthetic picture people, Anxiety  girl
”تقریباً سے آپکا کیا مطلب ہے“۔یہ سوال وہاں موجود میری سیکرٹری نے غیر ضروری طور پر کیاجو کسی طرح بھی اس کی پیشہ ورانہ ذمہ داری میں نہیں آتا تھامگر وہ اس کی کہانی میں اس حد تک انوالّو ہوگئی تھی کہ یہ سوال داغ دیا۔اپنی غلطی کا احساس ہونے پر اس نے فوری طور پر سوری بھی کہہ دیا۔
”تقریباً میں نے اس لئے کہا کہ ہم یک قالب ہوگئے تھے کافی دیر ہم اس پوزیشن میں رہے کہ ............“میری سیکرٹری کے سوال میں اس لڑکی نے تفصیلی وضاحت پیش کی۔ 
 ”جاﺅ ٹیسٹ کرواو¿ ۔ شادی کے بعد میرے پاس آنا“۔میں نے اسے تحکمانہ اور پورے وثوق کیساتھ کہا۔وہ اضطراب اور یقین و بے یقینی کے عالم میں کوئی بھی سوال کئے بنا اُٹھ کر چلی گئی۔ اس نے میرے کہنے کو شاید بابے کی دعا کی طرح لیا ہو۔
٭٭٭
 چند ماہ بعد وہ پھر میرے سامنے کھڑی تھی۔ میں کرسی پر بیٹھا تھا۔ میرے سامنے میز نہیں ہوتی ، اس نے جھک کر میرے قدموں کو چھوا۔ دائیں ہاتھ کو چوما،اور وہیں قدموں میں بیٹھ گئی۔ وہ یہ سب فرطِ جذبات میں کر رہی تھی۔ تھوڑا سنبھلی تو جذباتیت میں آکر کہنے لگی۔ 
” ٹیسٹ رزلٹ وہی آیا جیسا آپ نے کہا تھا۔ اس ٹیسٹ نے مجھے کنواری ظاہر کیا ۔ایک ماہ قبل میری شادی ہوگئی ۔ مگر جس کے ساتھ طے تھے اس کے ساتھ نہیں ہوئی۔ جس کے ساتھ ہوئی اس کے ساتھ میرا ازدواجی تعلق بھی کسی مرد کے ساتھ عملی طور پرپہلی بار قائم ہوا تھا، جس کی ہر طرح کی گواہی موجود ہے۔وہ دردِ آشفتہ، بیڈ شیٹ کا رنگین ہونا.... مگر یہ سب کیسے ہو سکتا ہے؟۔اس کمرے کی حقیقت کو کیسے غیر حقیقی مانا جا سکتا ہے؟۔ آپ نے کوئی کرامت کر دی، کوئی دعا دے دی،کوئی چمتکار تھا، کوئی کرشمہ تھا“۔وہ جذبات میں بولے جا رہی تھی۔
”آپ اور آپ کے دوست کے درمیان وہ تعلق بنا ہی نہیں تھا۔ تم دوبارہ اس کے کمرے میں گئی نہ وہ تمہارے کمرے میں آیا۔ یہ آپ دو لوگوں کے ایک دوسرے کے لیے جنون کا لاشعور میں بسا ہوا ایک تصور تھا۔ جو خواب سے بھی اگلی کیفیت ہوتی ہے۔ جس میں انسان جو سوچ رہا ہوتا ہے جو کرنا چاہتا ہے وہ اسے عمل کی صورت میں ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب جنون کی کیفیت میںانسان کی سوچ کا دھارا ایک ہی سمت میںبہتا چلا جاتا ہے۔ کھانے پینے کا ہوش نہ آرام اورنیندکی طلب۔ بس ایک دوسرے کو پالینے کی تڑپ ایک دوسرے میں سما جانے کی جستجو،دنیا و مافیہا سے بے تعلقی کسی بھی ضرورت سے بے رغبتی۔چند روز مزید آپ لوگ اکٹھے رہتے تو عملی طور پر ایسا ممکن تھا۔آپ لوگ جس پارک میں گئے وہ بھی خیالِ جنوں تھا۔“
میں اس لڑکی کو یہ سب بتا رہا تھاپھر پوچھا۔”پارک میں بتاﺅ کیا نمایاںچیز تھی؟“
”یاد نہیں آرہا بس پارک تھی جیسی پارک ہوتی ہے۔“ اس نے دماغ پر زور ڈالتے ہوئے کہا۔

29 ideias de Chuva | fotos de casais, fotos, dançando na chuva
”ہاں واقعی وہ خواب کی طرح کی پارک تھی۔مجھے بس اپنا اور اس کا وجود ہی یا دآرہا ہے اور کچھ نہیں۔“ یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگئی۔
 ”تمہارا اگلا سوال ہو سکتا ہے کہ تمہارے کمرے میںاس کا لاکٹ کیسے آیا اور ٹاول کیسے وہاں موجود تھااور دوسری جانب آپ کی انگوٹھی اور بریسلیٹ اس کے کمرے کے باتھ میں کیسے چلی گئی ۔ اس کا جواب آئندہ کبھی آنا ہوا تو بتا دینا۔ سوچوگی، غور کرو گی تو جواب مل جائے گا۔ ورنہ میرے پاس تو جواب ہے ، ملن سے پہلے کے لمحے سے لے کر ملاپ تک کی ہر بات کا“۔
”سر جی! ایک اور انہونی ہوئی“۔ اس لڑکی نے فرش سے اُٹھ کر کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ 
”شادی پر میں نے اس لڑکے کو بھی بلایا تھا۔ میرے دل میں اس کی چاہت کے لیے رتی برابر بھی کمی نہیں آئی۔ وہ آج بھی روئیں روئیں میں بسا ہوا تھا۔ یہ دعوت لڑکے والوں کی طرف سے تھی۔ اتفاق در اتفاق، اسی شہر اور اسی ہوٹل میں دعوت تھی۔رات وہیں ہمارا اور میرے دُلہا کے خاندان کے لوگوں کا قیام تھا۔اتفاق سے اس لڑکے کے لیے وہی کمرہ بک ہوا جس میں ہم پہلی بار قوسین سے بھی قریب ہو گئے تھے۔ اس کی بیوی بھی اس کے ساتھ تھی۔ میری اپنے شوہر کے ساتھ قربت کی یہ پہلی رات تھی جس را ت کا آغاز ہورہا تھا۔ہماری پروگرام کے تحت کمرہ نمبر 552 میں شب بسری۔اس کمرے کے علاوہ باقی سارے کمرے تیسری منزل پر بُک کئے گئے تھے۔ مگر اس رات کے آغاز سے قبل ہی سویرا ہو گیا۔ صبح نو نوید سحرو تشکر اور صد شادمانی ہزار خوشیاں لے کر آئی۔ جو ہوا وہ سب نا قابلِ یقین، ناقابلِ فراموش ہے۔ میری زندگی کا حسین ترین لمحہ جس نے ساری کُلفتیں تمام کر دیں۔ میری ادھوری شخصیت کی تکمیل ہو گئی۔ یہ لمحہ میری زندگی کی طمانیت کی معراجِ اولیٰ کا مرحلہ بن گیا۔ آپ میری باڈی لینگوئج میں در آنے والی جذباتیت کو تو یقینا نوٹ کر رہے ہیں“۔ 
یہ جانتے ہوئے بھی کہ میں اسے بغور سن رہا ہوںاس نے پھر بھی میری پوری توجہ حاصل کرنے کے لیے مجھے مخاطب کیا۔
”آگے بتائیں“۔ اب پہلی بار مجھے اس کی کہانی میں تجسس کی جھلک دِکھی تھی۔
سرِ شام میں اپنے شوہر کو بتا کر اَرس کے کمرے میں گئی تھی۔ اس نے دروازہ کھولا اور ہم دونوں ایک بار پھر چند لمحوں کے لیے بے خود ہو کر لپٹ گئے۔ الگ ہوئے تو میں صوفے پر بیٹھنے سے پہلے اس کی بیوی سے ملی۔ اس کے ماتھے پر کوئی شکن نہیں تھی۔ وہ بڑے تپاک سے ملی۔ بڑی خوش تھی۔ارس نے اسے سب کچھ بتا دیاتھا۔ اس خوبصورت لڑکی کی آواز میں لجاجت تھی۔ اس کی خوبصورتی میں مجھے اداسی نمایاں نظر آئی۔ اس کی خوش طبعی میں بھی مجھے تصنع محسوس ہوا۔ 

Vastu for Newly Married Couple: Vastu Remedies for Happy Married Life
رات نو بجے گرینڈ ہال میں شادی کی حتمی تقریب کا اہتمام ہونا تھا۔اس کے بعد مہمان رخصت اور میاں بیوی حجلہ عروسی میں چلے جاتے ہیں۔ میں ان سے تقریب میں ملنے کا کہہ کر واپس آگئی۔
تقریب کا آغاز ہوا۔ زرق برق لباس میں مہمان موجود تھے۔روشنیوں سے جگمگاتے ہال میں موسیقی چل رہی تھی۔ کھانا لگ چکا تھا۔ میرے چہرے پر وہ شادمانی عبث تھی جو ایسے موقع پر دلہن کا خاصہ ہوتا ہے۔ چہک تو دلہا بھی نہیں رہا تھا۔ میں تو حالات سے سمجھوتہ کر کے اس بندھن میں منسلک ہورہی تھی۔ میرا پارٹنر وہ کیوں زیادہ جذباتی نہیں لگ رہا تھا، اسی کو معلوم ہوگا یا پھر وہ اظہار زیادہ نمایاں نہ کرنا چاہتا ہو۔ 
مہمان آ رہے تھے۔ ہم سٹیج پر بیٹھے تھے۔ کچھ مہمان سیلفی بنا رہے تھے۔ اسی دوران وہ بھی اپنی دلہن کے ساتھ کب ہال میں داخل ہوا اس کا مجھے اندازہ نہیں۔ میری نظریں کب سے اسے ڈھونڈ رہی تھیں اور پھرنظروں کی تلاش ختم ہوئی، مجھے وہ سامنے بیٹھے لوگوں کے درمیان نظر آیا۔ اس کی دلہن بھی اس کے ساتھ تھی۔ان کے درمیان ابھی تک ازدواجی تعلق قائم نہیں ہوا تھا۔ یہ اس نے مجھے ملاقات کے دوران بتایا تھا۔ میری آنکھیں اسی پر جمی تھیں ، وہ بھی مجھے ہی دیکھ رہا تھا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جسے وہاں ہمارے علاوہ کوئی نہ ہو۔ لیکن جلد ہی میں نے اپنے حواس پر قابو پایا۔ اس دوران اس کی بیوی اپنے شوہر کو کچھ بھی بتائے بغیر اپنی سیٹ سے اٹھ کرآہستہ آہستہ چلتے ہوئے سٹیج کی طرف آئی اور سٹیج کے بالکل سامنے آ کر رک گئی۔ میں حیران تھی کہ اپنے شوہر کے بغیر وہ سٹیج پر کیوں آ رہی تھی۔ وہ سٹیج سے چار قدم کے فاصلے پر ہمارے سامنے کھڑی تھی۔ میرے شوہرنے اس کی طرف دیکھا توچونکا اورفوراً اُٹھ کھڑا ہوا۔ وہ سٹیج سے اترا اس کے سامنے چار قدم کے فاصلے پر رکا اور اس کے بعد وہ دونوں دو دو قدم آگے بڑھے اور ایک دوسرے کے قوسین سے بھی زیادہ قریب ہو گئے۔ پیوست، باہم پیوست۔ اب پورے ہال کی نظریں ان کی طرف تھیں مگر وہ اس ہجوم کی موجودگی سے بے نیاز گلے مل رہے تھے۔ وہ بھی ہماری طرح صدیوں کے پیاسے لگ رہے تھے۔یہ کسی فلم کا منظر لگ رہا تھا لیکن حقیقی تھا۔ 

In India, a Female Qazi solemnized the Nikkah
ہم آزاد معاشرے کے لوگ ہیں۔ کچھ روایات کی پاسداری ضرورکی جاتی ہے۔لیکن کسی پر فیصلے ٹھونسے نہیں جاتے۔ مرضی سے زندگی گزارنے کو بنیادی حق سمجھا جاتا ہے۔
وہیں عقدہ کھلا کہ یہ ایک ہی شہرمیں ایک ہی کمپنی کے ملازم تھے۔ ایک دوسرے کے بہت قریب ہو گئے ۔ لڑکی اپنے شہر والدین کے پاس گئی تو کسی ذہنی الجھن کے باعث الجھ کر رہ گئی۔ اسے ہوش آیا، خود کو سنبھالا تو اس کی شادی ہو چکی تھی۔لڑکے کو جب اس کی حالت اور اس کی شادی کا پتہ چلا تو کافی دیر ہو چکی تھی۔اس لیے اس نے رابطہ نہ کیا۔ لیکن اب جب قدرت نے انہیں ایک دوسرے کے سامنے لا کھڑا کیا تھا تو وہ خود پر قابو نہ رکھ سکے۔فرطِ جذبات میں ایک دوسرے کے گلے لگے اور زاروقطار رو دیئے۔مجھ سمیت ہال میں موجود کئی لوگ اس داستانِ محبت کو نامکمل دیکھ کر اشک بار تھے۔ میں نے روتی آنکھوں سے اسے دیکھا تو وہ بھی رو رہا تھا۔کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ہو کیا رہا ہے۔ زندگی کے جس مقام ہر ہم چاروں اپنی اپنی محبت کے سامنے کھڑے تھے وہاں اور بھی کئی لوگ موجود تھے۔ 

Nikkah registration process in Punjab to be digitalised - Latest Breaking  News | Top Stories |Sports |Politics |Weather
اب ہوا کرشمہ سر جی!.... جس نے ہم چاروں کی زندگی بدل دی۔، قدرت نے جن محبت کے پجاریوں کو الگ کیا تھا ان کو ملانے کا وقت ہوا چاہتا تھا۔ ہم چاروں نے اسی سٹیج پر اپنی اپنی داستانِ محبت پورے ہال کو سنائی اور ساتھ ہی یہ بھی اعلان کیا کہ ہم اپنی اپنی محبت کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ زندگی اور محبت ایک ہی بار ملتی ہے۔ ہال مکمل طور پر سناٹے میں غرق تھا۔ ہماری داستان سننے کے بعد بھی کسی کے پاس نہ کوئی سوال بچا تھا اور نہ ہمیں ایک دوسرے سے الگ کرنے کا جواز پیدا ہوتا تھا۔ہمارے والدین سمیت سب نے ہمیں ہماری محبت سمیت قبول کر لیا۔ 
سرجی کیا کوئی اس مقام پر آنے کے بعد سوچ سکتا تھا کہ محبوب کو حاصل کر لیا جائے گا؟۔ نہیں ناں.... مجھے بھی یقین نہیں آیا۔ لیکن وہ رات حقیقت میں مرادوں والی رات تھی کہ جس نے محبت کرنے والوں کو ملا دیا تھا۔یہ رت جگا میں نے اپنے محبوب کیساتھ کمرہ نمبر368 میں سیلیبریٹ کیا۔(نامکمل)
٭....٭....٭

It's Your Wedding, Make it Grand! - Wedding Affair

متعلقہ خبریں