مرید اور مرشد

2020 ,فروری 2



مرید کا مرشد سے ایسا تعلق ہونا چاہیے جیسا بچے کا ماں سے ہوتا ہے اگر بچہ ماں کے دامن سے چمٹا ہوا ہو اور کوئی اسے اپنی طرف کھینچے تو وہ اور مضبوطی سے پکڑتا ہے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتا ہے حتیٰ کہ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود اگر دامن چھوٹ جانے کا خطرہ محسوس کرتا ہے تو نگاہِ امید ماں کی طرف اُٹھا دیتا ہے بے بسی سے بھری نگاہیں ماں کو اس کی فریادسنائیں گی پھر بھی کچھ نہ بنے تو آنکھوں سے آنسو ٹپکیں گے پھر رونا پھر گڑ گڑانا تب کیا ماں اس کے ہاتھ سے اپنا دامن جانے دیگی ؟ ہرگز نہیں بلکہ اسے اپنے سینے سے لگالے گی بزرگ فرماتے ہیں محبت تب تک کامل نہیں ہوتی جب تک مرشد کا نام سن کر مزہ نہ آنے لگے دل پر کیفیت نہ طاری ہونے لگے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سیدی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم سے عرض کیا یاسیدی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم مجھے تین چیزیں محبوب ہیں پہلی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کو دیکھنا دوسری آپ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کے پاس بیٹھ جانا تیسری اپنا مال و جان اور سب کچھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم پر فدا کرنا اسی پر کسی بزرگ نے انداز محبتِ خدا کی میزان محبتِ شیخ کو قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ

مرید محبتِ حق جل و علیٰ براندازہ ءِ پیر خود حاصل می شود
یعنی مرید کو حق تعالیٰ کی محبت اپنے پیر مرشد کی محبت کی مقدار سے ہی حاصل ہوتی ہے سالک کو جتنی اپنے شیخ سے محبت ہے اسی قدر خدا سے محبت ہے منازل کا طع کرنا مرشد کی توجہ اور تصرف سے وابستہ ہے اس کے بغیر کچھ نہیں بنتا اور حضرت مولانا جلال الدین رومی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا بے ادب محروم گشت از فضل رب کوئی کتنا ہی علامہ کیون نہ ہو لیکن اگر اس کو اہل اللہ کی صحبت میں رہنا نصیب نہ ہو تو وہ اللہ والا نہیں بن سکتا حضرت مولانا جلال الدین رومی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ

خاصانِ خدا خدا نہ باشند
لیکن از خدا جدا نہ باشند

یعنی خاصانِ خدا خدا نہیں ہوتے لیکن اس سے جدا بھی نہیں ہوتے مرید جس قدر آداب کرنے والا ہوگا اسی قدر مرشد سے فیضیاب ہوگا ادب کے بغیر کامل مرشد کی صحبت و مجلس سے نہ فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اور نہ ہی گوہر مقصود حاصل ہوتا ہے

متعلقہ خبریں