ڈی جی نیب قومی مجرموں کی وکالت کرنے لگے،کرپٹ مافیا سے سودے بازی کو قانونی قراردیدیا

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع دسمبر 22, 2016 | 17:51 شام

اسلام آباد(مانیٹرنگ)قومی احتساب بیورو کے ڈی جی آپریشنز ظاہر شاہ کا کہنا ہے کہ کرپٹ افراد سے پلی بارگین کو غلط نہ سمجھا جائے کیونکہ پلی بارگین کرنے والا شخص کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتا۔اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران ڈی جی آپریشنز نیب ظاہر شاہ نے کہا کہ پلی بارگین کے تحت مشتاق رئیسانی سے نیب کی تاریخ کی سب سے بڑی وصولی ہوگی۔ مشتاق رئیسانی نے 80 کروڑ کے نقد اثاثے اور 3 کلو 300 گرام سے زائد سونے کے علاوہ کوئٹہ میں 6 جب کہ کراچی میں واقع 7 املاک نیب کے حوالے کی ہیں جن کی مجموعی مالیت 2 ارب روپے سے زیادہ بنتی ہے۔

ڈی جی آپریشنز نے کہا کہ سابق صوبائی مشیر خزانہ خالد لانگو کے فرنٹ مین سہیل مجید شاہ نے اعتراف کیا ہے کہ وہ صرف ان کا سہولت کار تھا۔ اس نے بھی کم و بیش ارب روپے قومی خزانے میں جمع کرانے کی حامی بھری ہے۔

ظاہر شاہ نے کہا کہ ملزمان پر 40 ارب نہیں بلکہ 6 ارب روپے کی کرپشن کا الزام ہے۔ مالی سال برائے 2015-2014 کے لیے وزارتِ خزانہ کو ادا کیے جانے والے فنڈز کی مالیت 6 ارب روپے تھی، جس میں سے 3 ارب روپے ملزمان سے ضبط کیے جاچکے ہیں۔ 6 ارب روپے میں سے 40 ارب کی کرپشن نہیں ہوسکتی لیکن خورد برد کی گئی رقم میں سے 3 ارب روپے وصول کرلیے گئے ہیں۔ڈی جی نیب آپریشنز کا کہنا تھا کہ پلی بارگین کو عام طور پر غلط معنوں میں دیکھا جاتا ہے حالانکہ پلی بارگین کرنے والا شخص کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتا اور ماضی میں جس کسی نے ایسا کیا ان کو ملک چھوڑ کر جانا پڑا۔ اس میں مجرم کو صرف جیل نہیں جانا پڑتا لیکن باقی تمام سزائیں برقرار رہتی ہیں جس میں 10 برس کے لیے سرکاری و سیاسی عہدے اور ملازمت کے لیے نااہلی کے علاوہ وہ کبھی اسٹیٹ بینک کے زیر کنٹرول کسی بینک سے قرضہ بھی حاصل نہیں کرسکتا۔

واضح رہے کہ مشتاق رئیسانی کے گھر سے 73 کروڑ روپے مالیت کی ملکی و غیر ملکی کرنسی ملی تھی تاہم گزشتہ روز نیب نے مشتاق احمد رئیسانی اور صوبائی مشیر خزانہ خالد لانگو کے فرنٹ مین سہیل مجید شاہ کی اربوں روپے کے کرپشن اسکینڈل میں پلی بارگین کی درخواست منظور کی تھی۔