نواز شریف سیاست میں عہدے کیسے تقسیم ہوتے ہیں،ایک چشم کشا رپورٹ
تحریر: فضل حسین اعوان
| شائع اپریل 04, 2017 | 17:00 شام
لاہور(شفق خصوصی رپورٹ)صدر فاروق احمد خان لغاری کا تذکرہ ہوا تو ضیاء شاہد مہران سکینڈل کے حوالے سے اپنی یادداشتیں دہرانے لگے۔ جناب نے بلا کا حافظہ پایا ہے۔ واقعہ اس طرح بیان کر رہے تھے جیسے یہ آج انکے سامنے وقوع پذیر ہو رہا ہے اور وہ اس پر کمنٹری کر رہے ہیں۔ منفرد طرزِ تحریر کی طرح ضیاء صاحب کا طرزِ سخن لاثانی اور عمومی گفتگو پُر معانی ہوتی ہے۔ 1994ء میں بینظیر بھٹو کے دوسرے دور میں فاروق لغاری صدر، میاں نواز شریف اپوزیشن لیڈر تھے۔ ان دنوں فاروق لغاری کے ڈیرہ غازی خان میں زرعی فارم کی فروخت کے چرچے تھے جو ان دنوں مبینہ طورپر دو کروڑ میں فروخت ہوا۔ نواز شریف میڈیا کو یہ دکھانا چاہتے تھے کہ فاروق لغاری نے انکے بقول کوڑیوں کی زمین کروڑوں میں بیچی۔ ضیاء شاہد کہتے ہیں ان زمینوں پر لے جانے کیلئے مجھ سے رابطہ کیا گیا تو میں نے پوچھا میاں صاحب جائینگے؟ ذوالفقار خان کھوسہ کا جواب تھا۔ میں انکی حفاظت کی گارنٹی نہیں دے سکتا۔ میںنے کہا پھر ہم بھی نہیں جاتے، رپورٹر بھیج دینگے۔ اس پر نواز شریف نے خود بھی جانے کا فیصلہ کیا۔ ہم جس وین میں تھے اس میں اعجاز الحق، شیخ رشید، چودھری شجاعت، مشاہد حسین اور کچھ دیگر بھی تھے۔ ملتان سے آگے گئے تو اچانک گاڑیاں رک گئیں۔کلاشنکوف اُٹھائے انعام اللہ نیازی، بھاگے بھاگے آئے۔ کہا فائرنگ ہو گئی، اسکے ساتھ ہی کہا میاں صاحب یہ لوگ میری لاش سے گزر کر ہی آپ تک پہنچیں گے۔ اسکے ساتھ ہی وہ تھوڑا آگے گئے، کلاشنکوف سے فائرنگ کی، آ کر بتایا‘ بھاگ گئے سالے۔ میاں صاحب بڑے خوش ہوئے۔ میں نے کہا یہاں کسی نے کیوں فائرنگ کرنی تھی،پوری دنیا کا میڈیا، اپوزیشن لیڈر اور سابق وزیراعظم ساتھ ہیں، لغاری پاگل ہے جو سب کو مروادیگا۔ اسی نے فائرنگ کی ہو گی۔ میاں صاحب بولے یہ ہمارا جاںنثار ہے۔ اگلے روز انعام اللہ نیازی کو اس جاں نثاری پر پنجاب مسلم لیگ ن کا نائب صدر بنا دیا گیا۔ راجن پور سے پہلے گاڑیاں بھی رک گئیں۔ اب جاوید ہاشمی نے سوچا میں کیوں پیچھے رہ گیا ہوں۔ وہ اپنی گاڑی سے اترے ،آکر بتایا کہ ریلوے پھاٹک کو تالا لگا دیا گیا ہے۔ میں ابھی کھلواتا ہوں۔ جاکر گیٹ کیپر کو دھمکایا۔’’ میں دو منٹ دیتا ہوں۔ اگر تالا نہ کھولا تو برسٹ مار کر کھول دینگے‘‘۔ معمولی سا تالا تھا جو بیچارے گیٹ کیپر نے کھول دیا۔ انہوں نے پھر آ کر کہا میاں صاحب، آپ پر جان بھی قربان ہے۔ میں نے گیٹ کھلوا دیا ہے۔ پھاٹک قافلہ روکنے کیلئے نہیں گاڑی آنیوالی تھی، اس لئے بند تھا۔ چالیس گاڑیاں تھیں۔ میاں صاحب کوباورکرایا، گاڑی آنیوالی ہے، زبردستی پھاٹک کھلوا کر گزرنا پاگل پن ہے۔ اس پر رکنے کا فیصلہ کیا گیا، چند منٹ میں گاڑی آئی اور گزر گئی۔ جاوید ہاشمی کو بھی میاں صاحب نے جاں نثار کا لقب دیا۔ اس دورے میں ذوالفقار کھوسہ جین پہنے، سر پر ہیٹ رکھے کائو بوائے بنے ہوئے تھے۔ ہم سب لوگ بیٹھ گئے جبکہ کھوسہ صاحب نواز شریف کے سامنے کھڑے تھے۔ ان کو بیٹھنے کو کہا تو گویا ہوئے۔’’ یہ میرا علاقہ ہے۔ میاں صاحب کی میں جان پر کھیل کر حفاظت کروں گا۔ انکے سامنے کھڑا رہوں گا تاکہ کوئی گولی آئے تو پہلے مجھے لگے۔یہ تین عظیم لیڈروں کے مابین خوشامد،چوپلوسی اور حاشیہ برداری کا مقابلہ تھا جو تینوں ہی جیت گئے۔