پاکستان بھارت تعلقات میں کشیدگی ماضی کے کسی بھی دور کے مقابلے میں انتہائی زیادہ نظر آتی ہے دونوں جنگ کی طرف بڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔فوجوں کی نقل وحرکت ہورہی ہے۔ایٹمی ہتھیا تک نکالنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں دوسری طرف نہ صرف تجارت جاری ہے بلکہ اس میں اضافہ بھی ہورہا ہے جو ان لوگوں کے خدشات کو تقویت دیتا ہے جو اس صورتحال کو مودی نواز ڈرامہ بازی قرار دیتے ہیں۔پاکستان کے ایک بڑے میڈیا گروپ نوائے وقت کی رپورٹ کے مطابق پاکستان بھارت کشیدگی میں اضافے کا تجارت پر کوئی اثر نہیں پڑا ۔ سرکاری اعداد و شمار کے
مطابق رواں مالی سال 2016-17ء کے پہلے دو ماہ کے دوران دونوں ملکوں کی باہمی تجارت کا حجم 28 کروڑ 24 لاکھ ڈالر رہاجو گزشتہ مالی سال 2015-16ء میں اتنی مدت کے دوران 24 کروڑ 88 لاکھ ڈالر تھا۔بھارت کے ساتھ دو ماہ کی تجارت میں پاکستان کو 10 کروڑ 33 لاکھ ڈالر کا تجارتی خسارہ پہنچا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق کشیدگی کے باوجود دونوں ملکوں کی باہمی تجارت کم ہونے کی بجائے 30 فیصد بڑھ گئی ہے۔اگست کے دوران پاکستان بھارت تجارت کا باہمی حجم 15 کروڑ 47 لاکھ ڈالر تک پہنچ گیاجبکہ گزشتہ سال اگست میں دونوں ملکوں کی تجارت کا حجم 11 کروڑ 86 لاکھ ڈالرتھا اور اس سال جولائی میں 12 کروڑ 77 لاکھ ڈالر تھا۔ اگست کے دوران بھارت سے 10 کروڑ 39 لاکھ 33 ہزار ڈالر مالیت کی اشیا پاکستان بھجوائی گئیں، جبکہ 5 کروڑ 8 لاکھ ڈالر مالیت کا تجارتی سامان پاکستان سے بھارت بھجوایا گیا ہے۔ انسٹیوٹ آف اسلامک بینکنگ اینڈ فنانس کے چیئرمین ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے پاکستان اور بھارت کے تجارتی اعداد و شمار کے بارے میں کہا ہے کہ یہ دو ماہ کے اعدادوشمار ہیں آنے والے مہینوں میں اس میں کشیدگی کے باعث اس میں بہت حد تک کمی آئیگی۔ چند برس قبل پاکستان اور بھارت کی باہمی تجارت کا حجم 60کروڑ ڈالر تھا اسوقت طے کیا گیا کہ کہ تجارت بڑھائی جائے اس سے برف پگھلے گی اور سیاسی مسائل حل ہونگے لیکن وقت نے ثابت کیا کہ باہمی تجارتی حجم 2.5ارب ڈالر تک پہنچ گیا لیکن بھارت کے پاکستان دشمن رویہ میں تبدیلی نہیں آئی۔ باہمی تجارت میں جو اضافہ ہوا اسکی بنیادی وجہ یہ تھی کہ پاکستان نے بھارت سے درآمدات میں اضافہ کیا اصل میں بھارت کو پاکستان سے تجارت بڑھانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اسکا مقصد محض پاکستان کی معیشت کو نقصان پہچانا ہے اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنا ہے۔