نیب، نواز شریف اور براڈ شیٹ

2021 ,جنوری 9



یکم جنوری 2021ء کوہمارے چینلز پر اس خبر نے کئی لوگوں کو خوش کئی کو حیران اور کئی کو پریشان کر دیا۔ ’’ لندن ہائیکورٹ میں کیس ہارنے کے بعد نیب نے براڈ شیٹ فرم کو 4 ارب 58 کروڑ روپے ادا کردیے۔‘‘

اس خبر پر ردعمل دیتے ہوئے مریم نوازصاحبہ نے کہا ۔’’ الحمدللہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کیس کی اصلیت بھی سامنے آ گئی۔ نواز شریف کی صداقت و امانت داری کی گواہی قدرت دے رہی ہے۔براڈ شیٹ کمپنی کو نواز شریف کیخلاف مقدمات ڈھونڈنے کیلئے 2 کروڑ 87 لاکھ ڈالر ادا کئے گئے۔ نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹنے اور انہیں انتخابی اور سیاسی میدان سے باہر رکھنے کیلئے جو مکروہ کھیل کھیلا گیا اور جو خطرناک سازش رچائی گئی اس کا ایک ایک مہرہ سامنے آ رہا ہے۔ دوسری جانب وزیراعظم کے مشیر بیرسٹر شہزاد اکبر نے کہا ۔’’ مریم نواز جھوٹ نہ بولیں۔ تحقیقات ہو رہی ہے، حکومتی وکلاء نے براڈ شیٹ مقدمہ کیسے لڑا۔ براڈ شیٹ کمپنی عدالت گئی کہ فلیٹس پاکستان کی ملکیت ہیں لہٰذا ہمارے حق میںقرقی کردیں، لندن کورٹ نے کہاکہ فلیٹس آج بھی آپ کی ملکیت ہیں۔ اب آپ منی ٹریل دیں یا قوم کو بتائیں خاندان میں یہ فلیٹس کس کی ملکیت ہیں۔ براڈ شیٹ کی مصالحتی کارروائی آپکے دور میں ہوئی۔‘‘

 ذرا پیچھے جائیے،دوسال قبل27 دسمبر 2018ء کو قومی اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی۔’’پاکستان بین الاقوامی فورم پرایک اور قانونی جنگ ہار گیا۔ لندن کی بین الاقوامی ثالثی عدالت نے معروف براڈ شیٹ کیس میں پاکستان کیخلاف 2 کروڑ 10 لاکھ ڈالر جرمانہ ادائیگی کا فیصلہ سنا دیا۔‘‘ اسی خبر میں مزید کہا گیا۔’’سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں برطانیہ اور امریکا میں کم وبیش 200 پاکستانیوں کے اثاثوں کا پتہ لگانے کیلئے آئزل آف مین رجسٹرڈ براڈشیٹ ایل ایل سی نامی فرم کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔اس سلسلے میں آصف علی زرداری، بینظیر بھٹو، نواز شریف اور لیفٹیننٹ جنرل اکبر کو بطور خاص ہدف بنایا گیا تھا۔اس معاہدے کے تحت مقررہ اہداف سے وصول شدہ رقم میں سے 20 فیصد کمپنی کو ادا کی جانی تھی۔ نیب نے براڈ شیٹ کے ساتھ معاہدہ طے کیا جو 2003 میں ختم کردیا گیا ، جس پر فرم نے ہرجانے کا دعویٰ دائر کیا تھا۔‘‘ پاکستان کو جرمانہ براڈ شیٹ کیساتھ یکطرفہ طور پر معاہدہ ختم کرنے کی وجہ سے ہوا۔مشرف دور میں نواز شریف کے قائم کردہ احتساب کمیشن کو احتساب بیورو بنا دیا گیا تھا۔مشرف صاحب کے سرپر شروع میں احتساب کا بھوت سوار تھا جو سیاست دانوں کی قربت کے بعد سر سے اُتر گیا جسکے بعد 2003ء میں یہ معاہدہ ختم کردیا گیا جو اسی معاہدے کی ایک شق کی خلاف ورزی تھی۔تاہم پاکستان میں نیب کام کرتا رہا۔ مشرف کے دور میں نیب نے کرپٹ لوگوں سے 210 ارب روپے کی ریکوری کی۔بعد میں آنے والی حکومتوں کی کارکردگی کو دیکھا جائے تو مشرف دور کی وصولی مثالی نظر آتی ہے۔اگلے دس سالہ جمہوری ادوار میں کرپٹ لوگوں سے صرف 104 ارب روپے وصول ہوسکے۔مشرف دور میں نیب کی کارکردگی نسبتاً بہتر رہی مگر اس نے براڈ شیٹ کمپنی کیساتھ یکطرفہ معاہدہ ختم کرکے اپنی نالائقی ظاہر کی جب براڈ شیٹ کمپنی عدالت گئی تواس کیساتھ مصالحت کرنے کی کوشش نہیں کی گئی اگر کوشش کی گئی تو ناکام رہی۔ دونوں صورتوں میں قصور وار نیب ہی قرار پاتا ہے۔لندن میں کیس چلتا رہا۔فیصلہ 2018ء میں آیا اُس وقت تحریک انصاف کو حکومت میں آئے چار ماہ ہوئے تھے۔ مشرف کے بعد پہلے زرداری اور پھر نواز شریف حکومت کوکیا اس کیس کی خبر نہ ہوئی؟براڈ شیٹ کے ساتھ معاہدہ فیصلے سے قبل کسی بھی وقت بحال ہوسکتا تھا۔مشرف نے معاہدہ بحال کرنا ہوتا تو ختم ہی کیوں کرتے؟ انکے بعد پی پی پی اور نواز لیگ اقتدار میں آئیں۔انہوں نے معاہدہ کیوں بحال نہ کیا؟ اس لئے کہ جن اعلیٰ ہستیوں کے لوٹ مار سے بنائے گئے اثاثے پکڑنے تھے ان میں آصف علی زرداری، بینظیر بھٹو، نواز شریف جنرل اکبر سمیت دوسو لوگوں کے شامل تھے۔لندن ہائیکورٹ نے ذیلی عدالت کا فیصلہ برقرار رکھا۔اب اس فیصلے اور جرمانہ ادا کرنے کی خبر آئی تو میاں نواز شریف نے اس پر کہا ۔’’کھودا پہاڑ نکلا چوہا، ہمارے خلاف مہم چلانے والوں کو لندن کی ہائیکورٹ نے بے نقاب کردیا۔ براڈ شیٹ کیس کا فیصلہ شریف فیملی کی فتح ہے،اللہ نے بے گناہ ثابت کیا۔جو زیادتی اور ظلم ہمارے ساتھ ہوا اس کا جواب برطانوی ہائی کورٹ سے ملا ہے۔ ہم سے تو کچھ نہ نکلا، الٹا لینے کے دینے پڑ گئے۔ اس سارے معاملے ذرا تلاش کیجئے مریم صاحبہ کے بقول میاں نواز شریف کی قدرت کی طرف سے صداقت و امانت داری کی کہاں گواہی نظر آتی ہے؟جرمانے کی رقم کھری کرنے کیلئے براڈ شیٹ نے لندن ہائی کورٹ میں دائر کردہ اپنی درخواست میں شریف فیملی کے چار اپارٹمنٹس کی اٹیچ منٹ کی بھی درخواست کی تھی۔فرم کا کہنا تھا کہ کیونکہ ایون فیلڈ سے متعلق ریفرنس میں احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ایون فیلڈ کے اپارٹمنٹ ضبط کرنے کا حکم دیا ہے، اس لیے پراپرٹیز کو عدالتی کارروائی کاحصہ بنا لیا جائے اور اگر حکومت پاکستان جرمانہ دینے میں ناکام رہے تو یہ پراپرٹیز براڈشیٹ کے حوالے کردی جائیں۔اس پر عدالت یہ کہہ کر کمپنی کی درخواست مسترد کردی کہ اپارٹمنٹس حکومت پاکستان کی نہیں شریف خاندان کی ملکیت ہیں۔ اسے یہ لوگ اپنی ایمانداری اور صداقت کے طور پر پیش کرکے جشن منارہے ہیں۔ مشرف نیب کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال نہ کرتے تو اس کی ساکھ متاثر نہ ہوتی ۔ بعد میں زرداری اور نواز شریف کے ادوار میں بھی نیب کو آزادی سے کام کرنے نہیں دیا گیا۔اسکی ایک مثال لیگی دور میں اشرافیہ کے پچاس میگا کرپشن کیسز کھولنے کی کوشش کی گئی تو میاں نواز شریف صاحب نے کہا تھا۔’’نیب اشرافیہ کی پگڑیاں اچھالنے سے باز رہے۔‘‘میاں صاحب کے کاسہ لیس بھی گرجے۔ایک نے نیب کے پَر کاٹنے دھمکی دی۔چودھری قمر زمان میاں نواز شریف کے کبھی لاگی رہ چکے تھے وہ دھمکیوں پر ’’دَڑ وٹ‘‘گئے۔آج کا نیب بااختیا ،آزاد اور اس کا چیئرمین تگڑا ہے۔اسے ہٹانے اور نیب کو گرانے کی جرائم پیشہ مائنڈ سیٹ کی طرف سے کوششیں ہورہی ہیں۔عمران خان کی حکومت کے دوران نیب کو بغیر دبائو کے کام کرنے کا موقع دیا گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ دوسال میں اس نے 379 ارب روپے کی ریکوری کی ہے۔جو مشرف کے سات آٹھ سال اور اسکے بعد کے دس سالہ جمہوری ادورا کی مجموعی وصولی سے بھی زیادہ ہے ۔ادھر محکمہ اینٹی کرپشن پنجاب نے ڈھائی سال میں 206 ارب روپے وصول کیے۔ قبل ازیں دس سال میں صرف تین ارب روپے کرپٹ لوگوں سے نکلوائے گئے تھے۔نیب قوانین میں اصلاح کی بات ہوتی رہتی ہے۔اصلاح ضرور کی جائے مگر وہ لوگ اسکا بیڑا ُٹھائیں جو خود کرپشن کے الزامات سے مبرا ہوں۔جہاں نیب کو مطلوب لوگ سینہ پھلا کے نیب قوانین میں ترمیم کے مسودے اٹھائے پھرتے ہیں۔

متعلقہ خبریں