2019 ,ستمبر 30
خلائی مخلوق کے بارے ميں کون نہیں جانتا، شاید ہی ہم میں سے کسی نے خلائی مخلوق سے متعلق فلم ناول یا کہانی دیکھی ، پڑھی یا سنی نہ ہو ۔ بھوت پریت کے قصے شاید ختم ہو جائیں لیکن خلائی مخلوق کے بارے میں آئے روز نت نئی باتیں پرھنے اور سننے کوملتی رہتی ہیں ۔سودیت یونین کے آخری صدر میخائل گورباچوف نے ایک بار اپنی تقریر میں کہا تھا کہ اڑن طشریاں کوئی خیالی چیز نہیں ہیں بلکہ درحقیقت اپنا وجود رکھتی ہیں اور ہمیں ان کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔ایسا ہی دعوی ایک بار امریکی صدر رونالڈ ریگن نے کیا کہ اس نے اپنے جہاز کی کھڑکی سے اڑن طشتری دیکھی ۔۔۔۔تاریخ میں ہو گزرنے والی چند مشہور شخصیات کے بارے ميں بھی مشہور ہے کہ ان کا خلائی مخلوق سے کوئی نہ کوئی تعلق تھا ، بلکہ بعض محققین اور مصنفین کے خیال ميں تو ہٹلر اور نیپولین کی کامیابیوں اور اچانک ناکامیوں کے پیچھے بھی کسی غیر مرئی مخلوق کا ہاتھ تھا ، جبھی تو انھوں نے اتنے کم وقت میں ایسی محیر العقول کامیابیاں حاصل کیں اور پھر جب اس مخلوق نے اُن کے سر پر سے ہاتھ اٹھا لیا تو وہ اچانک تباہی و ناکامی کے گھڑے میں گر گئے۔خاص طور پر نیپولین کے بارے ميں ایسی کئی کہانیاں مشہور ہیں ، نپولین کا زیر نظرواقعہ یورپی مصنف ایلیٹ اوڈنل نے تحریر کیا ہے، اس واقعے میں نیپولین سے جس سرخ پوش کی ملاقات کا احوال درج ہے ، اسے بلاشبہ مصنف نے آسیب کا نام دیا ہے لیکن بعدازاں یہ بات تسلیم کر لی گئی کہ وہ مخلوق کسی اور سیارے سے نیپولین کے پاس آیا کرتی تھی ،پراسرار واقعات کے شائقین کے لیے یہ واقعہ پیش خدمت ہے :
مصنف لکھتا ہے کہ فرانسیسی بادشاہ خطرات سے خبردار رہنے کے لیے بعض پُراسرار وجودوں‘ جنہیں مصنف نے آسیب کا نام دیا ہے‘ کی خدمات حاصل کرتے تھے۔ ایسا ہی ایک پُراسرار وجودنپولین کے پاس بھی تھا۔ اس واقعے کا تعلق اس آخری خطرے سے ہے جس کے بارے میں مذکورہ آسیب نے نپولین کو خبردار کیا تھا۔
یہ یکم جنوری ۱۸۱۴ء کی بات ہے۔ نپولین نے اپنے دفتر کے کمرۂ مطالعہ میں جاتے ہوئے اپنے مشیر کاؤنٹ مول کو ہدایت کی کہ وہ کسی کو اندر نہ آنے دے۔ تھوڑی دیر بعد کاؤنٹ مول کے کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی۔ اس سے پہلے کہ کاؤنٹ دروازہ کھولتا‘ سر سے پاؤں تک سرخ لباس پہنے ہوئے ایک لمبے قد کا آدمی‘ دروازہ کھول کر اندر آ گیا اور نپولین سے ملاقات کرانے کا مطالبہ کیا۔ کاؤنٹ نے انکار کر دیا‘ لیکن سرخ پوش نے کہا ’’ملاقات بہت ضروری ہے‘ وقت ضائع نہ کرو اور فوراً اندر جاؤ۔‘‘ کاؤنٹ اس طرز تخاطب پر برہم ہو گیا‘ لیکن اسی لمحے سرخ پوش نے اسے گھور کر دیکھا۔ اس کی نظروں میں نہ جانے کیا بات تھی کہ کاؤنٹ خاموشی سے نپولین کے کمرے میں داخل ہو گیا اور سرخ پوش اجنبی کے بارے میں اسے بتایا۔ نپولین کا چہرہ زرد ہو گیا اور اس نے گھبرا کر محض اتنا کہا کہ اسے اندر آنے دو۔
اس اجازت کے بعد سرخ پوش اندر چلا گیا‘ کاؤنٹ نے اندر کی گفتگو سننے کے لیے دروازے سے کان لگا دیے۔
سرخ پوش نپولین سے مخاطب تھا ’’میں تیسری بار تم سے ملنے آیا ہوں۔ پہلی بار مصر میں جنگ اہرام سے پہلے ہماری ملاقات ہوئی تھی۔ دوسری مرتبہ ’واگرام‘ کا واقعہ پیش آنے سے پہلے جب میں نے تمہیں بتایا تھا کہ تمہارے پاس عام صلح کے لیے چار سال کی مہلت ہے اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو میں تمہاری حفاظت سے ہاتھ کھینچ لوں گا۔ اب یہ آخری بار ہے اور تمہارے پاس صرف تین ماہ کی مہلت ہے۔ یا تو اپنی مہم مکمل کر لو یا پھر اتحادیوں کی شرطوں پر ان سے صلح کر لو۔ ان میں سے کوئی صورت بھی تم نے قبول نہیں کی تو تمہارا معاملہ ختم۔۔۔‘‘
نپولین نے وضاحت کی کہ اتنے مختصر عرصے میں اس کے لیے کھوئے ہوئے علاقے واپس لینا ممکن ہے نہ باعزت صلح ہو سکتی ہے۔ نپولین نے کہا کہ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس پر اسے سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا چاہیے۔
سرخ پوش نے جواب میں کہا ’’میرا فیصلہ بدل نہیں سکتا‘ میں نے جو کہہ دیا ہے وہی ہو گا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ پلٹا۔ نپولین نے جلدی سے اسے روکا اور استدعا کرنے کے انداز میں بولا ’’میری پوری بات سن لو مجھے کچھ وقت دو۔‘‘
سرخ پوش نے نپولین کی اس درخواست پر کوئی توجہ نہ دی اور یہ کہہ کر وہاں سے نکل گیا ’’بس تین مہینے کا عرصہ‘ اس سے زیادہ ایک دن بھی نہیں دوں گا۔‘‘
ٹھیک تین مہینے بعد نپولین تخت سے دستبردار ہو گیا۔ یہ قصہ فرانس کے اعلیٰ حلقوں کے علم میں تھا‘ لیکن وہ پراسرار سرخ پوش کون تھا‘ یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔ ایک روایت یہ ہے کہ نوعمری میں یہ سرخ پوش نپولین کو ایک ویران جزیرے میں ملا تھا۔ بعض کا کہنا ہے کہ وہ کوئی بزرگ ہستی تھی جس کا نپولین بوناپارٹ خاندان سے کئی صدیوں سے تعلق اور رابطہ تھا۔ بہرحال یہ سب روایات ہیں جو مختلف لوگوں نے بیان کی ہیں۔ اس معاملے میں حقیقت کیا ہے اس بارے میں ٹھیک طور پر کسی کو بھی معلوم نہیں۔
سائنس دانوں کو توقع ہے کہ خلائی مخلوق کے بارے میں ان کا علم زیادہ عرصے تک محدود نہیں رہے گا اور جب علم میں وسعت آئے گی تو سیاست اور جنگیں کہکشاؤں کے دوسرے سیاروں پر ہوا کریں گی اور بہت ممکن ہے کہ وہ جنگیں ہمارے اور خلائی مخلوق کے درمیان ہوں۔ گویا نیپولین کے سرپرست خلائی مخلوق ایک بار یہ کوشش کر بھی چکی ہے ۔