گلیشیائی پہاڑوں سے نکلنے والی ’’آنسو جھیل‘‘

2017 ,دسمبر 26



لاہور(مہرماہ رپورٹ): یوگی بابا کہتے ہیں کہ ہر انسان میں ایک عدد خانہ بدوش، آوارہ گرد، چرواہا یا بکروال چھپا ہوتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یوگی بابا انسانی رویوں، جذبات اور احساسات کے تنوع کی بات کرتے ہیں۔ انسانی تنوع نے انسانوں کو نجانے کب سے پر لگا کر اڑنا سکھا دیا ہے۔ یکسانیت سے تنگ آئے ہوئے خاکی دیوانے تغیر چاہتے ہیں، کچھ نیا چاہتے ہیں۔ میدانوں والے سبزہ زاروں کو دوڑتے ہیں، پہاڑوں والے بسے اور ٹھنسے ہوئے شہروں کی طرف بھاگتے ہیں، صحرا والے پانی چاہتے ہیں اور پانی والے کڑکتی دھوپ کی تلاش میں ہیں۔وادی کاغان ایسے ہی ایک تغیر کا نام ہے۔ کاغان سبز دیوی کا مسکن ہے، دیوی نے اپنی سبز ردا کو سرمست ہواؤں کے دوش پرپھیلا رکھا ہے، وادی کیا ہے پھولوں، پودوں، ندی نالوں، گلشیئرز، آبشاروں اور درختوں کے بیچ کہیں کہیں قدرت نے خاکی دری بچھا رکھی ہے۔ مگر ان سب سے بڑھ کر وادی کا حسن وادی کی داستانوی جھیلوں میں پوشیدہ ہے۔ کوئی وجہ ایسی نہیں کہ کاغان کو جھیلوں کی سر زمین نہ کہا جائے جبکہ اس دیومالائی وادی میں جھیل سیف الملوک ہے اور اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کسی کے سامنے اسکی تعریف کرنے سے بہتر ہے کہ اُسے جھیل سیف الملوک کے نظارے کی دعوت دے دی جائے کیونکہ جھیل کے سراپا کو بیان کرنے سے لفظ قاصر ہیں۔ اسی وادی میں جھیل جٹی، جھیل لولو سر، جھیل دودی پت سر، ست سری مالا (ایک دوسرے میں گرتی سات چھوٹی جھیلیں)، جھیل جلکھڈ (چاند جھیل) اور آنسو جھیل ہے۔

آنسو جھیل کو دیکھنے والا فیصلہ کرسکتا ہے کہ خوشی وغم صرف انسان جاتی سے منسوب نہیں بلکہ زمین کے سینے پر پنجے گاڑے، غرور سے سر بلند کئے پتھروں پر مشتمل اجسام، پہاڑ بھی رو دیتے ہیں اور پھر ہزاروں فٹ کی بلندی پر آنسو شکل کی ایک جھیل وجود میں آجاتی ہے۔آنسو جھیل تک رسائی کے تین راستے ہیں. مہانڈری کے مقام پر جب آپ مرکزی روڈ سے دائیں طرف اترتے ہیں تو منور روڈ آپ کو بیاڑی تک لے جاتا ہے، یاد رہے یہ روڈ صرف جیپوں کو اپنے سینے پر مونگ دلنے کی اجازت دیتا ہے۔ بیاڑی سے آگے کچ پاس (درہ کچ) ہے۔ کچ پاس کی بلندیوں کو چھوتے ہوئے آپ کہسار کی بلندی پر آنسو جھیل تک پہنچتے ہیں کہ آپ کی خواہش نا مکمل نہ رہے۔ دوسرا راستہ کاغان گاؤں سے آپ کو جنگلوں میں لے جاتا ہے۔ آپ رنگ برنگے پرندوں کی اڑان کو نظر میں رکھتے ہوئے، ان کے سریلے گیت سنتے ہوئے کچ پاس پہنچ جاتے ہیں اور آگے کا خاموش راستہ آپ کی راہ تکتا ہے۔ تیسرا راستہ دونوں راستوں سے زیادہ حسن ور اور مسرور و مسحور کردینے والا ہے جو ناران سے شروع ہوتا ہے۔ ناران سے جیپ روڈ پر ایک موڑ مڑتے ہی خود کو جھیل سیف الملوک کے کنارے پاتے ہیں۔ جھیل کے اس پار کا سفر کرتے ہوئے، ڈھلانوں پر ہمت آزمائی کرتے ہوئے آپ کچ نالہ پار کرکے مرمریں جھیل آنسو کی یاترا مکمل کرتے ہیں۔ تو آئیے اسی راہ پر چلتے ہیں۔ صبح سویرے کاغانی پنکھ پکھیرو جب آپ کو بیدار کردے تو آپ ایک عدد انگڑائی لے کر ہوٹل سے باہر یا اس کی چھت پر آجائیں پھر دیکھیں کہ ناران کی صبح کیسی تراوٹ انگیز ہوتی ہے۔ سرد مگر دل کو گرم کر دینے والی، کنہار (دریا) کنارے جا کر وادی کا مکمل احساس من میں بسانے کے لئے برفناک پانیوں سے منہ دھونا برا خیال نہیں۔

جیپ اگرچہ تیار ہے تو آپ کو صرف آدھے گھنٹے میں جھیل سیف الملوک کنارے اگل آئے لیکن آپ اگر سچے آوارہ گرد اور پکے خانہ بدوش ہیں تو یقیناً آپ 3 گھنٹے پیدل چلنا گوارا کرلیں گے۔ راہ میں آپ رنگ برنگے پرندوں کو اپنے سنگ گاتا دیکھ کر ان کی سنگت ضرور اختیار کرنا چاہیں گے۔ دائیں بائیں سے سبز جنگلوں کی ہوائیں آپ کو خوش آمدید کے سندیس بھیجیں گی، اور آپ منزل شوق کی طرف چلتے جائیں گے۔ لیکن ٹھہرئیے! آپ کو رکنا پڑے گا کہ آپ کی راہ میں ایک مُنا سا گلشیئر آگیا ہے جو سرد آہیں بھر بھر کر بیتے زمانوں کی داستانیں سناتا ہے اور آپ سنتے ہیں اور پھر ایک سرد آہ بھر کر آگے کو روانہ ہوجاتے ہیں۔

جیسے جیسے آپ بلندی کیطرف جاتے ہیں اسی تناسب سے آپ کے گرد و نواح میں درخت چھدرے ہونا شروع ہوجاتے ہیں، اور ان کے قد میں نمایاں کمی ہوجاتی ہے مگر جھیل سیف الملوک کی جانب سے آنے والی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں آپ کے چہرے کو سہلا کر ہوا ہوجاتی ہیں اور جب آپ سر اوپر اٹھا کر دیکھتے ہیں تو سفید آسمان پر نیلے بادل آپ کے سنگ چل رہے ہیں۔ آپ کو چلنا ہے اور آپ سیف الملوک ناڑ (نالہ) کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ یہ نالہ آپ کی ہمت بڑھاتا اور یوں گویا ہوتا ہے کہ’میں وہاں سے آرہا ہوں جہاں تم کو جانا ہے اگر میں جھیل سے جدا ہو کر نیچے کنہار سے وصال کرسکتا ہوں تو تم کنہار سے میرے کنارے کنارے سفر کرتے جھیل تک پہنچ بھی سکتے ہو‘۔

ایک مقام پر آپ سیف الملوک ناڑ کو دائیں طرف پار کرتے ہیں تو ٹھنڈک کے ساتھ آپ کی خوشیوں کا کینوس بھی پھیلنے لگتا ہے، کیونکہ اب آپ ان پھولوں کے درمیان ہیں جو کسی کائناتی لمحے میں صرف اور صرف آپ کے لئے کھلے تھے۔ تھوڑا آگے چل کر جیپ روڈ جس پر چل کر آپ یہاں تک پہنچے ہیں، کافی کشادہ ہوجاتا ہے تو آگے ایک موڑ آئے گا اور یہ وہی خاص موڑ ہے جس کے پار آپ کی کلپنہ جھیل سیف الملوک پہاڑوں کی گود میں شیر خوار بچے کی طرح خوابیدہ ہے اور آپ پہلی بار جب جھیل کو دیکھتے ہیں توخود کھو سے جاتے ہیں، جیسے حصول عشق پر آپ کو خود یقین نہ آرہا ہو۔کوہستانی بانہوں نے جھیل کے پانیوں کو سمیٹ رکھا ہے۔ جھیل کا سفید پانی آئینے کا کام دیتا ہے، یہ جھیل رنگ بدلنے میں گرگٹ کی بھی استاد ہے۔ ہر پہر، ہر موسم میں اس کا رنگ الگ ہوتا ہے۔ جب سورج پہاڑوں کے پیچھے چھپنے والا ہوتا ہے تو جھیل دو رنگی ہوجاتی ہے، ایک رنگ سائے میں ذرا گہرا ہوتا ہے تو دوسرا سورج کی مرتی لالی کا رنگ جو شام چھا جانے کا اعلان کرتا ہے۔ آپ بڑے دھنی خانہ بدوش ہیں اگر آپ جھیل کنارے کیمپ کرتے ہیں۔

اگر یہ چاند کی وسطی راتیں ہیں تو پھر تو آپ کی قسمت پر رشک کیا جاسکتا ہے۔ سات آسمانوں کا سنا تو آپ نے بھی ہے اور سنا میں نے بھی ہے، لیکن آج تک میں صرف دو آسمان دیکھ پایا ہوں جو آپ بھی دیکھ سکتے ہیں۔ چاند کی وسطی راتوں میں جھیل کنارے اپنے کیمپ سے باہر کا ذرا نظارہ تو کیجئے۔ محدود و لامحدود سے ماورا آسمان آپ کے سر کے اوپر تو ہے ہی مگر ایک محدود آسمان جھیل کے ساکن سینے پر پھیلا دیا گیا ہے جس میں ستارے، سیارے اور چاند سب کچھ ہی تو ہے اور ان دائروں نے جھیل کے سینے پر پڑی سماوی چادر کو اور آپ کے عکس کو دھندلا دیا ہے جو آپ کے پھینکے گئے ایک سنگریزے نے پیدا کئے تھے۔سرسراہٹ سی ہوتی ہے اور سرد ہوا آپ کے خیمے سے ٹکرا کر(اگلی) صبح کا اعلان کرتی ہے، اور لیجئے تھوڑی دیر میں سب ناشتہ کرکے چائے نوش کرچکے ہیں۔ سردی کا احساس تب ہوتا ہے جب گوشت پوست کے نیچے ہڈیوں کو ہوائیں برفانی نشتر چبھوتی ہیں۔ سورج اپنا آپ منوانے کے لئے دھند کےغلاف میں مسلسل شگاف ڈالے جا رہا ہے۔ ایسے میں آپ ہاتھوں میں واکنگ اسٹک لئے اپنے مقامی گائیڈ کے پیچھے ہولیتے ہیں کہ کسی طور آنسو کو نکلیں، چاہے آنسو ہی نکلے۔

جھیل سیف الملوک سے جھیل آنسو تک آپ خراماں روی سے چلتے ہوئے، رکتے ہوئے، راہ میں ’خرمستیاں‘ کرتے ہوئے 4 سے 5 گھنٹوں میں پہنچ سکتے ہیں۔ اگرچہ سیف الملوک سے خچر اور گھوڑے مل جاتے ہیں جو آپ کا وزن برداشت کرسکتے ہیں، مگر بھلے وقتوں میں یوگی بابا نے کہا تھا کہ آوارہ گرد اور خانہ بدوش گھوڑے کی پیٹھ پر نہیں بیٹھتے کہ انہیں کہیں پہنچنے کی کوئی جلدی نہیں ہوتی۔جھیل سیف الملوک کنارے چلتے ہوئے، چھوٹے چھوٹے دو تین گلشئیروں کو پار کرتے ہوئے جھیل کے پار، مشرق کی جانب درہ آجاتا ہے۔ وادی قدرے تنگ ہوجاتی ہے اور نالہ، بے شور نالہ آپ کے ساتھ ہے۔ شرر شرر کی مدہم اور سروں سے بھرپور آوازیں آپ کو سنائی دے رہی ہیں جو دور پہاڑوں پر سے پھسلنے والے پانیوں کی صدائیں ہیں۔ دھند کا غلاف لپیٹا جاچکا ہے اور آسمان بے جوڑ ہے اس میں بادلوں کا کوئی پیوند نہیں ہے۔ سورج ابھی چونکہ پہاڑوں کے شانوں سے زرا ہی اونچا ہے اسی لئے تو آسمان کچے نیلے رنگ کا نہیں بلکہ پکے نیلے رنگ کا ہے، ہواؤں میں سے برف کا احساس تھوڑا سا کم ہو چکا ہے۔

تھوڑی دیر بعد آپ خود کو قدرے وسیع وادی میں پاتے ہیں۔ ہموار میدان میں سر سبز گھاس کا سر اٹھا ہوا ہے اور آپ اس پر بوٹ رکھ کر اسے دبا کر آگے نکل جاتے ہیں۔ تقریباً دو اڑھائی کلومیٹر کے سفر کے بعد آپ ایک نرم خو نالے کے بڑے بڑے پتھروں پر قدم رکھ کر پار کرتے ہیں، اور بیس کیمپ سامنے ہی ہے۔ جی ہاں! مقامی گائیڈ اسے جھیل آنسو کا بیس کیمپ کہتے ہیں۔ آپ واکنگ اسٹک اور اپنے بیگ وغیرہ سبز زمین پر رکھ کر خود کو ایک بڑے پتھر پر تختہ کر دیتے ہیں۔ آپ کے پاس ہی خیمہ چائے خانہ ہے، اگرچہ کہنے کو اس کا نام ’آبشار ہوٹل‘ ہے۔ اس ہوٹل سے چائے، بسکٹ اور نمکو وغیرہ سے زیادہ کی توقع رکھنے کی ضرورت ہی نہیں۔ یہ آپ کے ٹریک کا آخری ’ہوٹل‘ ہے اس کے بعد آپ کو ’زادہ راہ‘ کہیں سے ملنے والا نہیں۔ اگر آپ کے بیگ میں دوپہر کا کھانا، نمکو، بسکٹ، بوتل وغیرہ ہے تو بھی اس کوہستانی خیمہ چائے خانے کی صرف ایک چائے کی پیالی آپ کی زندگی کی حسین یادوں کا حصہ بن سکتی ہے۔

ملکہ پربت کے سائے میں چوڑے چکلے پتھر پر یوگا انداز میں نشست جما کر سرد ہواؤں کے سنگ گرم چائے پینے والے آفاقی لمحات بھی بھلا کبھی بھلا پائے گے آپ؟ چند منٹوں کا یہ قیام کوہ نورد کو پھر سے تازہ دم کر دیتا ہے اور وہ سامنے ملکہ (پربت) پر تنی سفید برف چادر کو دیکھتے ہوئے اپنے دائیں ہاتھ کو چلنا شروع کردیتا ہے۔ اب اسے صرف چلنا نہیں بلکہ چڑھنا ہے کیونکہ نسبتاً ہموار ٹریک اب پیچھے رہ چکا ہے، سامنے تنگ اور قدرے عمودی ٹریک ہے۔ بلندی ایک دم بڑھتی ہے اور پاؤں کے نیچے سنگریزے اپنی جگہ جلدی جلدی بدلتے ہیں اور آپ اوپر کو جاتے ہیں مگر سنگریزوں کی کوشش نیچے واپس بھیجنے کی ہے۔اسی مقام پر کچ گاؤں ہے جو ٹریک سے نظر نہیں آتا، ٹریک کے بائیں طرف گہری وادی ہے جس کی تہہ میں نالہ ایک معصوم سانپ کی طرح پھنکارتا ہے اور نالے سے پرے اور اوپر ملکہ آپ کو دیکھ کر مسکراتی ہے۔ یہ ایسی ملکوتی مسکراہٹ ہے جو آپ کو تھکنے نہیں دیتی۔ آنسو جھیل پر پہنچ کر ملکہ پربت کی چوٹی آپ سے صرف تھوڑی سی ہی بلند لگتی ہے۔ لگتا ہی نہیں کہ یہ سطح سمندر سے 17390 فٹ بلند ہے۔ بلکہ محسوس ہے کہ آپ ہاتھ بڑھا کر اسے چھو سکتے ہیں، چوم سکتے ہیں اور تھک کر اس کی سفید گود میں سر رکھ کر سو بھی سکتے ہیں۔ کوہ نورد سرمئی دیوی کے سفید لبادے پر نظریں جمائے اپنی دھن میں آگے ہی آگے بڑھتا جاتا ہے تو دائیں طرف کی کوہستانی دیواروں سے کچ نالہ گنگناتا، ساز و سوز میں ڈوبا آپ کی راہ میں حائل ہوتا ہے۔ اس کا پانی ٹھنڈا نہیں بلکہ برفاب ہے کیونکہ اس نالے کی کوکھ مزید بلندی پر موجود گلیشئیر ہے۔ یہ راہ میں آنے والا آخری شفاف اور بلوریں سرد اور میٹھا پانی ہے (اور اس کے بعد جھیل کا پانی ہی آپ کے زیر استعمال آسکتا ہے)۔ چنانچہ بوتل، فلاسک، چھاگل، مشکیزہ یا جو کچھ بھی آپ کے پاس ہے اسے اور خقود کو سیراب کرلیں۔کچ نالہ پار کرنے کے بعد کچھ دیر کے لئے نسبتاً ہموار میدان ’ڈنہ‘ آجاتا ہے۔ عجب نہیں کہ وہاں آپ کو بھیڑ، بکریاں، سبزے پر منہ مارتی نظر آجائیں۔ سردی کا احساس بڑھ کرآپ کو اس چیز کا سندیس دیتا ہے کہ آپ برف زاروں کی راجدھانی میں داخل ہوچکے ہیں، ہوائیں شدت اختیار کرلیتی ہیں اور سورج بھی اپنا آپ بادلوں کے پیچھے چھپا لیتا ہے تو آپ اس کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ جولائی اگست میں بھی آپ کے پاس گرم کپڑے تو ہونے ہی چاہیئں، خصوصاً اگر آپ کی منزل جھیل آنسو ہے۔اگر آپ کوئی گھوڑا یا خچر جھیل سیف الملوک سے اپنے ساتھ لائے ہیں تو اس مقام سے آگے جانا اس کے بس میں نہیں کیونکہ وہ آپ کی طرح پتھروں پر اچھل کود نہیں کرسکتا، آپ کا گھوڑا یا خچر یہاں پر آرام اور آپ کے آنے کا انتظار کرے گا، اس جگہ کا نام اسی وجہ سے ’گھوڑا اسٹاپ‘ ہے۔

اپنے اکلاپے اور ہزاروں، لاکھوں برس کی تنہائیوں پر جب پہاڑ اپنی گلیشیائی آنکھوں سے روئے تھے تو آنسو جھیل تجسیم ہوئی تھی۔ آپ صرف کوہستانی آنسو دیکھنے تیرہ چودہ ہزار فٹ کی بلندی پر آتے ہیں جہاں پر آکسیجن جمع کرکے آپ کو سانس میں سمونا پڑتی ہے۔ یہ جھیل منور دریا کا منبع ہے، آپ اپنی تمام تھکاوٹیں جھیل کے سپرد کردیتے ہیں، یہاں انتہائی تیز اور سرد ہوائیں چلتی رہتی ہیں۔ سورج اور بادلوں میں ازلوں کا آنکھ مچولی کا کھیل جاری رہتا ہے۔ سورج نکلنے اور چھپنے میں بارش کی پھوار پڑنے میں اور پھر دھوپ کی تیز چادر پھیلنے میں منٹوں کا وقفہ ہوتا ہے۔ جھیل کنارے کھانا، ناچ گانا سب کچھ چل سکتا ہے۔ ایک ڈیڑھ گھنٹے میں جھیل کے نظاروں، یخ پانیوں، تاحد نظر تک پھیلے ہوئے برف پوش کہساروں کے نظاروں کو آپ کیمرہ میں محفوظ کرلیں۔ ایک وقت ایسا آئے گا کہ یادیں آپ کا سہارا ہوں گی اور ایسے میں آنسو جھیل جیسی رنگین یادیں تو بڑھاپے کو جوانی عطا کرسکتی ہیں۔

ڈھلتی دوپہر میں آپ جھیل سیف الملوک کو واپس اترتے ہیں۔ اترائی کا سفر نسبتاً آسان ہے، لیکن آسان نہیں جب شام رات سے گلے ملنے والی ہوتی ہے تو آپ سیف الملوک پہنچ جاتے ہیں۔ جہاں آپ کے خیمے نصب ہیں۔ اگر آپ آنسو جھیل سے اپنے ٹریک کو طویل کرنا چاہتے ہیں تو رات آپ کو آنسو جھیل کنارے کیمپ کرنا پڑے گا اور صبح کو آنسو جھیل کے اُس پار اتر جائیں۔ برفزار کچ پاس کو پار کرتے ہوئے، بیاڑی سے ہوتے ہوئے آپ مہانڈری پہنچ سکتے ہیں۔ جہاں سے آپ کاغان، کیوائی شوگران یا بالاکوٹ وغیرہ جاسکتے ہیں۔

متعلقہ خبریں