جب زندگی شروع ہو گی

2018 ,جنوری 22



چلتے چلتے میں نے اردگرد دیکھا تو تاحد نظر ایک ہموار میدان نظر آیا۔ ماحول کچھ ایسا ہورہا تھا جیسا فجر کی نماز کے بعد اور سورج نکلنے سے قبل کا ہوتا ہے۔ یعنی ہلکا ہلکا اجالا ہر طرف پھیلا ہوا تھا۔ اس وقت اس میدان میں کم ہی لوگ نظر آرہے تھے۔ مگر جو تھے ان سب کی منزل ایک ہی تھی۔ میرے دل میں سوال پیدا ہوا کہ ان میں سے کوئی نبی یا رسول بھی ہے؟ میں نے صالح کو دیکھا۔ اسے معلوم تھا کہ میں کیا پوچھ رہا ہوں۔ کہنے لگا:
”وہ سب کے سب پہلے ہی اٹھ چکے ہیں۔ ہم انہی کے پاس جارہے ہیں۔“
”کیا ان سے ملاقات کا موقع ملے گا؟“، میں نے بچوں کی طرح اشتیاق سے پوچھا۔
وہ چلتے چلتے رکا اور دھیرے سے بولا:
”اب انہی کے ساتھ زندگی گزرے گی۔ عبداللہ! تم ابھی تک نہیں سمجھ پائے کہ کیا ہورہا ہے۔ آزمائش ختم ہوچکی ہے۔ دھوکہ ختم ہوگیا ہے۔ اب زندگی شروع ہورہی ہے جس میں اچھے لوگ اچھے لوگوں کے ساتھ رہیں گے اور برے لوگ ہمیشہ برے لوگوں کے ساتھ رہیں گے۔“
اصل میں بات یہ تھی کہ میں ابھی تک شاک سے نہیں نکل سکا تھا۔ دراصل ابھی تک نئی دنیا کا سارا تعارف عالمِ برزخ میں ہوا تھا۔ وہ ایک نوعیت کی روحانی دنیا تھی۔ مگر یہاں حشر میں تو سب کچھ مادی دنیا جیسا تھا۔ میرے ہاتھ پاو¿ں، احساسات، زمین آسمان ہر چیز وہی تھی، جس کا میں پچھلی دنیا میں عادی تھا۔ وہاں میرا گھر تھا، گھر والے تھے، میر امحلہ، میرا علاقہ، میری قوم۔۔۔ یہ سب سوچتے سوچتے میرے ذہن میں ایک دھماکہ ہوا۔ میں نے رک کر صالح کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیا:
”میرے گھر والے کہاں ہیں؟ میرے رشتہ دار، احباب سب کہاں ہیں؟ ان کے ساتھ کیا ہوگا؟ وہ نظر کیوں نہیں آرہے؟“
صالح نے مجھ سے نظریں چراکر کہا:
”جن سوالوں کا جواب مجھے نہیں معلوم وہ مجھ سے مت پوچھو۔ آج ہر شخص تنہا ہے۔ کوئی کسی کے کام نہیں آسکتا۔ اگر ان کے اعمال اچھے ہیں، تو یقین رکھو وہ تم سے آملیں گے۔ ان کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہوگی۔ اور اگر ایسا نہ ہوا تو۔۔۔ “
صالح جملہ نامکمل چھوڑ کر خاموش ہوگیا۔ اس کی بات سن کر میرا چہرہ بھی بجھ گیا۔ اس نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر میرا حوصلہ بڑھایا اور کہا:
”اللہ پر بھروسہ رکھو۔ تم خدا کے لشکر میں لڑنے والے ایک سپاہی تھے۔ اس لیے پہلے ا±ٹھ گئے ہو۔ باقی لوگ ابھی اٹھ رہے ہیں۔ انشائ اللہ وہ لوگ بھی خیر کے ساتھ تم سے مل جائیں گے۔ ابھی تو تم آگے چلو۔“
اس کی تسلی سے مجھے کچھ حوصلہ ہوا اور میں سبک رفتاری سے اس کے ساتھ چلنے لگا۔
ہم ہوا کے نرم و تیز جھونکوں کی مانند آگے بڑھ رہے تھے۔ اس چلنے میں کوئی مشقت نہ تھی بلکہ لطف آرہا تھا۔ نجانے ہم نے کتنا فاصلہ طے کیا تھا کہ صالح کہنے لگا:
”عرشِ الٰہی کے سائے میں مامون علاقہ شروع ہونے والا ہے۔ وہ دیکھو! آگے فرشتوں کا ایک ہجوم نظر آرہا ہے۔ ان کے پیچھے ایک بلند دروازہ ہے۔ یہی اندر داخلے کا دروازہ ہے۔“
میں نے صالح کے کہنے پر سامنے غور سے دیکھا تو واقعی فرشتے اور ان کے پیچھے ایک دروازہ نظر آیا۔ مگر یہ عجیب دروازہ تھا جو کسی دیوار کے بغیر قائم تھا۔ یا شاید دیوار غیر مرئی تھی کیونکہ دروازے کے ساتھ پیچھے کی سمت کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ گویا ایک نظر نہ آنے والا پردہ تھا جس نے دروازے کے پیچھے کے ہر منظر کو ڈھانپ رکھا تھا۔
ان کے بیچ سے گزر کر ہم دروازے کے قریب پہنچے تو وہ خود بخود کھل گیا۔ اس کے کھلتے ہی میری نظروں کے سامنے ایک پرفضا مقام آگیا۔ یہاں سے وہ علاقہ شروع ہورہا تھا جہاں عرشِ الٰہی کی رحمتیں سایہ فگن تھیں۔ روح تک اتر جانے والی ٹھنڈی ہوائیں اور مسحورکن خوشبو مجھے چھونے لگی تھیں۔ ہم دروازے سے اندر داخل ہوئے تو دیکھا کہ دور تک فرشتے قطار در قطارکھڑے تھے۔ ان کے چہرے بے حد دلکش تھے اور اس سے کہیں زیادہ خوبصورت مسکراہٹ ان کے چہروں پر موجود تھی۔ یہ ہاتھ باندھے مو¿دب انداز میں کھڑے تھے۔ ہم جیسے ہی ان کے بیچ سے گزرے، دعا و سلام اور خوش آمدید کے الفاظ سے ہمارا خیر مقدم شروع ہوگیا۔ ان کے رویے اور الفاظ کی تاثیر میری روح کی گہرائیو ںمیں اتر رہی تھی اور ان کے وجود سے اٹھنے والی خوشبوئیں میرے احساسات کو سرشار کررہی تھیں۔
قطار کے اختتام پر کھڑا ایک وجیہ فرشتہ، جو اپنے انداز سے ان سب کا سردار معلوم ہوتا تھا، میرے پاس آیا اور میرا نام لے کر اس نے مجھے سلام کیا۔ میں نے سلام کا جواب دیا۔ پھر وہ بہت نرمی اور محبت سے بولا:
”ہمیشہ باقی رہنے والی کامیابی مبارک ہو!“
میں نے جواب میں شکریہ ادا کیا ہی تھا کہ وہ دوبارہ بولا:
”کیا آپ آئینہ دیکھنا پسند کریں گے؟“
میری سمجھ میں نہیں آیا کہ اس نے یہ بات مذاق میں کہی تھی یا سنجیدگی سے۔ کیوں کہ اس وقت آئینہ دیکھنے کی کوئی معقول وجہ مجھے سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔ تاہم اس نے میرے جواب کا انتظار نہیں کیا۔ ایک فرشتے کو اشارہ کیا اور اگلے ہی لمحے میرے سامنے ایک قدِ آدم آئینہ تھا۔ میں نے اس آئینے کو دیکھا اور مجھے یقین ہوگیا کہ اس نے میرے ساتھ مذاق کیا تھا۔ کیونکہ یہ آئینہ نہیں بلکہ ایک انتہائی خوبصورت اور زندگی سے بھرپور پینٹنگ تھی جس میں ایک خوبصورت نوجوان بلکہ شہزادہ شاہانہ لباس زیب تن کیے کھڑا تھا۔ یہ تصویر کسی بھی اعتبار سے تصویر نہیں لگ رہی تھی بلکہ یوں محسوس ہورہا تھا کہ جیسے آئینے کے سامنے کوئی انسان زندہ کھڑا ہوا ہے۔
میں نے اس فرشتے کی طرف دیکھا اور مسکرا کر کہا:
”آپ اچھا مذاق کرتے ہیں، مگر پینٹنگ اس سے زیادہ اچھی کرتے ہیں۔ مصور تو آپ ہی معلوم ہوتے ہیں، لیکن اس میں ماڈل کون ہے؟“
فرشتے نے انتہائی سنجیدگی سے میری بات کا جواب دیا:
”پینٹر تو ’المصور‘ یعنی مالک ذوالجلال ہے۔ البتہ ماڈل آپ ہیں۔“
ہم آگے کی سمت بڑھ رہے تھے۔ میری زندگی کے شب و روز اور اس میں پیش آنے والے مسائل اب میرے لیے خواب و خیال ہوچکے تھے۔ مجھے یہ اندازہ تو زندگی ہی میں ہوچکا تھا کہ آخرت کی بازی میں جیت جاو¿ں گا۔ مگر اس جیت کا مطلب اتنا شاندار ہوگا، اس کا مجھے بالکل بھی اندازہ نہیں تھا۔
”تمھیں ابھی پورا ندازہ نہیں ہوا ہے۔“، صالح پتہ نہیں کس طرح میرے خیالات پڑھ رہا تھا۔ اس کے جملے نے مجھے چونکادیا۔ اس نے اپنی بات جاری رکھی:
”اصل زندگی تو ابھی شروع ہی نہیں ہوئی۔ ابھی تو تم حشر کے عارضی مرحلے میں ہو۔ اصل زندگی تو درحقیقت جنت میں شروع ہوگی۔ ا±س وقت خدا کا بدلہ دیکھنا۔ ا±س وقت خدا کو داد دینا۔ سرِ دست تو آگے دیکھو، ہم کہاں کھڑے ہیں۔“
 ہم اس وقت ایک وسیع و عریض اور سرسبز و شاداب میدان میں تھے۔ آسمان پر سورج چمک رہا تھا۔ اس میں روشنی تھی پر دھوپ نہ تھی۔ آسمان پر کہیں بادل نہ تھے، مگر زمین پر ہر جگہ سایہ تھا۔ زمین سبز تھی۔ شاید اسی کے اثر سے آسمان نیلگوں کے بجائے سبزی مائل ہورہا تھا۔ میدان کے وسط میں ایک فلک بوس پہاڑ تھا۔حقیقتاً فلک بوس۔ کیونکہ اس کی چوٹی جہاں سے ہم کھڑے دیکھ رہے تھے، آسمان میں پیوست لگ رہی تھی۔ فضا میں ہر طرف بھینی بھینی خوشبو مہک رہی تھی۔ یہ خوشبو ہر اعتبار سے بالکل نئی مگر انتہائی مسحورکن تھی۔ ہماری سماعت ہمیں ان نغموں کا احساس دلارہی تھی جو کانوں میں رس گھولنے والی موسیقی کے ساتھ چار سو بکھرے ہوئے تھے۔ مجھے یہ لگ رہا تھا کہ یہ خوشبو اور یہ موسیقی میری ناک اور کان کے راستے سے نہیں بلکہ براہِ راست میرے اعصاب تک پہنچ رہی ہے۔ اس کی تاثیر میں مہک و آہنگ اور سکون و سرور کے عناصر اس خوبصورت تناسب سے یکجا تھے کہ مجھے اپنا وجود تحلیل ہوتا محسوس ہورہا تھا۔
میں ایک جگہ رک کر کھڑا ہوگیا اور آنکھیں بند کرکے اس ماحول میں گم ہوگیا۔ صالح نے میرا انہماک دیکھ کر کہا:
”اس پہاڑ کا نام اعراف ہے۔ آو¿ اس کے گرد چکر لگاتے ہیں۔ میں ساتھ ساتھ تمھیں یہاں کی ساری تفصیلات سے آگاہ کرتا رہوں گا۔“
میں جواب دیے بغیر سحر زدہ انداز میں صالح کے ساتھ ہولیا۔ ہم نے دائیں طرف سے اپنا سفر شرو ع کیا۔ ہم کچھ دور ہی چلے تھے کہ پہاڑ کے ایک حصے پر امت آدم لکھا ہوا نظر آیا۔ میں نے صالح سے پوچھا:
”کیا یہاں آدم علیہ السلام ہیں؟“
”نہیں۔ سارے نبی پہاڑ کے اوپر بلند حصے پر موجود ہیں۔ تم دیکھوگے کہ ہر تھوڑی دیر بعد اسی طرح کسی نہ کسی نبی اور اس کی امت کا نام لکھا ہوا نظر آئے گا۔ ہر امت کے نجات یافتہ لوگ۔۔۔ تمھاری طرح کے نجات یافتہ لوگ۔۔۔ یہاں آکر جمع ہوں گے۔“، اس نے جواب دیا۔
 نیچے سے جو جگہ ایک چوٹی لگتی تھی وہ ایک ہموار سطح مرتفع تھی۔ تاہم اس ہموار زمین پر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر بلند و بالا قلعہ نما تعمیرات بنی ہوئی تھیں۔ تاہم ان کے اردگرد کوئی دیوار تھی اور نہ ان میں دروازے ہی موجود تھے۔ اس لیے باہر سے بھی اندر کا نظارہ کیا جاسکتا تھا۔ یہاں ہر طرف شاہانہ انداز کے خدم و حشم تھے۔ عالیشان تخت پر تاج پہنے ہوئے انتہائی باوقار ہستیاں بیٹھی ہوئی تھیں۔ ان کے اردگرد اسی شان کے لوگ شاہانہ نشستوں پر براجمان تھے۔ میں نے صالح سے ان بلند تعمیرات کے متعلق پوچھا تو اس نے کہا:
”یہ مختلف انبیا کی عارضی قیام گاہیں ہیں۔ انھی کی بنا پر اس پہاڑ کو اعراف کہا جاتا ہے۔ تم تو جانتے ہو کہ اعراف کا مطلب بلندیوں کا مجموعہ ہے۔“
میں نے اثبات میں سر ہلایا۔ وہ گفتگو کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے بولا:
”تخت پر بیٹھے ہوئے حضرات انبیاے کرام ہیں۔ اور ان کے اردگرد بیٹھے لوگ ان کی امت کے شہدا اور صدیقین ہیں۔ صدیقین وہ لوگ ہیں جنہوں نے نبیوں کی زندگی میں ان کا ساتھ دیا اور شہدا وہ لوگ ہیں جنہوں نے انبیا کے بعد ان کی دعوت کو آگے پہنچایا۔ یہ سب وہ لوگ تھے جو دنیا میں خدا کے لیے جیے اور اسی کے لیے مرے۔ اسی کے صلے میں یہ لوگ آج اس عزت و سرفرازی سے ہمکنار ہوئے ہیں جس کا مشاہدہ تم اس وقت کررہے ہو۔“
”کیا یہ ممکن ہے کہ انبیا علیھم السلام سے میری ملاقات ہوسکے؟“، میں نے پوچھا۔
”سب سے ملاقات کا وقت تو نہیں لیکن کچھ سے ضرور مل سکتے ہیں۔“
اس نے جواب دیا اور پھر ایک ایک کرکے خدا کے جلیل القدر پیغمبروں سے میری ملاقات کرانی شروع کی۔ وہ پیغمبر جو میرے لیے عظمتوں کا نشان تھے، میں ان سے مل رہا تھا۔ آدم، نوح، ہود، صالح، اسحاق، یعقوب، یوسف، شعیب، موسیٰ، ہارون، یونس، داو¿د، سلیمان، زکریا، یحےیٰ، عیسیٰ اور سب سے بڑھ کر ابو الانبیا سیدنا ابراہیم علیہم السلام۔ سب نے گلے لگاکر اور میری پیشانی پر بوسہ دے کر میرا استقبال کیا اورمجھے مبارکباد دی۔
ان جلیل القدر ہستیوں سے کچھ گفتگو کے بعد ہم آگے روانہ ہوگئے، مگر مجھے دوران گفتگو یہ احساس ہوا تھا کہ سب لوگ ایک نوعیت کے تفکر میں مبتلا ہیں۔ راستے میں صالح سے میں نے اس کی وجہ پوچھی تو وہ بولا:
”تمھیں نہیں معلوم اس وقت حشر کے میدان میں کیا قیامت برپا ہے۔ اس وقت ہر نبی پریشان ہے کہ انسانیت کا کیا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب کی شدت اتنی زیادہ ہے کہ ان انبیا میں سے کوئی بھی نہیں چاہتا کہ اس کی امت عذاب الٰہی کا سامنا کرے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو معاف کردیں۔ مگر سرِ دست اس کا کوئی امکان نہیں۔ ایسی کوئی دعا کی جاسکتی ہے اور نہ اس کی اجازت ہے۔ لوگ سیکڑوں برس سے خوار و خراب ہورہے ہیں اور سرِدست حساب کتاب شروع ہونے کا بھی کوئی امکان نہیں ہے۔“
”سیکڑوں برس؟ کیا مطلب! ہمیں تو اندر آئے ہوئے بمشکل ایک دو گھنٹے گزرے ہوں گے۔“، میں نے چونک کر تعجب سے کہا۔
”یہ تم سمجھ رہے ہو۔ آج کا دن کامیاب لوگوں کے لیے گھنٹوں کا ہے اور باہر موجود لوگوں کے لیے انتہائی سختی و مصیبت کا ایک بے حد طویل دن ہے۔ باہر صدیاںگزر گئی ہیں۔ مگر تم ابھی یہ بات نہیں سمجھو گے۔“، اس نے وضاحت کرتے ہوئے جواب دیا۔
میں اس کی بات کو ہضم نہیں کرسکا، مگر ظاہر ہے میں جس دنیا میں تھا وہاں سب کچھ ممکن تھا۔ اور نجانے اور کتنی تعجب انگیز باتیں میرے سامنے آنے والی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ خبریں