جیل گھر ۔۔۔یاجائے عبرت

فضل حسین اعوان
کولمبیئن مافیا کے سرغنہ پابلو اسکوبار کودنیا کا سب کا بڑا مجرم مانا جاتا ہے جو ایک موقع پر دنیامیں امیرترین تھا۔ ایکبار کمپنگ کیلئے گیا، ریزارٹ میں ایندھن ختم ہو گیا،اس نے بچوں کو سردی سے بچانے کیلئے 20 روڑ ڈالر کے نوٹ انگیٹھی میں جلا دئیے ۔وہ 80 ٹن کوکین ماہانہ امریکہ اسمگل کرتا تھاجس سے سالانہ 20 بلین ڈالر حاصل ہوتے۔ پابلو نے عدالتوں سے لے کر پولیس اور سیاست دانوں سمیت بہت سوں کو زیردام رکھا ہوا تھا تاہم راستے میں آنیوالے 200ججوں، ایک ہزار سے زائد پولیس اہلکاروں کو مروایا۔ پابلو نے اپنے دوستوں کو بتایا کہ وہ کولمبیا کا صدر بننا چاہتا ہے، اس نے انتخابات میں حصہ لیا اور جیت گیا۔ امریکہ اسکا سخت مخالف تھا،جس کا اسکی گرفتاری کیلئے کولمبیا پر دباﺅ تھا جو ناقابل برداشت ہوگیاتو حکومت نے پابلو کو”مجبوری“ سے آگاہ کیاجس نے سرنڈر کرنے پرمشروط رضامندی ظاہرکی۔ اس نے خود محل نما جیل بنائی جس کے اندر اور باہر کئی میل دور تک حفاظت کیلئے اپنی پولیس تعینات کر دی۔ جیل میں فائیو سٹار ہوٹل کی سہولتیں میسر تھیں۔جیل کے تمام اخراجات اسکے ذمے تھے۔امریکہ کا مزید دباﺅ بڑھا تو حکومت نے اسے سرکاری جیل میں منتقل کرنے کی کوشش کی،اس پر وہ آمادہ نہ تھااور موقع پاکر اپنی جیل سے سرنگ کے ذریعے فرار ہو گیا
یہ ساری کہانی پاکستان میں اتفاقات کے شاہکار جن کو اتفاقات نواب شاہ سے اٹھا کر ایوان صدر لے گئے،ان پر تھوڑی تھوڑی منطبق ہوتی ہے۔۔ ان کا سٹیٹس بدلا زندگی بدلی مگر مائنڈ سیٹ نہ بدل سکا۔ کہتے ہیں عمر ڈھلتے ، سٹیٹس بدلتے، تعلیم یافتگی کے بعد بھی جو بندہ نہیں بدلتا اسے بس ”شریف زادہ“ ہی سمجھیں۔ سیاست میں آنے سے پہلے آصف زرداری جیل گئے یا نہیں، سیاست میں آنے کے بعد بار بار اور کئی بار گئے۔ اتنی بار اور اتنا عرصہ جیل میں رہے کہ گزشتہ دنوں جب ان کے خلاف مسلم لیگ ن دور میں بنائے گئے مقدمات سے گرد جھاڑی جا رہی تھی تو ان کی طرف سے برملا کہا جاتا تھا۔ ”ہمیں جیل سے نہ ڈرایا جائے یہ ہمارا دوسرا گھر ہے۔“اس میں تو شک نہیںاپنا گھر جنت ہوتا ہے۔ ان کے ساتھیوں پر پہلے ہاتھ ڈالا گیا تو نیب کو مخاطب کر کے کہا ،مجھے ہاتھ لگا کے دکھاﺅ، اس سےلگتا تھا ان پر ہاتھ ڈالا گیا تو آسمان گر پڑے گا مگر پورے ملک میں ایک پتہ بھی نہیں ہلا، کوئی طوفان بلاخیز بھی نہیں اُٹھا۔ نیب اور اس کے سربراہ بدستور اپنے کام میں ”مصروف “ ہیں۔ ماضی میں جب جیل کاٹی تو آتش جواں اورقویٰ مضبوط تھے،اب آتش تو کیاراکھ میں چنگاری بھی موجود نہیں، قویٰ مضمحل ہو چکے ،جیل جو کبھی گھر لگتا تھا اب عقوبت خانہ نظر آتا ہے۔ نیب کے پاس رہے تو عدالت جا کر شکایت کی انہیں عید کی نماز تک پڑھنے نہیں دی گئی دیگر نمازوں میں بھی رکاوٹ ڈالی جاتی ہے۔ زرداری اور تہجد گزاری؟ فریال آپا اسی نیب کی مہمان بنے رہنا چاہتی تھیں، انہیں ان کی خواہش کے برعکس نیب کی حراست سے جیل منتقل کیا گیا تو وہ ہسپتال داخل ہو گئیں ”بیماری“ میں ڈاکٹروں کی رائے میں افاقہ ہوا تو انہوں نے ڈسچارج کر دیا مگر فریال بدستور بیمار رہنے کی حسرت لیے ہوئی تھیں، انہیں جیل منتقل ہونا پڑا جس پر بلاول مسئلہ کشمیر پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے اباجی اور پھوپھو کی جیل مشکلات پرآگ بگولہ ہو گئے۔ خاندانی معاملہ مسئلہ کشمیر پر بھاری پڑی گیا۔ مریم نواز کی گرفتاری پر بھی بلاول کے سینے پر غصے میں سانپ لوٹنے لگا، وہ ہوش سے بیگانہ ہو کر گالیاں بکنے لگے، کہا ”عورتوں کو پکڑتے ہو مردوں سے مقابلہ کرو“۔ مردوں سے بھی مقابلہ جاری ہے، کتنے مرد اندر ہیں، آپ کی باری بھی شاید دور نہیں۔ یہ کوئی ظلم زیادتی اور انتقام نہیں اپنے اعمال کا نتیجہ اور کرموں کا پھل ہے۔ ریان علی کو گرفتار کیا گیا تو انکل نواز شریف کو بھی احترام نسواں اور غیرت کا درس دے دیتے۔ ”قابل فخر“ ہے وہ لیڈر شپ جو عمر کے ایسے حصے میں ہونے کے باوجود جب انسان کی اللہ سے لو لگی ہوتی ہے وہ بلاول کے حضور دست بستہ سر جھکائے کھڑے ہوتے ہیں گویا یہ علامہ اقبال کے دعائیہ اشعار کا سراپاہیں۔
جوانوں کو پیروں کا استاد کا
آصف زرداری جیل سے عدالت پیش ہوئے تو جیل عملے کی بھی شکایت کی وہ تنگ کرتا ہے۔ وہ کان میں سیٹیاں بجاتے ہیں یا رات کو مجرا کرنے لگ جاتے ہیںیازندہ ہے بی بی ہے کے نعرے لگاتے ہیں۔ جیل کو گھر کہنے والوں کو گھر جیسی سہولتیں فراہم کر دی گئی ہیں۔ جیل میں اے کلاس مانگی، جو، اب اس لیے دستیاب نہیں کہ جیلوں میں سب قیدیوں کا سٹیٹس اپ کر دیا گیا ہے لہٰذا زرداری صاحب اور فریال صاحبہ کو اپنے خرچے پر فائیو سٹار سہولتیں فراہم کر دی گئیں۔ جیل میں ان کو اے سی ، فریج، ٹی وی، ریڈیو، آئی پیڈ، ککر، ٹوسٹر، ٹارچ، استری اور اٹینڈنٹ سب میسر ہے۔ جیل عبرت گاہ ہوتی ہے، اب یہ شریف شہریوں کیلئے موٹیویشن اور حوصلہ مندی کے باعث ہوگی۔ اپنے خرچے تو ایسے قیدی بھی ہیں جو اسکو بار کی طرح فائیو سٹار سہولتوں سے مزین جیلیں بھی تعمیر کرا سکتے ہیں۔ ایسے دھنوانوں میں زرداری‘ فریال تالپور‘ نواز‘ مریم‘ شہباز شریف‘ حمزہ اور شاہد خاقان عباسی سمیت بہت سے ہیں۔ اسکو بار اور زرداری کا جغرافیہ تو نہیں کچھ ہسٹری اور کیمسٹری تھوڑا تھوڑا ملتی ہے۔ وہ صدر بننا چاہتا تھا یہ صدر بن گئے۔ اس نے ایک رات میں 20 کروڑ ڈالر کے نوٹ جھونک دیئے زرداری صاحب کے پاس ڈالروں کی اس سے زیادہ بہتات ہے۔ اتنے ڈالر کہ چھ ماہ تک ایک شوگر مل ان کے ایندھن سے چلا سکتے ہیں اور شریف زادوں کے پاس ان سے زیادہ نہیں تو کم دولت بھی نہیں ہے۔ ان کی بھی کئی شوگر ملیں ہیں۔ ان نوٹوں کی آگ سے دھواں نہیں شاید خون بھاپ بن کر اُڑے گا! کس کا !
اُدھر جنرل باجوہ کویک نہ شد دو نہ شد یکمشت تین سال کی توسیع دیدی گئی۔ جنرل راحیل شریف کے جانشین نے اپنے پیشرو کی کسی کو یاد نہیںآنے دی۔ ان سے بڑھ کر کارکردگی دکھائی۔ جنرل راحیل نے دہشت گردی اور کرپشن کا گٹھ جوڑ توڑنے کا عہد ضرور کیا مگر ان کے” استادوں“ نے اس طرف قدم نہ بڑھانے دیا۔ جنرل باجوہ نے وہ گٹھ جوڑ توڑ کر رکھ دیا۔ کرپٹ مافیا کے گھروں میں صف ماتم بچھی ہے مگر مزید عتاب آنے کے خوف سے دبکے ہوئے ہیں۔ جنرل راحیل شریف اپنی ماہرانہ وراثت جسے لیگیسی کہتے ہیں مکمل طورپر اپنے جانشین کے حوالے کی۔ ان کی طرف سے بھی یقینا ایسا ہی کیا گیا مگر حالات ایسے آن پڑے کہ ان کی مدت ملازمت میں توسیع کرنا پڑی جو زیادہ سے زیادہ 6 ماہ حد ایک سال ہوتی تو بہتر تھا تین سال کچھ ز یادہ ہی مدت ہے۔ جنرل باجوہ کی خدمات کا اعتراف اس طرح بھی کیا جا سکتا ہے جس طرح بھارت چیف آف ڈیفنس سٹاف کا کررہاہے۔چونکہ یہ عہدہ پہلی بارکسی کو دیا جانا ہے اس لیے اسے کسی نئے جرنیل پر آزمانے یا کسی نئے جرنیل کے پرانا ہونے تک انتظار کرنے کے بجائے جنرل بپن راوت کے سر سجایا جا رہا ہے،حالانکہ جنرل راوت اپنی ”کارکردگی“ جس میں ابھی نندن دھنائیاور پاک فضائیہ کے ان کا نشانے پر آنا شامل ہے،اس پر تویہ کورٹ ماشل کے ذریعے موت کا حقدار ہے ۔