نیب کے پر!

2018 ,دسمبر 7



حیران کن خبر ہے کہ قیصر امین بٹ نے خواجہ سعد رفیق اور سلمان رفیق کےخلاف گواہی دینے کے بعد احتساب عدالت سے استدعا کی کہ انہیں مزید ریمانڈ پر نیب کے حوالے کر دیا جائے۔ قیصر امین بٹ کو آزاد زندگی گزارنے سے خوف ہے یا نیب نے ان کو مراعات ایسی دے رکھی ہیں کہ ان کا آزاد ہونے کو دل ہی نہیںکرتا۔ اگر ان کو خوف ہے تو کس سے ہے؟ خواجہ سعد رفیق نے گزشتہ دنوں کہا تھا کہ وہ جیلوں سے نہیں ڈرتے‘ حفاظتی ضمانت کی مدت پوری ہوتے ہی مزید ضمانت کیلئے ہائیکورٹ جانا خواجہ صاحب کی دلیری اور جیل جانے سے نہ ڈرنے کی ”اٹل حقیقت“ کا اظہار ہے۔ خواجہ صاحب کے قیصر امین بٹ کو ان کیخلاف وعدہ معاف گواہ بنانے کے خدشات بھی درست ثابت ہوئے۔ انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ قیصر کو ان کیخلاف استعمال کرنے کیلئے منشیات استعمال کروائی جارہی ہیں۔ ان کا بلڈ ٹیسٹ کرالیا جائے تو سچائی سامنے آجائیگی۔لیکن آجکل میڈیکل ٹیسٹوں میں بھی زور بازو کام آتا ہے‘شراب شہد میں بدل جاتی ہے۔

پیپلزپارٹی نیب پر برس جبکہ مسلم لیگ (ن) پلٹ کر جھپٹ رہی ہے۔ نیب آرڈیننس کو کالا قانون کہا جا رہا ہے۔ آصف علی زرداری نیب سے زیادہ ہی خوفزدہ نظرآئے۔ وزیراعظم عمران خان کو آڑے ہاتھوں لیا اور میاں نوازشریف کو بھی نہیں بخشا۔ کہتے ہیں نوازشریف نے احتساب کمیشن میرے لئے بنایا‘ لیکن شکار خود ہوگئے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو پچھتاوا ہے کہ وہ نیب کا کالا قانون ختم کیوں نہ کر سکی۔ مسلم لیگ (ن) نے نیب قانون نیک نیتی سے بنایا ہوتا تو اسکے خاتمے کی سوچ جنم نہ لیتی۔ اٹھارہویں ترمیم پی پی پی حکومت نے مسلم لیگ (ن) کے تعاون سے منظور کرائی۔ اس میں نیب کے حوالے سے دو تبدیلیاں تجویز کی گئیں۔ ریمانڈ نوے روز کے بجائے 14 روز کر دیا جائے۔ احتساب عدالت کے بجائے مقدمات سیشن کورٹ میں چلیں۔ مسلم لیگ (ن) کو ان تجاویز میں اپنی ذہنیت نظر آئی جس کے تحت یہ قانون اس وقت کی دشمن نظر آتی مخالف پی پی پی کے لیڈروں کے گرد شکنجہ کسنا مقصود تھا اسلئے بھی ان تبدیلیوں کی مخالفت کی گئی کہ زرداری نیب سے بچ نہ پائے مگر اب تخلیق کار نیب خود کالے قانون کی گرفت میں آیا چاہتے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی حکومت کو بار بار مفاہمت اور مل کر چلنے کا پیغام دیتی ہیں مگر تحریک انصاف جس کے پاس اپوزیشن کے مقابلے میں تین چار سیٹوں ہی کی برتری ہے۔ اسے قانون سازی اور اپنے پروگرام پر عمل کیلئے (ن) لیگ اور پی پی پی میں سے ایک پارٹی کے ساتھ کی اشد ضرورت ہے لیکن تحریک انصاف کی کمزور حکومت انکے ساتھ ہاتھ ملانے اور ساتھ بٹھانے کی روادار نہیں‘ شاید پس پشت تگڑا ہاتھ ہے۔ مفاہمت سے حکومتی انکار پران پارٹیوں کی لیڈرشپ کا پارہ چڑھنا فطری امر ہے۔ دھاندلی کے الزامات کے تحت مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کرتی رہی ہیں۔ عمران خان نے مڈٹرم الیکشن کی بات کی جس پر اپوزیشن کو جشن منانا چاہئے تھا مگر وہ تپ گئی۔ نوازشریف نے بہرحال خوشی سے خٹک ڈانس ضرور کیا ہے۔ زرداری صاحب سے کوئی سوال کرے کہ دھاندلی نہ ہوتی تو پیپلزپارٹی کی کتنی نشستوں میں اضافہ ہونا تھا؟ کیا یہ پنجاب اور مرکز میں حکومت بنانے کی پوزیشن میںہوتی۔

زرداری عمران پرخوب برسے ہیں‘ فرمایا عمران کو اگلا وزیراعظم جیل بھیجے گا۔ ان سے جیل برداشت نہیں ہو گی۔کتنے فخر کی بات کی کہ ہم جیل میں زندگی گزار چکے ہیں۔ کن کیسوں میں؟ کوئی قتل کا کیس‘ کوئی کرپشن کا اور اب منی لانڈرنگ کا آئینہ نیب اور سپریم کورٹ نے دکھایاہے۔ اگلا وزیراعظم محض اسلئے عمران کو جیل ڈال دےگا کہ اس نے کرپٹ لوگوں سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ وہ ایسے وزیراعظم کا پاگل پن ہوگا۔عمران خان سمیت جو بھی شخص جیل جانے سے ڈرتا ہے‘ وہ ایسا کام ہی نہیں کریگاجو جیل جانے کا سبب بنے۔ جیل جانے سے نہ ڈرنے اور جیل جانیوالے کام کرنےوالا اگر بہادر ہے تو زرداری صاحب بہادروں کے سرخیل ہیں۔

مریم اورنگزیب نے خواجہ سعد رفیق کی بات دہرائی کہ میاں شہبازشریف کو نیب نے عقوبت خانے میں رکھا ہوا ہے۔ گزشتہ روز ہائیکورٹ نے خواجہ برادران کی حفاظتی ضمانت میں 11 دسمبر تک توسیع کر دی۔ توسیع اب سمٹتی جا رہی ہے‘ دوسری طرف احتساب عدالت نے میاں شہبازشریف کے مزید ریمانڈ کے اضافے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے شہباز شریف کو جیل بھجوا دیا۔ اب شہبازشریف عقوبت خانے سے نعمت خانے چلے گئے۔ اپوزیشن تو نیب کے پر کاٹنے پر تلی ہوئی ہے ۔نیب قوانین میں بہرحال اصلاحات کی ضرورت ہے۔ موجودہ حکومت اس لئے بہتر طور پر کام کر سکتی ہے کیونکہ اسے خود کو بچانے کی فکر نہیں‘ کرپٹ عناصر کو کٹہرے میں لانے کا عزم ضرور ہے۔ اصلاحات تک بہرحال یہی قانون لاگو رہنا ہے جسکے تحت نیب جسے چاہے اٹھا لے۔ عمران خان وزراءکی کارکردگی کا جائزہ لے رہے ہیں۔ بہت سے لوگوں کی رائے ہے کہ بہترکارکردگی فواد چودھری اور فیاض چوہان کی ہے۔ حکومت کو جس طرح کی اپوزیشن کا سامنا اور اسکے ہاکس جو زبان استعمال کرتے ہیں‘ اس کا جواب بغیر کم و کاست دیا جاتا ہے۔ پہل بہرحال نہیں کی جاتی۔ اپوزیشن کے کئی لیڈر تو نفرت کی اس بلندی پر کھڑے ہوکر ایسے لب و لہجے میں سخن طراز ہوتے ہیں جو شریف لوگوں او ر خود ان کی فیملیز کے سننے کے لائق نہیں ہوتا۔

متعلقہ خبریں