برنس گارڈن یہ خوبصورت باغ 1921ءمیں کراچی میونسپلٹی نے لگوایا تھا اس میں ہر قسم کے پھولوں کے پودے اگائے گئے تھے۔ قیام پاکستان سے قبل اس میں اتنے انگور پیدا ہوئے تھے کہ انہیں بیرون ملک برآمد کیا جاتا تھا۔ یہ باغ تقریبا 25ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے کراچی میونسپل کارپوریشن کی 1936ءکی سالانہ رپورٹ میں اس باغ کے بارے میں یوں تحریر کیا گیا تھا۔ یہ باغ گاندھی گارڈن سے زیادہ پرانا لگتا ہے ایک ایسا وقت بھی تھا کہ جب یہ سپرنٹنڈنٹ کراچی جیل کے کنٹرول میں تھا اس باغ کا ترقیاتی کام 1921ءمیں شروع ہوا تھا۔ یہ اب بھی کراچی شہر کا یک خوبصورت باغ ہے اس باغ میں قومی عجائب گھر بھی واقع ہے۔ رام باغ
یہ کراچی شہر کا پرانا تفریحی باغ اور گراونڈ ہے اس کے کچھ حصے پر سبزہ اور پھولوں کی کیاریاں ہیں یہ قیام پاکستان سے قبل ہندووں کے مذہبی اجتماعات کے لیے مخصوص تھا تاہم یہاں کبھی کبھی سیاسی جلسے بھی منعقد ہوتے تھے اس باغ کے بارے میں ہندووں کی مذہبی کتابوں میں درج ہے کہ رام نے ہنگلاج بلوچستان جاتے ہوئے یہاں ایک رات قیام کیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد ہندووں کے کراچی سے چلے جانے کے بعد اس باغ کا نام رام باغ سے بدل کر آرام باغ رکھ دیا گیا۔ تاریخی کلاک ٹاور
یہ کلاک ٹاور 1913میں ممبئی کے گورنر لارڈ سائڈن بیم کے دور میںکھولا گیا تھا اور اس وقت سے لے کر اب تک اس کی مرمت نہیں ہوئی تھی اب یہ تمام علاقہ دوبارہ مرمت ہونے کے بعد جس کو چونے کے پتھر اور سرخ اینٹوں سے تزئین کیا گیا ہے بہت ہی خوبصورت نظارہ پیش کر رہا ہے وائس ایڈمرل خالد ایم میر چیئرمین کے پی ٹی نے کیماڑی بوٹینگ بیس پر موجود سو سال پرانے اور تاریخی کلاک ٹاور جس کی حال ہی میں کے پی ٹی انتظامیہ نے دوبارہ مرمت کرکے اس کی اصل شان و شوکت کو بحال کیا کا افتتاح کیا۔ کلفٹن
یہ مقام تاریخی اہمیت کا حامل ہے سکندر اعظم کا سپہ سالار نیارکسس اپنے وطن یونان واپس جاتے ہوئے 326ءقبل از مسیح میں سمندری طوفان سے بچنے کے لیے اپنے لشکر کے ساتھ یہاں سے گزر کر کیماڑی یا منوڑے کی جانب گیا تھا اس دور کے ایک نقشے میں کلفٹن کے علاقے کو واضح طور پر دکھایا گیا ہے اور اسےایروز کا نام دیا گیا ہے۔ ناومل ہوت چند کے مطابق یہ علاقہ کسی زمانے میں کیماڑی سے ملا ہوا تھا اور درمیان میں سمندر حائل نہ تھا مگر بعد میں ایک شدید زلزلے کی وجہ سے یہ علاقہ کیماڑی سے علیحدہ ہوگیا تھا۔ اس علاقے کے قریب ہی نرگسی بندر واقع تھی جو ایک طویل عرصے تک رسل و رسائل کا اہم ذریعہ رہی۔ کراچی پر انگریزوں کے قبضے کے بعد اس علاقے کو زبردست اہمیت حاصل ہوئی۔ انگریزوں نے اس مقام کی فرحت بخش ہوا اور سمندر کی موجودگی کے دلفریب نظار سے اہل کراچی کو لطف اندوز کرانے کے لیے یہاں ضروری سہولتیں بہم پہنچائی تھیں۔ اس وقت یہاں لوگوں کو سمندر تک پہنچنے میں بڑی دقت اٹھانا پڑتی تھی کیونکہ سمندر تک پہنچنے کا راستہ پتھریلا ناہموار اور طویل تھا۔ چنانچہ سمندر تک پہنچنے کے لیے ابتداءمیں ایک لکڑی کا پل تعمیر کیا گیا تھا۔ بعد میں کراچی کے ایک مخیر شخص سر جہانگیر کو ٹھاری نے تین لاکھ روپے کے مصارف سے لیڈی لائڈ پائر یعنی موجود ہ خوبصورت پتھر کا پل نما راستہ 1921میں تعمیر کروایا۔ پھر کراچی میونسپلٹی نے یہاں باغ لگوایا اور بیٹھنے کے لیے بینچوں کا انتظام کیا تاکہ لوگ ان پر بیٹھ کر بحیرہ عرب کے دلفریب موجوں کا نظارہ کر سکیں اور یہاں کی بھیگی بھیگی ہوا سے لطف اندوز ہوسکیں۔ اس علاقے کے کلفٹن نام کے بارے میں الیگزینڈر الیف بیلی اپنی تصنیف
Kurrachee Post preasentand Future
میں رقم طراز ہے کہ یہ نام سندھ پر قبضہ کرنے والے انگریز جنرل چارلس نپیئر کی جائے ولادت سے منسوب ہے مگرآئی این ایلین لکھتا ہے کہ اس مقام کا کلفٹن کی یورپین لیڈی نے رکھا تھا۔ الیگزینڈر ایف بیلی نے اپنی کتاب میں جو آج سے تقریبا: سو سال قبل شائع ہوئی تھی۔ حضرت عبد اللہ شاہ غازی کے مزار کے علاوہ یہاں کے زمین دوز شوا مندر کا بھی ذکر کیا ہے۔ 27مئی 1970ءکے روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق کراچی کے آباد ہونے سے تقریباً تین سو سال قبل کلفٹن سے ملحق علاقے سے باتھ آئی لینڈ میں ایک ”دلورائی“ نامی راجا کی حکومت تھی۔ انڈس بوٹ سفاری
ایکوٹورازم پاکستان میں ایک نیا تصور ہے جس کے فروغ کے لیے ایڈونچر فاونڈیشن پاکستان باقاعدہ ایک پروجیکٹ ”انڈس ڈولفن بوٹ سفاری“ کے تحت کام کر رہا ہے اس پروجیکٹ کے لیے مالی تعاون یو این ڈی پی نے فراہم کیا ہے اس کے تحت دریائے سندھ میں روایتی کشتیوں کے ذریعے سفر اور دریائی جاندار خصوصاً انڈس ڈولفن کا نظارہ کیا جاتا ہے پروجیکٹ کے مقاصد میں ایکو ٹورازم کے فروغ کے علاوہ خطرات سے دو چا ر انڈس ڈولفن کے تحفظ میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کی شمولیت ہے یہ پروجیکٹ کئی اعتبار سے بہت مفید ہے اس منصوبے کی کامیابی زیادہ سیاحوں کو لائے گی اور اگر آلودگی سے متعلق معاملات نہیں سلجھائے گئے تو انڈس ڈولفن متاثر ہوسکتی ہے۔ مسجد طوبیٰ
مسجد اللہ کا گھر ہے جو لوگ مسجدوں کو آباد کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے گھروں کو شاد و آباد کرتا ہے مسجد مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت کا امتیازی نشان ہے کراچی میں بے شمار مسجدیں ہیں لیکن مسجد طوبیٰ کراچی ہی نہیں دنیا بھر میں اپنی مثال آپ ہے اس مسجد کا گنبد دنیا کا سب سے بڑا گنبد ہے دنیا بھر کی کسی اور مسجد میں اس سے بڑا گنبد موجود نہیں۔ اس مسجد کو دیکھے بغیر کراچی کی سیر ادھوری ہے یہ حسین ترین مسجد ڈیفنس فیز 11کے علاقے میں ہے۔ قائد اعظم انٹرنیشنل ائیرپورٹ
کراچی آمدرفت کے تمام ذرائع سے دنیا بھر کے ساتھ منسلک ہے برصغیر کا پہلا ہوائی اڈہ 1924میں کراچی ہی میں تعمیر ہوا۔ اس وقت یہ ہوائی اڈہ شہر سے خاصا دور سمجھا جاتا تھا مگر یہی ہوائی اڈہ جو آج ”قائد اعظم انٹرنیشنل“ کے نام سے اپنی نئی شاندار اور پرشکوہ عمارت کے ساتھ موجود ہے شہر سے باہر نہیں بلکہ ہر طرف سے آبادیوں میں گھرا ہوا ہے ہوائی اڈے سے مرکز شہر کی طرف جانے کے لیے کراچی کی سب سے شاندار سڑک شارع فیصل ہے جو شہر کی ساری آبادیوں کو ہوائی اڈے سے ملاتی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق کراچی ہوائی اڈے پر روزانہ 180ملکی و غیر ملکی پروازوں کی آمدروفت ہوتی ہے ایشیائی علاقے کا یہ سب سے معروف فضائی مستقر تقریباً 79,000مربع میٹر رقبے پر پھیلا ہوا ہے اس کی ایک امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے چاروں جانب خوبصورت سڑکوں کا جال بچھا ہوا ہے جو مسافروں کی آمدروفت کا نہایت سہولت بخش وسیلہ بن گیا ہے۔ قائد اعظم بین الاقوامی ہوائی اڈے کی اہم ترین خوبی یہ ہے کہ یہاں بجلی فیل ہونے کا کوئی خطرہ نہیں انتظامیہ نے بجلی کا اپنا خود کار نظام قائم کر رکھا ہے اس لیے یہاں ایک لمحے کے لیے بھی بجلی نہیں جاتی اور تمام متعلقہ کام باقاعدگی اور سبک رفتاری سے انجام پاتے ہیں یہ ہوائی اڈہ پاکستان کے فنی ماہرین کے ہنر کا شہ پارہ ہے یہاں پر جدید ترین ایکسرے مشینوں اور کلوز سرکٹ کیمروں کا ایسا اعلیٰنظام قائم کیا گیا ہے کہ اس ہوائی اڈے کے حدود میں کوئی غلط کار یا تخریب کار راہ نہیں پاسکتا اس ہوائی اڈے میں محصولات سے مستثنٰی ایک عظیم الشان مرکز خریداری بھی موجود ہے۔ قائد اعظم انٹرنیشنل کا جدید ٹنل سسٹم طیاروں کو سیڑھیوں سے بے نیاز کر دیتا ہے مسافر طیارے سے باہر قدم رکھتے ہی ایک سرنگ کے ذریعے سیدھے ہوائی اڈے کی عالی شان اور جگمگاتی وسعتوں میں داخل ہو جاتے ہیں ہوائی اڈے کی سات منزلہ عمارت میں پہلی منزل پروازوں کی آمد اور دوسری صرف روانگی کے لیے مخصوص ہے بقیہ منزلوں پر انتظامی دفاتر اور آخری منزل پر ایک خوبصورت ریسٹورنٹ ہے جس میں بیٹھ کر آپ آتی جاتی پروازوں کا انوکھا نظارہ کر سکتے ہیں پرانے ہوائی اڈے کو اب کارگو ٹرمینل اور حج ٹرمینل کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ”کراچی، تاریخ کے آئینے میں“تحریر:عثمان دھموہی انڈس پبلیکیشنز، کراچی