سیاسی پیش منظر

نوے کے انتخابات میں پیپلزپارٹی میدان مارتی نظر آرہی تھی۔ یہ انتخابات بینظیر بھٹو کی حکومت توڑ کر کرائے جا رہے تھے۔ جنرل ضیاء الحق کی حادثاتی موت کے بعد انتخابات میں بینظیر کامیابی پروزیراعظم بنی تھیں۔ ان کی اپوزیشن میں سرفہرست وزیراعلیٰ پنجاب محمد نوازشریف تھے۔ جنرل ضیاء الحق نے اپنی ہی تراشیدہ جونیجو حکومت توڑی تو میاں نوازشریف کو ہی نگران وزیراعلیٰ تعینات رکھا تھا۔
میاں نوازشریف کی سربراہی میں اپوزیشن جماعتیں بینظیر بھٹو حکومت کے خلاف سرگرم رہیں۔ بینظیر بھٹو کی حکومت توڑی گئی تو ان کے اس دور میں سب سے بڑے مخالف غلام مصطفی جتوئی کو نگران وزیراعظم مقرر کیاگیا تھا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کس طرح اور کس حد تک کھل کربینظیر کے خلاف اور انہیں انتخابات میں شکست دینے پر تُلی ہوئی تھی۔ اسٹیبلشمنٹ آخر کھل کر اس حد تک کیوں چلی گئی تھی ؟؟۔ اس کا بھی ایک پس منظر تھا۔
بینظیر بھٹو کے دور میں پکا قلعہ آپریشن ہوا جو حیدرآباد میں پولیس نے ایم کیو ایم کے خلاف کیا ۔کہا جاتا ہے یہ ایم کیوایم کو پی پی پی حکومت سے اتحاد توڑنے پر سزا کیلئے کیا گیا تھا۔اس دوران خود وزیراعظم،آرمی چیف اور کور کمانڈر کراچی ملک میں نہیں تھے۔اپریشن میں خواتین اور بچوں پربربریت کی خبر شائع اور نشر ہوئیں، ایم کیو ایم ویسے بھی داستان کو بڑھانے اور واویلا کرنے میں شاطر رہی ہے۔ اس کا پراپیگنڈا اپنی جگہ مگر سب کچھ بے بنیاد بھی نہیں تھا۔پولیس کے ہاتھ روکنے کیلئے صدر اسحٰق نے فوج کو حکم دیا تھا۔فوج نے حکم پر عمل کیا۔ پولیس نے فوج کو دیکھ کر پسپائی اختیار کر لی۔ وزیراعظم بینظیر بھٹو ان دنوں انگلینڈ کے دورے سے واپس آئی تھیں۔ انہوں نے پریس کانفرنس میں پکا قلعہ آپریشن میں بازیاب ہونے والے اسلحہ کو واہ فیکٹری ساختہ قرار دیا جو صرف پاک فوج کے زیراستعمال ہوتا ہے۔محترمہ کا کہنا تھا کہ مہاجروں کو اسلحہ فوج نے فراہم کیا۔ یہ وہ دور تھا جب جنرل ضیاء کی حکومت کے خاتمے کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا۔ پی پی پی جنرل ضیاء الحق کو بھٹو کا قاتل قرار دیتی ہے۔ بینظیر بھٹو نے اسی پریس کانفرنس میں یہ بھی کہہ دیا کہ نیوکلیئر پروگرام پر فوج نے ریڈ لائن کراس کی ہے۔اس وقت پاکستان باقاعدہ ایٹمی قوت نہیں بنا تھا۔ پاکستان پر ریڈ لائن کراس کرنے کا الزام راجیو گاندھی کی بھارتی حکومت ہی لگاتی تھی اور یہ وہی دور تھا جب راجیو گاندھی پاکستان آئے اور پاکستان کے وزیراعظم ہائوس کی ڈی بگنگ بھارتی جاسوس ایجنسی ’’را‘‘ نے کی تھی۔ راجیو بینظیر ملاقات میں پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام پر بات ہوئی۔ اس میں محترمہ کا مبینہ رویہ معذرت خواہانہ تھا۔ انہوں نے ریڈ لائن کراس ہونے کو فوج کوذ مہ دار قرار دیا تھا۔ ’’را‘‘ کی ڈی بگنگ کے باوجود رات کو ان کی گفتگو کی کیسٹ صدر اسحاق خان کی میز پر تھی۔اگست 1990میں بینظیر بھٹو حکومت کے خاتمے کا صدراسحٰق اور جنرل بیگ کے پاس ایک یہ جواز بھی تھا۔
جب انتخابی مہم میں یہ لگ رہا تھا کہ بینظیر بھٹو جیت رہی ہیں توان کو نکالنے والوں کو تشویش تو ہونی ہی تھی۔اس موقع پر مقتدر حلقوں نے پھر سر جوڑااور کہا گیا، کیاان کو دوبارہ حکومت میں آنے کیلئے نکالا گیا تھا!۔ اس کے بعد آئی جے آئی بناکر بینظیر بھٹو کو شکست کا سامان کر دیا گیا۔ آئی جے آئی کی تشکیل سے آئی ایس آئی سے بالا بالا ملٹری انٹیلی جنس نے بنوائی تھی۔ اس کے رہنمائوں میں رقوم تقسیم کی گئیں۔ سندھ میں بریگیڈیئر حامد سعید اختر نے اپنے کمانڈر ڈی جی ایم آئی میجر جنرل اسد درانی کے حکم کی بجاآوری کی جس سے وہ سپریم کورٹ کو آگاہ کر چکے ہیں۔ آئی ایس آئی کے سربراہ عبدالرحمن کلو بینظیر بھٹو کا انتخاب تھے۔ کلو کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی گئی۔ میاں نوازشریف کو بھی فنڈ میں سے حصہ بقدر جثہ دیا گیا مگر میاں نوازشرف وصولی سے انکاری ہیں جبکہ بیگم عابدہ حسین نے بعدازاں یہ وصول شدہ رقم قومی خزانے میں جمع کرا دی تھی۔
اب ذرامعروضی حالات پر نظر ڈالتے ہیں۔ میاں نوازشریف وزارت عظمیٰ اور پارٹی صدارت سے نااہل قرار دیئے جا چکے ہیں۔ ان کے عظیم الشان جلسے ہو رہے ہیں۔ اس بنیاد پر دعوے کئے جا رہے ہیں کہ میاں نوازشریف دوتہائی نہیں تو سادہ اکثریت ضرور حاصل کریں گے۔ ضمنی الکشن میں پنجاب میںکامیابیوں کو بھی مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت کی وجہ قرار دیا جا رہا ہے۔ تاہم لیگی حلقے مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ میاں نوازشریف کے پیچھے پڑی ہوئی ہے۔ وہ (ن) لیگ کو جیتنے نہیں دے گی۔
اسٹیبلشمنٹ جس پارٹی کے پیچھے پڑ جائے پھر وہی ہوتا ہے جو وہ چاہتی ہے۔ میں ذاتی طورپر اتفاق نہیں کرتا کہ کوئی بھی مسلم لیگ (ن) کے پیچھے پڑا ہے اور اس کو سیاست سے آؤٹ کرنا چاہتا ہے۔ مگر پھر وہی بات زور دے کر کہی جا سکتی ہے کہ اگر اسٹبلشمنٹ (ن) لیگ کے خلاف کھڑی ہو چکی ہے تو اس کے سامنے کسی کا بھی کھڑا ہونا ممکن نہیں، خواہ پچاس پچاس لاکھ کے جلسے کر لیں یا سینکڑوں میل کا لانگ مارچ۔میاں نوازشریف کو عوام میں بھٹو جیسی مقبولیت حاصل ہو سکتی ہے اور شاید بھٹو سے زیادہ بھی، بھٹو صاحب سے زیادہ طاقتور بھی ہو سکتے ہیں مگر ان جیسے جنئیس اور دلیر نہیں ہیں۔ فوج کے سامنے ان کی کوئی حکمتِ عملی اور تدبیر کارگر نہیں ہو سکی تھی۔ وہ تخت سے تختہ دار تک اٹھا دیئے گئے۔
اگر کچھ حلقے سمجھتے ہیں کہ فوج میاں نوازشریف کو اقتدار میں آتے نہیں دیکھنا چاہتی اور اگر واقعتاً ایسا ہی ہے تو ماضی کو پیش منظر کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اگر اسٹیبلشمنٹ ہی نے میاں نوازشریف کو نکالا ہے تو اس لئے نہیں نکالا ہوگا کہ دوبارہ آ جائیں۔