کراچی ایک قدرتی بندرگاہ ہونے کی وجہ سے برطانوی قبضے سے قبل ہی دو ر دراز ممالک تک مشہور ہوچکی تھی چین، یورپ، افریقہ، ہندوستان، سری لنکا اور خلیجی ممالک سے اس کے تجارتی تعلقات کا فی پرانے تھے۔ کراچی بندرگاہ کو اس وقت تک نہ صرف پنجاب، سرحد اور افغانستان کی تجارت میں اہم مقام حاصل ہو چکا تھا بلکہ ان علاقوں پر فوجی برتری حاصل کرنے کے لیے بھی کلیدی حیثیت حاصل تھی۔ مسٹر پارکس کی زیر نگرانی کراچی کی بندرگاہ میں تعمیراتی کاموں کا آغاز ہوا ان کاموں میں کیماڑی گروسن کی تعمیر کو اولیت دی گئی اس کی تعمیر 1861ءمیں شروع ہوئی اور مارچ 1863ءمیں مکمل ہوگئی اس کی تعمیر سے کراچی کی بندرگاہ سمندر کی سرکش موجوں سے محفوظ ہوگئی جولائی 1886ءمیں کسٹم ہاوس کے قریب نیٹو جیٹی کی تعمیر کا کام بھی مکمل ہوگیا اس کی تعمیر سے کراچی کی تجارتی سرگرمیوں کی بے حد تقویت ملی۔ گو کہ 1854ءمیں شہر کو کیماڑی سے ملانے والا پشتہ تعمیر ہوگیا تھا اور اس کی تعمیر سے کیماڑی اور شہر کے درمیان آمدروفت میں خاصی سہولت ہوگئی تھی مگر اس پشتے کی تعمیر سے چونکہ بندرگاہ پر برے اثرات مرتب ہو رہے تھے چنانچہ شہر کو کیماڑی سے ملانے کے لیے ایک آہنی پل کی تعمیر کا کام 17فروری 1861ءکو شروع ہوا اور 1865ءمیں اس کی تعمیر مکمل ہوگئی اس پل کی تعمیر پر 6لاکھ 43ہزار 4سو روپے کی رقم خرچ ہوئی تھی مگر اس کی تعمیر کراچی کی تجارتی سرگرمیوں میں اضافے کا باعث ثابت ہوئی۔ بعد میں اس پل پر ریلوے لائن بچھا کر بندرگاہ کو ریل کے ذریعے اندرون ملک سے ملا دیا گیا بندرگاہ تک ریلوے لائن کے بچھائے جانے سے کراچی بندرگاہ کا براہ راست شمالی علاقوں سے رابطہ قائم ہوگیا تھا۔ 1869ءمیں بریک واٹر تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یکم نومبر 1870ءکو کمشنر سندھ مسٹرولیم میری ویدر نے اس منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا چونکہ یہ کام نہایت اہم تھا چنانچہ اس کی تعمیر پر خصوصی توجہ دی گئی اور اسے صرف 3سال کے عرصے میں یعنی 1874ءمیںمکمل کر لیا گیا اس پشتے کی لمبائی 1500فٹ ہے اس کی تعمیر پر 10لاکھ 90ہزار روپے خرچ ہوئے تھے یہ اس قدر مضبوط تعمیر ہوا ہے کہ سوائے ایک دفعہ کے کبھی اس کی مرمت کی ضرورت پیش نہیں آئی اس کی تعمیر کا اصل مقصد بندرگاہ میں لنگر انداز جہازوں کو خراب مون سون میں سمندر کی طوفانی لہروں سے محفوظ رکھنا ہے۔
1870ءمیںکمشنر سندھ مسٹر میری دیدر کو کراچی بندرگاہ کی ترقی اور اس کے انتظام کے لیے ایک علیحدہ ادارہ قائم کرنے کی تجویز پیش کی گئی۔ کراچی بندرگاہ کے ترقیاتی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے حکومت نے کراچی ہاربر ورکس کے نام سے سرکاری اہل کاروں پر مشتمل ایک ادارہ قائم کر دیا اس ادارے کا سربراہ کراچی بندرگاہ کا چیف انجینئر تھا دس سال تک یہ ادارہ بندرگاہ کے ترقیاتی کاموں کی نگرانی کرتا رہا اور بندرگاہ کے انتظام کو چلاتا رہا پھر 10مارچ 1880ءکو حکومت نے نوٹیفکیشن کے ذریعے کراچی ہاربر ورکس کو کراچی ہار بر بورڈ میں تبدیل کر دیا۔ ہاربر بورڈ نے بندرگاہ کی تعمیر و ترقی کے لیے بندرگاہ ٹیکس عائد کرکے بندرگاہ میں بڑے جہازوں کو ٹھہرانے کے لیے گودیاں تعمیر کرنے کا ایک منصوبہ تیار کیا۔ کراچی بندرگاہ کے معاملات میں مقامی لوگوں کی شمولیت کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے بمبئی لیجسلیٹو کونسل نے 1886ءمیں کراچی پورٹ ٹرسٹ ایکٹ نمبر 6مجریہ 1886پاس کیا۔ اس ایکٹ کے تحت 1887ءمیں ہاربر بورڈ توڑ کر کراچی پورٹ ٹرسٹ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ بیسویں صدی کا سورج کراچی بندرگاہ کے لیے بے شمار کامیابیوں اور شادمانیوں کا پیغام لے کر طلوع ہوا۔1900ءتک کراچی بندرگاہ نہ صرف ایک جدید اور معروف بندرگاہ بن چکی تھی بلکہ اسے مشرق کی سب سے زیادہ گندم برآمد کرنے والی بندرگاہ کا اعزاز حاصل ہوگیا تھا۔ کراچی بندرگاہ چونکہ تجارتی اہمیت کے ساتھ ساتھ فوجی اہمیت کی بھی حامل تھی چنانچہ برطانوی حکومت نے ترقیاتی کاموں کی اس طرح منصوبہ بندی کی کہ کراچی بندرگاہ کی تجارتی اہمیت میں اضافے کے ساتھ ساتھ اس کی فوجی اہمیت میں بھی مزید اضافہ ہو سکے۔ دراصل انگریزوں کا کراچی بندرگاہ کو فوجی نقطہ¿ نگاہ سے ترقی دینا ان کی دور اندیشی پر مبنی تھا اور ان کی یہ دور اندیشی 1914ءمیں پہلی جنگ کے موقعے پر ان کے کام آگئی اس وقت کراچی بندرگاہ اتحادی فوجوں او ر فوجی سازو سامان کو مشرقی و مغربی محاذوں پر بھیجنے کے لیے ایک انتہائی بندرگاہ ثابت ہوئی۔ 1901ءمیں جہازوں کو کھینچنے والے اور سمندر کی تہہ سے کیچڑ صاف کرنے والے جہاز درآمد کیئے گئے جہازوں کی مرمت کرنے کے لیے ایک گودی بھی تعمیر کی گئی۔ 1906-7ءمیں جائلز نامی وھارف تعمیر ہوئی۔ اس وھارف میں تین بر تھیں۔ 1908ءمیں ینگ ہسبنیڈ نامی و معارف کی تعمیر شروع ہوئی جو 1910ءمیں مکمل ہوگئی۔
اس وھارف میں چار بر تھیں تھیں۔1907-8میں میری ویدر پائر اور اریکسن وھارف کو از سر نو تعمیر کیا گیا اس طرح 1910ءتک کراچی بندرگاہ میںکل برتھوں کی تعداد 17ہوگئی تھی جن کی کل لمبائی 3600فٹ تھی۔ ان برتھوں پر ریلوے ویگنوں اور جدید کرینوں کی سہولت بھی موجود تھی۔ اس وقت بندرگاہ میں کرینوں کی کل تعداد 89تھی ان کرنیوں میں 87کرینیں 35ہنڈرڈ ویٹ وزن اٹھانے والی ایک کرین 30ٹن او رایک 14ٹن کی گنجائش والی تھی۔ 1909میں بلک آٗل پیلر کی تعمیر مکمل ہوگئی اور اسے ایک پائپ لائن کے ذریعے برما آئل کمپنی اور اسٹینڈرڈ آئل کمپنی کے آئل ٹینکروں سے ملا دیا گیا۔ اس سال بندرگاہ کو مزید وسعت دینے کے لیے 177ایکڑ ساحلی علاقہ حاصل کیا گیا۔ اس سال پورٹ ٹرسٹ نے منوڑہ پر پہلے سے تعمیر شدہ لائٹ ہاوس کی از سر نو تعمیر مکمل کرائی اور اب یہ دنیا کا سب سے طاقت ور لائٹ ہاوس بن چکا تھا اس لائٹ ہاوس میں نہایت طاقت ور De اوپرق روشنی کا انتظام کیا گیا تھا۔ 1914ءمیں ایک لائٹ شپ بھی خریدا گیا جسے بندرگاہ کے جنوب مشرق میں 55میل کے فاصلے پر دریائے سندھ کے ڈیلٹا کے نزدیک سمندر میںکھڑا کر دیا گیا تھا۔ یہ مشرقی سمت سے کراچی بندرگاہ کی جانب آنے والے جہازوں کی دھندیا کہر میں رہنمائی کرتا تھا۔ چناکریک ریلوے پل کی تعمیر 1910ءمیں شروع ہوئی اور 1914ءمیں مکمل ہوگئی۔ 1911ءمیں کیماڑی اور منوڑہ کے درمیان آمدورفت کی سہولت بہم پہنچانے کے لیے بوٹ بیسن تعمیر کیا گیا۔ 1914سے 1918ءتک کراچی بندرگاہ میں بہت کم ترقیاتی کام انجام پاسکے کیونکہ اس وقت تک پوری دنیا پہلی عالمی جنگ کی لپیٹ میں آچکی تھی۔ تاہم اس دوران انگزیزوں نے کراچی بندرگاہ کو اس کی فوجی اہمیت کی وجہ سے اپنے فوجی مقاصد کے لیے خوب استعمال کیا بندرگاہ کے بالائی حصے کو چوڑا کرنے اور مغربی ساحلی دلدلی علاقے سے پانی کو پمپ کے ذریعے نکالنے کا کام بھی جاری رہا۔ 1919ءاور 1920ءکے دوران کراچی بندرگاہ کا سروے کیا گیا اور ستمبر 1920ءمیں بندرگاہ کو ترقی دینے کے لیے ایک جامع منصوبہ بورڈ آف ٹریڈ سینٹر کو پیش کیا۔ 1941ءتک بندرگاہ کی تمام پرانی تنصیبات کو جدید بنا دیا گیا۔ 1936ءمیں بندرگاہ کے مشرقی حصے پر نصب شدہ تمام بھاپ سے چلنے والی کرنیوں کی جگہ بجلی سے چلنے والی جدید کرنیں نصب کر دی گئیں۔ جنگ عظیم اول کی بانسبت دوسری جنگ عظیم کے دوران کراچی بندرگاہ میں کئی ترقیاتی کام انجام پائے تھے۔ 1944ءتک کراچی بندرگاہ پر جہازوں کو تیل فراہم کرنے کے لیے گیارہ برتھیں تعمیر ہوچکی تھیں۔
1942ءمیں حکومت نے کراچی پورٹ ٹرسٹ کو جہازوں کی مرمت کے لیے باقاعدہ انتظامات کرنے کے لیے ہدایات جاری کیں۔ اس کے نتیجے میں کراچی پورٹ ٹرسٹ نے بندرگاہ پر جہازوں کی مرمت کے لیے جدید سہولتیں فراہم کرنے کے لیے اقدامات کیے 1943-44کے دوران کراچی بندرگاہ پر 20جہاز زیر مرمت تھے۔ اس وقت تک کراچی بندرگاہ جہازوں کی مرمت کے لیے اتنی اہمیت اختیار کر چکی تھی کہ یہاں جنگ کے دوران تباہ ہونے والے درجنوں جہازوں کی تسلی بخش مرمت کی گئی تھی۔ قیام پاکستان کے وقت کراچی بندرگاہ میں 28ملین ٹن سامان سنبھالنے کی گنجائش موجود تھی۔ اس وقت اس کے پلیٹ فارم کی لمبائی 1824فٹ تھی۔ کیماڑی پر اترنے والا سامان امپورٹ یارڈ میں رکھا جاتا تھا اس یارڈ کے 12سائبان تھے اس یارڈ کے سامنے کھلی جگہ پر ایک 10ٹن گنجائش کی کرین نصب تھی۔ اس کے علاوہ بندرگاہ میں 11گشتی کرینیں بھی موجود تھیں۔ اس وقت بندرگاہ میں 150میل لمبی ریلوے لائن بچھی ہوئی تھی۔ یہ بات قارئین کے لیے دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ اس وقت کراچی بندرگاہ سے کل برآمد ہونے والی اشیاء70% 6حصہ گندم اور روئی پر مشتمل ہوتا تھا۔ کراچی بندرگاہ کو چار چاند لگانے اور اسے ایک بین الاقوامی بندرگاہ بنانے میں انیسویں صدی کے بعض بین الاقوامی واقعات نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ 1850ءکے عشرے میں اس وقت کراچی بندرگاہ کی تجارتی سرگرمیاں ایک نئے دور میں داخل ہوگئیںجب برطانوی حکومت نے روس اور امریکا کے مابین جاری تجارتی مقابلے میں شامل ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ جنوری 1852ءمیں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ڈائریکٹر نے ایک یادداشت کے ذریعے وسطی ایشیائی ممالک، افغانستان اور ایران میں روس اور امریکی تجارتی سرگرمیوں کی جانب نہ صرف برطانوی حکومت کی توجہ مبذول کروائی بلکہ اس صورتحال سے نمٹنے اور برطانوی تجارت کو ان علاقوں میں فروغ دینے کے لیے تجاویز پیش کیں ڈائریکٹرز کی تجاویز پر حکومت بمبئی نے عمل کرکے نہ صرف روس اور امریکی تجارتی یلغار سے کامیابی سے مقابلہ کیا بلکہ ان اقدامات کے نتیجے میں وسطی ایشیائی ممالک کے لیے بذریعہ کراچی بندرگاہ برطانوی برآمدات میں ریکارڈ اضافہ ہوا۔
انیسویں صدی کے وسط میں امریکہ، یورپ کو روئی برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک تھا مگر 1861ءسے 1865ءتک امریکی خانہ جنگی کا شکار رہا جس کی وجہ سے اس دوران امریکی روئی کی یورپ کے لیے برآمد معطل رہی۔ جس کے نتیجے میں یورپ میں روئی کی شدید قلت ہوگئی اور کپڑے کے کارخانے متاثر ہونے لگے۔ تاہم پنجاب اور سندھ سے بڑی مقدار میں روئی یورپ پہنچنا شروع ہوگئی۔ روئی کے بڑی مقدار میں یورپ بھیجے جانے کی وجہ سے کراچی بندرگاہ کی آمدنی کے تمام سابقہ ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ امریکی خانہ جنگی 1865ءمیں ختم ہوگئی اور اس کے ساتھ ہی امریکہ روئی کی یورپ کو دوبارہ ترسیل شروع ہوگئی مگر پنجاب کی روئی چونکہ یورپین مارکیٹ میں اپنا ایک مقام بنا چکی تھی چنانچہ بعد کے سالوں میں بھی تقریباً 65لاکھ روپے مالیت کی روئی ہر سال کراچی بندرگاہ سے یورپ برآمد ہوتی رہی۔ نہر سوئز کی تعمیر سے قبل یورپین جہاز برصغیر تک پہنچنے کے لیے افریقہ کا پورا چکر کاٹ کر بمبئی پہنچتے تھے یہ راستہ چونکہ نہایت طویل تھا اور اس سے نہ صرف وقت کا زیاں ہوتا تھا بلکہ یہ بہت مہنگا بھی پڑتا تھا۔ نہر سوئز کی تعمیر سے کراچی بندرگاہ برصغیر کی یورپ سے نزدیک ترین بندرگاہ بن گئی تھی۔اب کراچی سے برطانیہ کا فاصلہ صرف 5918میل رہ گیا تھا کراچی اور یورپ کے درمیان فاصلے کے غیر معمولی طور پرکم ہو جانے کی وجہ سے اب یورپ سے آنے والے جہاز پہلے کراچی بندرگا ہ میں لنگر انداز ہوتے اور پھر بمبئی کے لیے روانہ ہوتے اس طرح کراچی بندرگاہ میں جہازوں کی آمدرفت میں زبردست اضافہ ہوگیا تھا۔ 1895-96میں کراچی بندرگاہ کے ذریعے ہونے والی کل تجارت میں پنجاب کا حصہ 43%تھا کراچی بندرگاہ کی روز افزوں ترقی اور بڑھتی ہوئی آمدنی میں پنجاب کی غیر ملکی تجارت نے اہم کردار ادا کیا تھا کراچی بندرہ گاہ کے پنجاب کی تجارت میں اہم کردار ادا کرنے کی وجہ سے ہی پنجاب کے بعض حلقوں کی جانب سے سندھ کو بمبئی پریذیڈنسی سے نکال کر پنجاب کے ساتھ منسلک کرنے کا پر زور مطالبہ کیا گیا تھا۔ انیسویں صدی کے اختتام تک کراچی بندرگاہ ایک اہم بین الاقوامی بندرگاہ کی حیثیت اختیار کر چکی تھی۔ اس وقت تک نہ صرف کراچی کے دنیا کے بیشتر ملکوں سے تجارتی تعلقات قائم ہوچکے تھے بلکہ بعض اشیاءکی در آمد کے لیے ایک اہم بین الاقوامی مرکز بن چکا تھا۔ کراچی بندرگاہ پر مرحلہ وار ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے زیادہ سے زیادہ سہولتوں کے مہیا کیے جانے کی وجہ سے کراچی بندرگاہ کی اہمیت اور شہرت میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔
”کراچی، تاریخ کے آئینے میں“تحریر:عثمان دھموہی انڈس پبلیکیشنز، کراچی