افسانوی شہرت کی حامل مال روڈ ،لاہور

2018 ,جنوری 29



پنجاب اسمبلی
اپریل 1937ءمیں صوبہ پنجاب کی قانون ساز اسمبلی قائم ہوئی قانون ساز اسمبلی کے لیے ضروری تھا کہ ایک موزوں اور مستقل عمارت ہو جس میں اس کے اجلاس منعقد ہوں۔ 17نومبر 1935ءمیں اس ایوان کا سنگ بنیاد وزیر زراعت سر جوگندر سنگھ نے رکھا اور 1938ءمیں یہ عمارت تکمیل کو پہنچی پنجاب اسمبلی کا پہلا اجلاس 1939ءمیں یہاں منعقد ہوا یہ عمارت مغربی طرز تعمیر کا ایک شاہکار نمونہ ہے سرکاری انجینئر مسٹر سلمین کے زیر نگرانی یہ عمارت بننا شروع ہوئی تھی مگر وہ اس کی تکمیل سے قبل ہی ریٹائرڈ ہو کر انگلستان واپس چلے گئے پھر مسٹر پی ایل ورما کی زیر نگرانی میں اس عمارت کا کام اختتام کو پہنچا۔ اس پر تقریبا 16لاکھ روپے خرچ ہوئے اسمبلی چیمبر میں ایک ہشت پہلو عمارت ہے جس میں پچاسی کمرے ہیں یہ ایک سہ منزلہ عمارت ہے جس کے نیچے تہہ خانے ہیں بالائی منزل میں اسمبلی کے ممبروں کے لیے ایک عظیم الشان ہال ہے جس میں کم و بیش اشخاص بیٹھ سکتے ہیں گیلری میں اجلاس کی کارروائی دیکھنے کے لیے بہترین سیٹیں لگائی گئی ہیں۔ چھوٹی کمیٹیوں کا اجلاس کے لیے چھ کمیٹی روم مختص ہیں دو کمروں میں لائبریری قائم ہے اس ایوان میں غیر ملکی سربراھان نے بھی خطاب کیا۔ 1974ءمیں اس عالی شان عمارت میں اسلامی سربراہی کانفرنس کے اجلاس بھی منعقد ہوئے اس عمارت کی دیکھ بھال محکمہ تعمیرات و مواصلات کرتا ہے اور اس کی پرانی شکل کو بحال رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔


لکشمی انشورنس بلڈنگ
چمن آئس کریم کی بلڈنگ کو لکشمی انشورنس بلڈنگ کہا جاتا تھا اس عمار ت میں رینکسن سٹور بھی موجود تھا پاکستان بننے کے بعد اس عمارت کو احمد مختار نے خرید لیا اور پھر اس کا نام احمد مینشن رکھ دیا گیا احمد مختارقائد، ملت خان لیاقت علی خان کے قریبی عزیز تھے یہ عمارت تقریباً 100سال پرانی ہے یہ عمارت 105مرلہ پر مشتمل ہے او راب یہ چار حصوں میں تقسیم ہوچکی ہے اس عمارت پر گھڑی موجود تھی لیکن اب یہ غائب ہوچکی ہے۔ 1968ءمیں عدالت نے حکم دیا تھا کہ اس عمارت کو نہ گرایا جاسکتا ہے اور نہ ہی فروخت کیا جاسکتا ہے۔
دیال سنگھ مینشن کالج و لائبریری
 سٹیٹ بینک کے ساتھ ایک یو شیپ کی مارکیٹ موجود ہے جسے دیا ل سنگھ میشن کہتے ہیں یہ عمارت 1930ءمیں تعمیر کی گئی اس عمارت کے مالک سردار دیال سنگھ تھے انہوں نے اس عمارت کے علاوہ لاہور میں دیال سنگذ کالج اور دیال سنگھ لائبریری بھی تعمیر کروائی۔ وائی ایم سی اے کی عمارت نیلا گنبد کے ساتھ موجود ہے انگریزوں نے عوامی فلاح و بہبود کے لیے اس عمارت کو تعمیر کیا تھا۔اس عمارت میں ایک زمانے میں انڈیائی ہاوس ہوتا تھا جو بعد میں پاکستان ہاوس میں بن گیا۔


کمرشل بلڈنگ
 ٹولنٹن مارکیٹ اور جنرل پوسٹ آفس کے درمیان مال روڈ پر واقع کمرشل بلڈنگ کے نام سے ایک وسیع سلسلہ عمارات سے اوپر کی منزلوں میں مکانات اور دفاتر ہیں جبکہ نیچے دکانیں ہیں انگریز دور کی دکانیں آج بھی موجود ہیں جن میں کپڑے بنانے والوں کی دکانیں بھی شامل ہیں آج جس جگہ پر یہ کمرشل بلڈنگ موجود ہے ایک زمانے میں یہاں دھوبی منڈی ہوا کرتی تھی، اس کی جنوبی دیوار کپورتھلہ ہاوس تک جاتی تھی کمرشل بلڈنگ میں آج بنکوں کے دفاتر بھی موجود ہیں آج جس جگہ سٹینڈرڈ چارٹرڈ بنک موجود ہے یہ عمارت 1945میں تعمیر ہوئی پاکستان سے قبل اس عمارت میں الہ آباد بنک قائم تھا۔ 1957ءمیں یہ چارٹرڈ بنک میں تبدیل ہوگیا اب اسے سٹینڈرڈ چارٹرڈ بنک کہتے ہیں اس بنک کی پرانی شکل آج بھی موجود ہے۔


ٹولنٹن مارکیٹ 
 انار کلی کے علاقے میں عجائب گھر سے متصل مال روڈ پر ایک خوبصورت عمارت ہے جو ٹولنٹن مارکیٹ کہلاتی ہے ایک زمانے میں اسے میونسپل مارکیٹ بھی کہا کرتے تھے یہاں سے گول باغ تک جو سڑک جاتی تھی وہ نمائش روڈ کے نام سے مشہور تھی اس کی وجہ تسمیہ 1864ءمیں منعقد ہونے والی نمائش ہے یہ نمائش ٹولنٹن مارکیٹ کی عمارت میں ہوئی تھی ٹولنٹن مارکیٹ کی عمارت خاص اس نمائش گاہ کے لیے تعمیر کی گئی تھی یہی تاریخی نوادارت بعد میں عجائب گھر میں منتقل کر دیئے گئے بعد ازاں گورنر کو شکایت کی گئی کہ انگریز اندرون شہر جا کر خرید وفروخت کے دوران شور شرابہ کرتے ہیں جس سے مقامی لوگ پریشان ہوتے تھے لہٰذا گورنر نے حکم دیا کہ ٹولنٹن مارکیٹ میں گوشت سبزی، اور ضروریات زندگی کی دکانیں قائم کر دی جائیں۔


پنجاب یونیورسٹی بلڈنگ
 عجائب گھر کے سامنے پنجاب یونیورسٹی کی قدیم عمارت موجود ہے جسے 1869ءمیں لاہور یونیورسٹی کالج کہا جاتا تھا اس کا دائرہ عمل صرف لاہو رتک محدود نہ رہا بلکہ تمام صوبہ پنجاب کا تعلیمی نظام اس کے ماتحت لایا گیا تو یہاں پنجاب یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا۔ 14اکتوبر 1882ءکو پنجاب یونیورسٹی پہلی مرتبہ باقاعدگی کے ساتھ قانونی طور پر تسلیم کی گئی۔ سینٹ ہال کی عمارت جو 1876ءمیں تعمیر ہوئی تھی جسے 1882ءمیں سینٹ کے اجلاس کے لیے مخصوص کر دیا گیا عمارت میں مختلف بلاکوں میں بنی ہوئی ہے جسے مختلف شعبوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔اب اس یونیورسٹی کے بیشتر شعبے اور دفاتر نیوکیمپس میں منتقل کر دیئے گئے ہیں۔


لاہور عجائب گھر
 فنون لطیفہ، آثار قدیمہ، سکہ سازی اور تاریخ کے بعض اہم نوادرات و عجائبات کے ذخیروں کے لحاظ سے لاہور کا عجائب گھر، پاکستان بھر میں سب سے قدیم اور عظیم عجائب گھر ہے اس کا آغاز 1864ءمیں ایک صنعتی نمائش سے ہوا اور یہ نمائش ٹولنٹن مارکیٹ میں منعقد کی گئی بڑی بڑی ریاستوں، رئیسوں اور پنجاب کے امیروں، سرداروں اور جاگیر داروں نے جوش و خروش سے اس نمائش میں حصہ لیا ان نوادرات میں زیورات، لباس، قالین، ہاتھ کی بنی ہوئی نایاب تصاویر، ادویات، اوزار، ہتھیار، تلواریں، اور دیگر اشیاءو نمائش میں پیش کی گئیں 30سال کے عرصے میں قدیم و جدید اشیاءکا اس قدر وسیع ذخیرہ ہوگیا کہ کسی دوسری عمارت کی ضرورت لاحق ہوگئی لہٰذا 1890ءمیں لاہور عجائب گھر کی موجودہ عمارت کی بنیاد اسی چندے سے رکھی گئی جو ملکہ وکٹوریہ کی گولڈن جوبلی کے سلسلے میں فراہم کیا گیا تھا۔ تکمیل عمارت کے بعد عجائب گھر کی اشیاءاس عمارت میں منتقل ہوئیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عجائب گھر کا دائرہ محدود کیا جاتا رہا اور کئی شعبے یہاں سے ہٹا دیئے گئے مردہ حیوانات کا شعبہ، گورنمنٹ کالج کو منتقل کر دیا گیا اب لاہور کا عجائب گھر صرف فنون لطیفہ اور آثار قدیمہ تک محدود کر دیا گیا ہے۔


پنجاب پبلک لائبریری
پنجاب پبلک لائبریری 8نومبر 1884ءکو لیفٹیننٹ گورنر پنجاب کی خواہش پر مندرجہ ذیل قرار داد کی بنیاد پر قائم کی گئی۔
لیفٹیننٹ گورنر پنجاب اس بات کی شدید خواہش رکھتے ہیں کہ لاہور میں ایک پبلک لائبریری قائم کی جائے جو کہ عوام الناس کے ہر طبقے کے لیے کھلی رہے یہ لائبریری سرکاری مطبوعات او رعمومی ادب سے مزین ہو جو مشرقی یا دیگر کوئی ہو اس کا بنیادی تصور صر ف یہی نہ ہو کہ مختلف حکومتی لائبریوں کے وہ حصے جو فوری حوالہ جات کے لیے اب حکومتی شعبہ جات کو درکار نہیں، انہیں یکجا کر دیا جائے بلکہ یہ عوامی سطح کا ایک ایسا ادارہ ہوگا جو بڑے پیمانے پر صوبے کے مفاد میں ہو۔
ابتداءمیں یہ لائبریری تاریخی اہمیت کی حامل شاہی عمارت بارہ دری وزیر خاں میں شروع کی گئی۔ یہ بارہ دری مغل شہنشاہ شاہ جہان کے دور حکومت میں گورنر لاہور نواب وزیر خاں نے تعمیر کروائی تھی۔اسے حکومت پنجاب کے تعاون سے قائم کیا گیا جس کا مقصد ایک پبلک لائبریری اور مطالعہ مہیا کرنا تھا جو کہ ہر طبقے کے لوگوں کے لیے بلا امتیاز مذہب جنس نسل اور مسلک کھلی رہے۔
لائبریری کے دیگر بلاک بالترتیب 1924، 1939، 1992میں قائم کئے گئے۔ ایک اضافی بلاک ہاو¿سنگ آڈٹیوریم او ر بیت القرآن کا سیکشن 1968ءمیں قائم کیا گیا اس وقت کے گورنر مغربی پاکستان جنرل محمد موسیٰ نے اس بلاک کا افتتاح 1968میں کیا۔
پنجاب پبلک لائبریری لاہور شہر کے قلب میں لائبریری روڈ پر این سی اے اور عجائب گھر شاہراہ قائد اعظم سے ملحقہ واقع ہے یہ شہر کے مشہور تعلیمی اداروں اور پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس سے گھری ہوئی ہے۔ نئی اور پرانی انار کلی کا تجارتی مرکز۔ میٹرو پولٹین کارپوریشن لاہور کا مرکزی دفتر ٹاو¿ن ہال اور صوبائی حکومت کے دفاتر یعنی سول سیکرٹریٹ پنجاب پبلک لائبریری سے نہایت مختصر فاصلے پر واقع ہیں۔ الغرض پنجاب پبلک لائبریری لاہور مرکز میں واقع اور مطالعے کے لیے نہایت سازگار اور پرسکون ماحول کی حامل ہے۔
پنجاب پبلک لائبریری میں انگریزی اردو فارسی عربی اور پنجابی زبانوں میں علوم کا نادر ذخیرہ موجود ہے یہاں تین لاکھ کے لگ بھگ کتب مجلد مجموعہ جات رسائل حتی کہ غیر منسقم ہندوستان کے گزٹ اور قریباً 850قلمی نسخہ جات جمع کئے گئے ہیں۔ لائبریری میں 170جریدے باقاعدہ آتے ہیں جن میں 24رسائل چندے کی بنیاد پر جبکہ باقی تمام عطیہ کے طور پر بھیجے جاتے ہیں۔ 12عدد روزنامے لائبریری میں آتے ہیں۔ لائبریری میں 500کے قریب نابیناوں کے لیے مخصوص کتب بھی موجود ہیں۔


جناح ہال
جناح ہال جسے ایک زمانے میں ٹاون حال کے نام سے یاد کیا جاتا تھا لفیٹینٹ گورنر سر چارلس ایچی سن نے 1887ءمیں ٹاون ہال کی بنیاد رکھی اس ہال کا نام ملکہ وکٹوریہ کی نسبت سے وکٹوریہ جوبلی ٹاون ہال رکھا گیا کیونکہ 1887ءکا سال ملکہ وکٹوریہ کی 50سال جوبلی کا سال تھا ڈیوک آف کلارنس نے 1890ءمیں اس عمارت کا رسمی افتتاح کیا یہ عمارت مسٹر بل کی زیر نگرانی تعمیر ہوئی اور اس پر 60ہزار روپے صرف ہوئے اس عمارت کا ڈیزائن مسٹر پوگ سن نے تیار کیا جس پر انہیں پانچ سو روپے انعام دیا گیا ٹاون ہال کا مقصد شہری حقوق کے نمائندوں کے لیے مل بیٹھنے اور اہلیان شہر کے اجتماعی مفادات پر غور و فکر کے لیے ایک موزوں جگہ فراہم کرنا تھا۔ 1950ءکے عشرے میں اس ہال کو جناح ہال کا نام دے دیا گیا۔


جنرل پوسٹ آفس(GPO) 
 ڈاک خانے کا موجودہ نظام انگریز دور کی پیداوار ہے مال روڈ پر واقع جنرل پوسٹ آفس کی عمارت 1849ءمیں تعمیر ہوئی اس کے قریب بھی پوسٹ ماسٹر کا بنگلہ موجود تھا 1912ءمیں موجود ہ خوشنما جدید و ضع کی عمارت تعمیر ہوئی۔ جی پی او کی موجودہ عمارت تقریباً تین کنال 6مرلہ رقبہ پر پھیلی ہوئی ہے جنرل پوسٹ آفس کا اصل نقشہ آج بھی برٹش لائبریری لندن میں موجود ہے۔ جی پی او کی گھڑی بڑی نایاب ہے۔ 1983ءمیں جی پی او کے فارن یونٹ کو آگ لگ گئی جس سے عمارت کو نقصان پہنچا لہٰذا حکومت برطانیہ کی درخواست پر سابق صدر جنرل محمد ضیاءالحق نے اس کو پرانی شکل میں بحال کرنے کا حکم دیا۔ پی ڈبلیو ڈی نے کراچی کی ایک پرائیویٹ کمپنی کے ساتھ مل کر اس عمارت کو اصل شکل دی اس عمارت پر پلاسٹر آف پیرس کی تہہ جمی ہوئی تھی اسے صاف کیا گیا۔ نیپا کی پرانی بلڈنگ کی اینٹیں اسی عمارت میں استعمال کی گئی اور اسے وہی شکل دے دی گئی جو 1912میں موجود تھی 1996ءمیں جی پی او کی عمارت کا کام مکمل ہوگیا اس منصوبے پر تقریباً ڈیڑھ کروڑ روپے خرچ ہوئے ۔1954ءمیں موجودہ پوسٹ ماسٹر جنرل آفس تعمیر ہوا اور 1956ءمیں جی پی او یہاں منتقل ہوگیا ۔
 محکمہ ڈاک، پاکستان کے بڑے محکموں میں سے ایک ہے جہاں روزانہ کے معمولات سے آج بھی قدیم دور کی یاد تازہ ہو جاتی ہے ٹیلی فون، کمپیوٹر، ای میل اور موبائل فون کے آنے سے قبل پیغامات کا واحد طریقہ خط و کتابت ہی تھا جونہی ڈاکیا گاﺅں میں آتا تو لوگ اس کی طرف لپکتے اور پوچھتے کہ ان کے پیاروں کی طرف سے ان کا کوئی خط آیا ہے دور حاضر میں کمپیوٹر اور ای امیل کی وجہ سے خط و کتابت کا رواج کافی حد تک کم ہوگیا ہے لیکن ان ذرائع کے باوجود بھی ڈاکخانے اسی رفتار سے کام کر رہے ہیں جس رفتار سے ماضی میں کام کر رہے تھے۔
 جنرل پوسٹ آفس لاہور، پاکستان کا سب سے بڑا اور قدیم ڈاکخانہ ہے1887ءمیں ملکہ وکٹوریہ کے تخت نشین ہونے کی گولڈ جوبلی کے موقعہ پر وائی ایم سی اے کی عمارت اور جی پی او کا سنگ بنیاد رکھا گیا اس سے قبل ٹیلی گراف آفس انار کلی بازار میں قائم تھا جی پی او کی موجودہ شکل اس وقت سامنے آئی جب اس عمارت کو پوسٹ آفیس میں تبدیل کر دیا گیا۔ جی پی او کا افتتاح پورے ہندوستان میں کلاک ٹاورز اور یاد گار عمارتوں کے ساتھ ایک ہی موقع پر ہوا یہاں آویزاں کی گئی تاریخی گھنٹی کو ٹیلی گراف آفس سے اتار کر لگایا گیا ہے تاکہ پرانی عمارت کا تسلسل برقرار رہے جی پی او مال روڈ اور نابھہ روڈ کے سنگم پر واقع ہے 1916ءکے لاہور گزٹیئر کے مطابق یہ لاہور کی ایک خوبصورت ترین عمارت ہے اس عمارت میں ایک گھنٹہ گھر اور چار مینار ہیں۔ اس کا کل رقبہ 4.425 ایکڑ ہے۔1904ءمیں اس عمارت کومحکمہ ڈاک کے حوالے کر دیا گیا اور اس سال اس عمارت نے کام کرنا شروع کر دیا۔ لاہور شہر میں گنگا رام ہسپتال کے سامنے فٹ پاتھ پر لگا قدیم لیٹر بکس آج بھی اس عہد کی یاد تازہ کرتا ہے۔1904ءمیں لاہور کی ہر گلی میں ایسے لیٹر بکس موجود تھے جن پر ملکہ وکٹوریہ کی تصویر کندہ کی گئی تھی اس زمانے میں ان کی تعداد 132 تھی یہ دور دراز کے علاقوں میں نصب کئے گئے تھے لیٹر بکس سے ڈاک اکٹھی کرنے کے لیے محکمہ ڈاک کا اہلکار یا ڈاکیا سائیکلوں پر سوار ہو کر جاتا چیئرنگ کراس، لاہور کینٹ اور مغل پورہ کے ڈاک خانے لاہور کے مشہور ڈاک خانے تھے جہاں بہت زیادہ ڈاک اکٹھی ہوتی تھی ریلوے اسٹیشن سے ڈاک گھوڑا گاڑیوں کے ذریعے اکٹھی کی جاتی تھی جس کے بعد ڈاکیے انہیں مطلوبہ مقام پر پہنچا دیتے ہر ہفتے جی پی او کی عمارت پر دو جھنڈے لہرائے جاتے تھے سرخ جھنڈا اس بات کا اشارہ ہوتا تھا کہ بیرون ملک سے خطوط ممبئی پہنچ چکے ہیں اور جلد ہی ان کی آمد لاہور متوقع ہے جبکہ سفید جھنڈا اس روز لہرایا جاتا تھا جس روز لاہور سے دوسرے ممالک کے لیے ڈاک کی ترسیل کی جاتی تھی یہاں یہ ذکر کرنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ 1876ءتک فیروز پور، بہاولپور، سیالکوٹ، جہلم، راولپنڈی اور پشاور سے آنے والی ڈاک جی پی او کی پرانی عمارت میں ہی وصول کی جاتی تھی۔
 جی پی او کی عمارت دو بڑے ہالوں پر مشتمل ہے ایک ہال میں اندرون ملک ڈاک وصول کی جاتی ہے جبکہ دوسرے ہال میں بیرون ملک بھیجنے والی ڈاک وصول کی جاتی ہے یاد گاری ٹکٹیں، ثقافتی ورثہ اور جنگلی حیات کی تصاویر والی ٹکٹیں جاری کرنے والا شعبہ بھی اسی عمارت میں ہے تین ہزار افراد پر مشتمل عملہ روزانہ بیس ہزار ترسیلات دوسرے شہروں میں بھیجتا ہے۔
 جی پی او میں ٹوکن ٹیکس وصول کرنے کے علاوہ پنشن کی ادائیگی بھی کی جاتی ہے ان دنوں میں یہاں آنے والے لوگوں کی تعداد 3 ہزار سے بھی تجاوز کر جاتی ہے اس کے باوجود ملازمین بہت خوش اسلوبی سے اپنی ڈیوٹی انجام دیتے ہیں اس تاریخی عمارت میں آج ہر کام کمپیوٹر سے انجام دیا جاتا ہے خطوط بھیجنے والے لوگوں کو ایک کاﺅنٹر پر ہی تمام درکار معلومات فراہم کرکے ان سے ڈاک وصول کی جاتی ہے۔ انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب ہونے سے ڈاک کی تعداد میں معمولی کمی واقع ہوئی ہے لیکن تجارتی ڈاک میں اضافہ کی وجہ سے پوسٹ آفس آج بھی منافع کمانے والا ادارہ ہے۔ جنرل پوسٹ آفس لاہور ڈاک کی سہولت مہیا کرنے کے علاوہ بیت المال کے معاملات بھی سنبھالتا ہے۔
 جی پی او میں صبح 8 بجے سے شام 5 بجے تک ایک خوبصورت گہما گہمی دیکھنے میں آتی ہے جب اہلکار اپنے کام میں مصروف ہوتے ہیں خط کو منزل تک پہنچانے کا سب سے پہلا قدم لیٹر بکس ہی ہوتا ہے جہاں سے خط کے سفر کا آغاز ہوتا ہے لیٹر بکس سے خطوط نکالنے کے بعد ایک بڑے ہال میں ان کو اکٹھا کیا جاتا ہے جہاں سے خطوط کو ان کی منزل کی طرف روانہ کیا جاتا ہے آج کئی سال گزرنے کے بعد بھی یہ عمارت اپنی اصل حالت میں قائم و دائم ہے وقت کے ساتھ ساتھ اس کی تزئین و آرائش ہوتی رہتی ہے یہاں لٹکتی ہوئی ٹیوبوں اور بلبوں سے ہالوں کا اندرونی منظر نظروں کو بہت اچھا لگتا ہے۔
 جنرل پوسٹ آفس کی عمارت کو ہر سال 14 اگست اور ڈاک کے عالمی دن 9 اکتوبر کو برقی قمقموں سے سجایا جاتا ہے 9 اکتوبر کو عمارت پر پاکستانی جھنڈے کے ساتھ یونیورسل پوسٹل یونین کا جھنڈا بھی لہرایا جاتا ہے۔


لاہور ہائی کورٹ 
 لاہور ہائی کورٹ کی عمارت، مال روڈ کے کنارے مزار شاہ چراغ سے متصل اور جنرل پوسٹ آفس کے قریب واقع ہے پہلے اس عمارت میں پنجاب چیف جسٹس کا اجلاس ہوتا تھا چنانچہ اب بھی پرانے لوگوں کی زبان پر اس عمارت کے لیے ہائی کورٹ کی بجائے چیف کورٹ کا لفظ ہی آتا ہے یہ عمارت 1879ءمیں تعمیر ہوئی اس کا ڈیزائن ایک ماہر فن تعمیر مسٹر بروسنگٹن نے تیار کیا اور اس کی تعمیر ایگزیکٹو انجینئر مسٹر جے ای ہلٹن کے زیر نگرانی ہوئی اس عمارت پر 3,12,837/-روپے صرف ہوئے۔ 1919ءمیں اس عمارت میں ہائی کورٹ قائم کی گئی اور قیام پاکستان کے بعد اس میں سپریم کورٹ آفس بھی قائم رہا یہ ایک وسیع عمارت ہے جس کے صحن میں سنگ مر مر کا ایک فوارہ اور اطراف میں چھوٹے چھوٹے خیاباں ہیں جو اس کے حسن میں اضافہ کر رہے ہیں۔پتھر میں جالی کا کام نہایت دیدہ زیب ہے عمارت کے چاروں اطراف بڑے بڑے برآمدے ہیں اس عمارت پر دہلی کے قطب مینار کے وضع کردہ دو مینار ہیں جن کی طرز تعمیر اسلامی ہے کونوں پر دو برجیاں ہیں میناروں کی بلندی 95فٹ اور برجیوں کی بلندی 72فٹ ہے عمارت کے بڑے ہال کا فرش سنگ مر مر کا ہے اور دوسرے کمروں کا فرش ہشت پہلو چوکیوں کا ہے بڑا ہال 55فٹ لمبا اور 35فٹ چوڑا ہے۔


غلام رسول بلڈنگ 
 الفلاح بلڈنگ کے ساتھ مال روڈ پر غلام رسول بلڈنگ موجود ہے یہ عمارت 1917ءمیں تعمیر ہوئی یہ 09کنال اراضی پر بنی ہوئی ہے غلام رسول معروف اداکار اسلم پرویز کے والد تھے آج بھی یہ عمارت اس خاندان کی ملکیت ہے اس عمارت کی حالت بڑی خستہ ہوچکی ہے پی ڈبلیو ڈی کے مطابق خراب سیوریج کے باعث اس کی بنیادیں کمزور ہوچکی ہیں مالکان کے مطابق متعدد مرتبہ دکانداروں کو نوٹس دیا گیا کہ دکانیں خالی کر دیں مرمت کرنے کے بعد آپ واپس اپنا کاروبار چلا سکتے ہیں لیکن وہ رضا مند نہیں ہوئے ایک سال قبل صبح چھ بجے فیروز سنز کے سامنے شیڈ کر گیا تھا جن سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔


ڈنگا سنگھ بلڈنگ
 مسجد شہداءکے سامنے باوا ڈنگا سنگھ بلڈنگ 1927ءمیں تعمیر ہوئی تقسیم ہند کے وقت عمارت کی بڑی اچھی حالت تھی پاکستان بننے کے لیے بعد لاہور کے رہائشی تاج دین نے اسے خرید لیا سیوریج کا نظام خراب ہونے کے باعث عمارت کی حالت خستہ ہوگئی ہے عمارت پر لگی ہوئی گھڑی چابی دینے سے آٹھ دن چلتی تھی لیکن اب یہ خراب ہے اس عمارت کا رقبہ تقریباً 08کنال ہے اس کے باوجود عمارت کا اگلا حصہ خستہ ہوگیا ہے 20سال قبل شیزان ہوٹل اس عمارت میں موجود تھا۔
شاہراہ قائد اعظم پر تاریخی اور بیش قیمت عمارات کو ختم کرکے وہاں جدید عمارتوں کی تعمیر کا سلسلہ بدستور جاری ہے لاہور ہائیکورٹ اور محکمہ آثار قدیمہ، شاہراہ قائد اعظم پر واقع تقریباً 70عمارات کو قومی و تاریخی ورثہ قرار دے چکی ہے۔


 وائی ایم سی اے بلڈنگ 
مال روڈ پر انار کلی اور نیلا گنبد کے قریب واقع ایک پرانی مگر نفیس اور سادہ عمارت پر وائی ایم سی اے کے الفاظ واضح نظر آتے ہیں اس آرگنائزیشن کا مختصر تعارف یہ ہے کہ لندن میں ایک شخص جارج ویلیم نے 06جون 1844ءمیں اپنے 12ساتھیوں کے ساتھ اس ادارے کی بنیاد رکھی جس کا بنیادی مقصد نوجوانوں کو ایک بہترین اور مددگار زندگی گزارنے کے لیے حوصلہ افزائی فراہم کرنا تھا یہ آرگنائزیشن شروع میں لندن میں بڑی تیز ی سے مقبول ہوئی اور 1851ءتک مغربی یورپ کے بہت سے ملکوں امریکہ اور کینیڈا میں شروع ہوگئی 1876ءمیں اس کے ایک رکن مجید ایڈورڈ نیو بدلی نے لاہور اور بمبئی میں اس کی بنیاد رکھی۔ ورلڈ الائنس آف وائی ایم سی اے کا ہیڈ کوارٹر جینوا سوئٹزرلینڈ میں ہے وائی ایم سی اے کی علامت تین کونوں والی لال تکون رکھی گئی جس میں جسم دماغ اور روح کے ملاپ کو ظاہر کیا گیا۔ وائی ایم سی اے کے پاکستان میں لاہور کے علاوہ کراچی، حیدر آباد، کوئٹہ اور پشاور میں بھی دفاتر ہیں۔وائی ایم سی اے میں سب سے پہلے ٹائپنگ، شارٹ ہینڈ، اور بک کیپنگ کی کلاسز شروع ہوئیں اس کے علاوہ انگلش، فرنچ، اور جاپانی لینگوئج کی کلاسیں بھی صبح و شام جاری رہی ہیں گذشتہ کافی عرصے سے پرائمری تک بچوں کے لیے ایک سکول بھی قائم کیا گیا جو کامیابی سے جاری ہے۔


تحریر و تحقیق: محسن اقبال ۔روزنامہ ”پاکستان“ لاہور
اشاعت خاص ایڈیشن۔31مئی1999ئی
(ختم شد)

متعلقہ خبریں