انتقام۔۔۔پُرعزم پُرزعم قیادتیں

2019 ,جنوری 18



اپنے کردار‘ اصولوں‘ لوگوں کے ساتھ رویوں اور قانون میں مہارت کے باعث جسٹس ایم آر کیانی کی شخصیت کچھ لوگوں کے لئے سحر انگیز اور جاذبیت آمیز تھی۔جسٹس کیانی عمر کے آخری حصے میں بیمار پڑے تو ان کے چاہنے والے ان کی مزاج پرسی کے لیے آتے تھے۔بیماری کے زیادہ بگڑنے کے باعث ڈاکٹروں نے ملاقاتوں پر پابندی لگا دی۔ لہٰذا عیادت کیلئے آنے والوں کیلئے ایک رجسٹر رکھنا پڑا۔ جسٹس کیانی صحت یاب ہونے کے بعد عیادت رجسٹر دیکھ رہے تھے۔ ان میں بڑے بڑے بیوروکریٹس، قانون دانوں اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے نام تھے۔جسٹس کیانی نے کئی بڑے لوگوں کے نام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا خدا کی قدرت ہے، ان میں سے بہت سے لوگوں کے باپ دادا بستہ ب میں شامل تھے۔ان بڑے لوگوں میں سے ہو سکتا ہے آج بھی کچھ ایسے کام کرتے ہوںکہ اگرمنظر عام پر آئیں توآبا ءکی طرح یہ بھی اسی بستہ میں شامل ہوں۔
قیام پاکستان کے بعد صدرایوب کی بنائی پارلیمنٹ میں ایسے لوگ بھی پہنچ گئے جو اپنے علاقوں کے نامی گرامی جرائم پیشہ اور رسہ گیر تھے۔ ایسے لوگ بھی تھے جنہیں اپنا نام لکھنا تک نہیں آتا تھا۔ان پڑھ ہونا اور بات ہے اور جرائم پیشہ ہونا اور۔باشعور ہونے کے لئے سکول کالج کی تعلیم ضروری نہیںمگر ملک کو وہی لوگ آگے لے جاسکتے ہیں جومروجہ سسٹم کے تعلیم یافتہ ہو ں۔ ایسے لوگ بھی پارلیمنٹ کے رکن بنے جو ڈنگر چراتے جمہوریت کے بلند ایوانوں میں پہنچ گئے۔ ون یونٹ کے بعد مغربی پاکستان اسمبلی مےں اےک رکن اسمبلی تقریر کرنے کے لئے کھڑے ہوئے،انہوں نے بولنا شروع کیا تومائیک بند تھا، پچھلی نشستوں سے کسی نے آواز دی۔ چودھری صاحب! بٹن کھول لیں، محترم.... مائیک کا بٹن کھولنے کے بجائے شیروانی کے بٹن کھولنے لگے ۔ ایک فاضل رُکن، اسمبلی اجلاس میں شرکت کی منابت سے لباس اور جوتے خریدنے گئے ۔دکاندارنے جوتے پہنا کرجِیبی (شوہارن) نکالنے کو کہا، انہوں نے زبان نکال لی۔نوے کی دہائی میں پنجاب کابینہ میں ایک بالکل ان پڑھ کو وزیر لگا دیا گیا اس نے اپنی اولاد کی تعلیم کی طرف توجہ دی ،بیٹے کو میٹرک کرادیا، بیٹا” قابل“ تھا، بی اے کی ڈگری اس نے خود لے لی۔ہمارے ہاں ایسا وزیراعلیٰ بھی ہواجو مجرم کو چھڑانے خود پولیس سٹیشن چلا گیا تھا۔
ہمارے ملک میں ہی ایسے قبائل آباد ہیں جو اپنے بیٹے کی اس وقت تک شادی نہیں کرتے جب تک علاقے میں اپنا نام پیدا نہیں کرلیتا تھا۔نام پیدا کرنے کے لئے اسے کوئی قتل کرنا ہوتا ہے کوئی ڈکیتی کرنی ہوتی ہے یا کوئی ایسا جرم کرنا ہوتا ہے جو قابل دست اندازی ہو اور سب سے زیادہ اسکو عزت فوقیت اور اہمیت دی جاتی ہے جو کسی کیس میں پکڑا جائے ، پولیس کے تشدد کو برداشت کر لے لیکن اپنے جرم کا اعتراف نہ کرے۔ایسے قبائل اگر تہذیب کی راہ پر آگئے ہیں، اپنی اولادوں کو پڑھا لکھا کر قومی دھارے میں شامل کر رہے ہیں تو یہ ان کا کریڈٹ اور خود کو حالات کے مطابق ڈھالنے کی کاوش ہے۔جرم کی کسی صورت تائید نہیں کی جاسکتی، جرم چھوٹا ہو یا بڑا،اسے تسلیم کرلینے سے دل کا بوجھ ہلکا ہوتا اور یہ بڑا پن بھی ہے،مگر ہمارے بڑے لوگوں میں جرم تسلیم کرنے کی روایات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
ہماری اعلیٰ سیاسی قیادتیں اور رول ماڈل مذہبی رہنمابھی جرم تو کیا اپنی غلطی تک کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔آج اعلیٰ سیاسی قیادتیں مقدمات کی زد میں ہیں۔ سیاسی مقدمات ہوں تو قوم ان کے شانہ بشانہ ہو مگر کریمنل کیسز میں کسی کابھی ساتھ دینا جرم کو فروغ دینا ہے۔ ایسے لوگ موجود ہیں جو محض نمبر بنانے اور سیاست چمکانے کی خاطرمجرموں کو سپورٹ کرتے ہیں۔لیڈر شپ ایسی، چند ماہ قبل کا کہا آج سن لیں یا پڑھ لیں تووضاحت ندارد مگرپُرعزم ہیں ،غلطی تسلیم کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔بہی خواہ دور کی کوڑی لاتے اور اپنی لیڈرشپ کی صفائی میں ہر حد سے بڑھ جاتے ہیں۔پُرعزم لیڈر قوم کی طرف سے ہمقدم ہونے میں پُرزعم ہے۔خود کو ہر گناہ سے پاک اور عدالتی سسٹم کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ ان کے اہل قلم اور اہل علم حامی انہیں قوم کا لیڈر ہی نہیں مرشد و پیشوا بھی بنا کر پیش کرتے ہیں۔جسٹس ثاقب نثار کل ریٹائر ہو گئے،ان کے دور میں جن لوگوں کے مفادات پر زد پڑی وہ اپنی بندوقیں ان کی طرف تان رہے اور طبلے و سارنگیاں کس رہے ہیں۔آج سے جسٹس ثاقب ان کی سخنوری اور دانشوری کے نشانہ پرہوں گے۔
 مسلم لیگ نون پی پی علی الاعلان ےکجا ےکجہت اور متحدہو گئےں۔عمران خان عرصہ سے پی پی لیگ کی آپسی مخالفت کو نورا کشتی قرار دیتے تھے،گو حالات اور مبینہ حکومتی انتقام نے ان کوگلے ملنے پر مائل کیاہوگا مگر” عمرانی“ اپنے لیڈرکے وژن پر عش عش کررہے ہیں۔ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے بقول وہ حکومتی انتقام کی زد میں ہیں۔بے نظیر بھٹو کو میاں نواز شریف کے دور میں مقدمات کا سامنا تھا، آج ان کی پیشی کراچی،کل راولپنڈی ، اگلے دن لاہور میں ہوا کرتی تھی۔ بچوں کے ساتھ کڑی دھوپ میں عدالتوں میںدھکے کھا رہے ہوتے۔اس سے قبل جنرل ضیاءالحق کے دور میں بے نظیر کو لانڈھی جیل میں رکھا گیا تھا، وہ کہتی ہیں، وہاں ان کو ایک پیپے میں استعمال کے لیے پانی دیا جاتا ، باتھ روم کا دروازہ نہیں تھا، وہ باتھ روم گئیں تو سامنے اہلکارکھڑا تھا، اسے بے نظیر نے کہا کچھ شرم کرو دروازہ نہیں ہے تم دوسری طرف منہ ہی کرلو۔ آج میاں نواز شریف جیل میں ہیں، ان کو اطمینان بخش کلاس دی گئی ہے۔دو کمرے ہیں۔مشقتی دیا گیاہے۔ کھانا گھر سے آتا ہے، ملاقاتوں پر پابندی نہیں۔ شہباز شریف قانونی طور پر زیر حراست ہیں پروڈکشن آرڈرپر اسلام آباد کی بہترین رہائش گاہ میں مقیم ہیں۔خواجہ سعد رفیق نیب حوالات کو عقوبت خانہ قرار دیتے تھے خود وہاں گئے تو نیب کے سلوک سے مطمئن ہیں انہوں نے کہا مجھے نیب کا کھانا پسند نہیں ان کو گھر سے کھانا پہنچایا جاتا ہے۔اکثر پروڈکشن آرڈر پر اسلام آباد میں ہوتے ہیں۔حکومت نے انتقام لینا ہوتا تو شہبازشریف جیل میں ہوتے سعد رفیق کو کھانا گھر سے منگوانے کی سہولت نہ ملتی۔انتقام کی زد میں ہوتے تو میاں نواز شریف اپنی خواہش پر اڈیالہ جیل کی بجائے کوٹ لکھپت جیل میں نہ ہوتے بلکہ ان کواٹک سے بھی آگے مچھ جیل میں رکھا جاتا ۔ آج اپوزیشن جس کو انتقام کہہ رہی ہے اس کا موازنہ بےنظیر بھٹو کے ساتھ رویہ و سلوک سے کیا جائے تو اُس کو پھر کیا کہا جائے گا؟۔

متعلقہ خبریں