’’قائد اعظم کا نظریہ ریاست ‘‘

ثناء اللہ زہری نے تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنے کے بجائے استعفیٰ دیدیا، وزیر اعظم خاقان عباسی زہری کی وزارت بچانے گئے مگر مایوس لوٹے۔ کہتے ہیں اکثرلیگی ارکان نے بات نہیں سنی دیا جنہوں نے بات سنی انہوں نے کہا ہم پر انٹیلی جنس اداروں کا دبائوہے۔ انہی دنوں عباسی نے ایک بار پھر کہا نواز شریف میرے وزیر اعظم ہیں، ان کے خلاف فیصلے ردی کی ٹوکری میں جائیں گے۔ اسی روز میاں نواز شریف نے جلسہ عام میں کہا پانچ ججوں کو جواب دینا پڑے گا انہیں نہیں چھوڑیں گے ، عباسی کے آئیڈیل نواز شریف ہیں۔ نواز شریف کے وہ ہونگے جن سے جائیداد یں بنانے‘ ٹیکس بچانے کے گُر سیکھے ۔اعلیٰ آئیڈیل کے انتخاب کیلئے ماحول‘ شعور اورتعلیم کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ نواز شریف اور عباسی بانیان پاکستان کی سیٹوں پر بیٹھتے ہیں۔ تاریخ سے عدم دلچسپی اور اپنی ہی تاریخ سے اتنے نا بلد کہ شیخ مجیب کو پاکستان کا حامی قرار دینے اوراس جیسا بننے کا اعلان کر دیا۔
قیوم نظامی پی پی کے اٹوٹ جیالے ہیں بھٹو کے فکر و فلسفے پر دل و جان سے فدا، ان کے بہت قریب رہے۔ قیوم نظامی نے گزشتہ دنوں ’’قائداعظم کا نظریہ ریاست‘‘ کتاب لکھی، اس کے لئے انہیںدیگر مشقت کیساتھ پچاس پچپن کتابوں کا مطالعہ بھی کرنا پڑا ۔اس دوران قائد اعظم کی شخصیت کے کئی نئے پہلو سامنے آئے تو انکے گرویدہ ہوگئے۔’’قائد کا نظریہ ریاست‘‘ درجنوں کتابوں کا نچوڑ اوراسلوب ایسا کہ پڑھنے والے کو لگتا ہے،وہ قائد اسی سے مخاطب ہیں۔
قائد کی شخصیت فکر فلسفے اور نظریے کے بارے میں بہت مبالغہ آرائی کی گئی۔ ڈاکٹر صفدر محمود قائد کی شخصیت‘اور نظریات کے حوالے پیدا کئے گئے شکوک دور کرنے میں کوشاں رہے ہیں۔ قیوم نظامی کی کتاب اس حوالے سے بھی اہم ہے۔قائد کی شخصیت کا جائزہ لیں تو ہمیں کسی اور آئیڈیل کی ضرورت نہیں رہتی۔بڑا آدمی بننے کیلئے بڑے لوگوں کے کرداروعمل سے آگاہی ضروری ہے،برصغیر میں یقینا قائد سے بڑا کھرا اور بااصول مسلم سیاستدان کوئی نہیں رہا۔جمہوری پبلیکیشنز کی شائع کردہ یہ کتاب نوجوان نسل کے لئے بالعموم اور سیاستدانوں کیلئے بالخصوص رہنمائی کا باعث بن سکتی ہے۔جہاں کتاب کے چند نکات پر نظر ڈالتے ہیں۔
ایک دن والدہ نے جناح سے کہا ، دیر تک پڑھنے سے صحت خراب ہو جائے گی۔ انہوں نے جواب دیا۔’’ اگر میں دیر تک نہیں پڑھوں گا تو بڑا آدمی کیسے بنوں گا۔‘‘
جناح لڑکپن میں اپنے والد کے ساتھ عدالت گئے ۔ وکیل کو گاؤن میں دیکھا تو کہا۔ ’’میں ایک بیرسڑ بنوں گا۔‘‘ نامور بیرسٹر جواچم ایلوے نے مسٹر جناح کی وکیلانہ صلاحیتوں پر ان الفاظ میں جامع تبصرہ کیا:۔’’جب وہ عدالت میں دھیرے دھیرے اُٹھتے، جج کی طرف بتدریج آہستہ آہستہ دیکھتے اپنی ایک چشمے والی عینک آنکھ پر لگاتے، وہ ایک منجھے ہوئے اداکار کی طرح منظر پر چھا جاتے۔ عدالت کا کمرہ اُن کی شخصیت کے سحر میں گرفتار دکھائی دیتا۔ وہ اپنا سر سیدھا رکھتے اور بدترین حالات میں ذرہ برابر بھی متاثر نہ ہوتے‘‘۔ ایک معروف تاجر حاجی عبدالکریم نے اپنے ایک اہم مقدمے کے سلسلے میں جناح سے ملاقات کی اور اُن سے فیس کے بارے میں پوچھا۔ جناح نے برجستہ جواب دیا ’’پانچ سو روپے روزانہ۔‘‘ حاجی عبدالکریم پاس پانچ ہزار کی پیشکش کی۔جناح نے پھرپانچ سو روزانہ کہا۔ مقدمہ تین دن میں ختم ہو گیا۔ جناح نے حاجی کریم کے اصرار کے باوجود پندرہ سو روپے ہی وصول کئے۔جناح نے انسانی زندگی کی کامیابی کے بارے میں ایک بار خود فرمایا:۔’’کردار، جرأت، محنت اور استقلال یہ چار ستون ہیں جن پر انسانی زندگی کی پوری عمارت تعمیر ہو سکتی ہے۔ ناکامی ایک ایسا لفظ ہے جس سے میں واقف نہیں ہوں۔
11 اگست 1947ء کو دستور ساز اسمبلی کے اجلاس میں ایک قرارداد منظور کر کے محمد علی جناح کو ’’قائداعظم‘‘ کے نام سے مخاطب کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ایک جلسے میں سات آٹھ مقررین نے عورتوں کو پردے میں رکھنے پر زور دیا تو قائد نے کہا، آپ چاہتے ہیں میں اپنی آدھی فوج کو ناکارہ بنا دوں۔ جب اسلام آیا عورتیں جنگوں میں شریک ہوتی تھیں۔ حضرت عائشہ نے گھوڑے پر بیٹھ کر جنگ میں حصہ لیا۔ قائداعظم سرکاری خزانے کے استعمال کے سلسلے میں بے حد محتاط تھے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ذاتی طور پر روشن مثالیں چھوڑیں۔ قائداعظم نے گورنر جنرل ہاؤس کے اخراجات کو بہت محدود رکھا۔ اُن کا سٹاف بہت کم تھا۔ وہ کابینہ کا اجلاس کے دوران چائے پیش نہیں کرتے تھے۔ رات کو فالتو لائٹیں بند کروا دیتے ۔ علامتی طور پر ایک روپیہ ماہوار تنخواہ لیتے تھے۔ انہوں نے کہا:’’پیسے کا ضیاع گناہ ہے اور اگر سرمایہ سرکاری خزانے کا ہے تو اسے ضائع کرنا بدترین گناہ ہے۔‘‘
انہوں نے اخبار ’’ڈان‘‘ جس کے مالک تھے قوم کے نام وقف کر دیا اور اپنے ذاتی مالی اثاثے اور غیر منقولہ جائیداد بھی تعلیمی اور فلاحی اداروں کے لئے وقف کر دی۔قائداعظم گورنر جنرل ہاؤس میں منتقل ہوئے تو انہوں نے نئے رنگ روغن اور نئے فرنیچر سے منع کر دیا تاکہ قومی خزانے کا ضیاع نہ ہو۔ محترمہ فاطمہ جناح ناشتے کے لئے بیکری سے ڈبل روٹی منگواتی تھیں، وہ بچ جاتی تھی۔ فاطمہ جناح نے بیکری والے کو فون کر کے ہدایت کی کہ وہ چھوٹے سائز کی ڈبل روٹی تیار کرے تاکہ خرچ بھی کم ہو اور روٹی ضائع بھی نہ ہو۔جب تحریک پاکستان عروج پر تھی تو مسلم لیگ کے رہنماؤں نے قائداعظم کو مسلم لیگ کا تاحیات صدر بنانے کی تجویز پیش کی۔ قائداعظم نے اس تجویز سے اتفاق نہ کیا۔ جنوری 1948ء میں کراچی میں فسادات ہوئے اس موقع پر چند صوبائی وزیروں نے کرفیو کو توڑتے ہوئے اندھا دھند فائرنگ کی۔ فوج کے افسر نے اُن کو حراست میں لے لیا۔ یہ مسئلہ گورنر جنرل تک پہنچا۔ وزیروں نے موقف اختیار کیا کہ وہ امن و امان بحال کرنے کے لیے انتظامیہ کی معاونت کر رہے تھے۔ جنرل اکبر نے کہا کہ کراچی میں امن کا قیام اُن کی ذمہ داری ہے صوبائی وزراء کو مداخلت کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ قائداعظم نے جنرل اکبر سے اتفاق کیا، وزراء سے تحریری معافی نامہ حاصل کیا اور جنرل اکبر سے کہا کہ وہ وزیروں سے ہاتھ ملائیں اور اُن کو موٹرکار تک چھوڑ کر آئیں۔
ایئر مارشل اصغر خان نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے کہ پاکستان کے پہلے آزادی پر استقبالیہ کے دوران ایک فوجی افسر کرنل اکبر خان نے قائداعظم عہدوں کا گلہ کیاتو قائداعظم نے اسے ڈانٹا اور کہا:۔’’مت بھولو کہ تم ریاست کے ملازم ہو، تم پالیسی نہیں بناتے۔ ہم عوام کے نمائندے فیصلہ کرتے ہیں کہ ملک کو کیسے چلانا ہے۔ تمہارا کام صرف اپنے سول حاکموں کے فیصلوں پر عمل کرنا ہے۔‘‘
سردار عبدالرب نشتر نے جنرل ایوب کی فائل قائداعظم کو روانہ کی اور نوٹ لکھا کہ ایوب خان مہاجرین کی بحالی اور ریلیف کی بجائے سیاست میں دلچسپی لیتا ہے۔ قائداعظم نے اس فائل پر یہ آرڈر لکھا:۔
’’میں اس آرمی افسر کو جانتا ہوں۔ وہ فوجی معاملات سے زیادہ سیاست میں دلچسپی لیتا ہے۔ اس کو مشرقی پاکستان ٹرانسفر کیا جاتا ہے۔ وہ ایک سال تک کسی کمانڈ پوزیشن پر کام نہیں کرے گا، اس مدت کے دوران بیج نہیں لگائے گا۔‘‘
قیوم نظامی کی کتاب میں قائد کو سیکولر قرار دینے والوں کو بھی منطقی جواب دیا گیا ہے۔قائداعظم نے 19 فروری 1948ء کو آسٹریلیا کے عوام سے اپنے نشری خطاب میں کہا:۔ ’’ہماری عظیم اکثریت مسلمان ہے۔ ہم رسول خدا محمدؐ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں۔قائداعظم نے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں اپنے خطاب کے دوران کہا:۔’’مسلمانو!۔۔۔ میں چاہتا ہوں کہ جب مروں تو یہ یقین اور اطمینان لے کر مروں کہ میرا ضمیر اور میرا خدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی۔ میرا خدا یہ کہے کہ بے شک تم مسلمان پیدا ہوئے اور کفر کی طاقتوں کے غلبہ میں اسلام کے علم کو بلند رکھتے ہوئے مسلمان مرے۔قائداعظم نے 25 جنوری 1948ء کو عیدمیلادالنبیؐ کے موقع پر کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے آئین اور مذہب کے بارے میں اپنے تصور اور نظریے کو بیان کیا تھا۔قائد ہر سال عید میلادؐ کے حوالے سے تقریب میں شریک ہوتے تھے۔