جب زندگی شروع ہو گی

میں دیگر شہدا اور انبیا کے ساتھ ایک دفعہ پھر اعراف کی بلندی پر کھڑا تھا۔ اس بلند مقام سے میدان حشر بالکل صاف نظر آرہا تھا۔ تاحد نظر وسیع میدان میں لوگوں کو دو گروہوں میں جمع کردیا گیا تھا۔ میدان کے داہنے ہاتھ پر تاحد نظر لوگوں کی صفیں در صفیں بنی ہوئی تھیں۔ میدان کے بائیں طرف لوگ ایک ہجوم کی شکل میں گھٹنوں کے بل بیٹھے تھے۔ان کے ہاتھ پیچھے کرکے باندھے گئے تھے اور جہنم کا نظارہ ان کے سامنے تھا۔ یہ اہل جہنم تھے جن کے لیے ابدی خسارے کا فیصلہ سنایا جاچکا تھا۔ وہ منتظر تھے کہ کب وہ اپنے فیصلہ کن انجام سے دوچار ہوتے ہیں۔ ان کے چہرے اترے ہوئے، آنکھیں بجھی ہوئیں، پیشانی عرق آلود اور گردن جھکی ہوئی تھی۔ ان کی رنگت سیاہ پڑچکی تھی، جسم پر گرد و غبار اٹی ہوئی تھی۔یہ بائیں ہاتھ والے تھے۔ ان بائیں ہاتھ والوں کی بدبختی کا کیا کہنا تھا۔
سامنے عرش الٰہی تھا۔ اس کے جلال و جمال کا کیا کہنا! عرش کے اطراف صف در صف فرشتے کھڑے ہوئے تھے۔ ان کے بیچ میں عرش سے متصل آٹھ انتہائی غیر معمولی فرشتے کھڑے ہوئے تھے۔ یہ حاملین عرش تھے۔ فرشتوں کی زبان پر حمد و تسبیح کے الفاظ جاری تھے۔ جبکہ عرش کے پیچھے قدرے بلندی پر جنت و جہنم دونوں کا نظارہ واضح طور پر نظر آرہا تھا۔ داہنے طرف جنت تھی جس سے اٹھنے والی خوشبووں نے حشر کے داہنے حصے کو مہکا رکھا تھا اور وہاں سے بلند ہونے والے نغموں نے دلوں کے تاروں کو چھیڑدیا تھا۔ جنت کی بستی کے حسین ترین مرغزار، سبزہ زار، باغیچے، محلات، نہریں، خدام واضح طور پر نظر آرہے تھے۔ اس جنت کا منظر ہر شخص کی نگاہوں کو للچارہا تھا۔ اہل جنت اپنی خوش نصیبی پر رشک کرتے، اس جنت کی آرزو دل میں لیے ایک دوسرے کے ساتھ خوش گپیاں کررہے تھے۔
دوسری طرف جہنم کا انتہائی بھیانک نظارہ عرش کے الٹی طرف نمایاں تھا۔ آگ کے شعلے سانپ کی زبان کی طرح بار بار لپک رہے تھے۔ جہنم میں دیے جانے والے مختلف قسم کے عذابوں کا نظارہ دلوں کو دہلارہا تھا۔ بدبو، غلاظت، آگ، زہریلے حشرات، وحشی جانور، کڑوے کسیلے پھل، کانٹے دار جھاڑ جھنکار، پیپ اور لہو کا کھانا، کھولتا ہوا پانی، ابلتے ہوئے تیل کی تلچھٹ، ان جیسے ان گنت عذاب اور سب سے بڑھ کر انتہائی بدہیبت اور خوفتاک فرشتے جو ہاتھوں میں کوڑے، زنجیریں، طوق اور ہتھوڑے لے کر اہل جہنم کا استقبال کرنے کے لیے موجود تھے۔اہل جہنم کی بدحالی پہلے ہی کچھ کم نہ تھی کہ اب جہنم کو انہوں نے آنکھوں سے دیکھ لیا تھا۔ اس منظر نے ان کی ہمت کو آخری درجے میں توڑ ڈالا تھا۔ وہ وحشت زدہ نظروں سے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ ان میں سے ہر شخص کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ کسی طرح ان کی موت کا فیصلہ سنادیا جائے۔ مگر افسوس کہ جہنم میں ہر عذاب تھا سوائے موت کے۔ کیونکہ اہل جہنم کے لیے موت سب سے بڑی راحت تھی لیکن جہنم مقام عذاب تھا، مقام راحت نہیں۔
اہل جنت و اہل جہنم کے بیچ میں ایک شفاف پردہ تھا۔ جس سے دونوں ایک دوسرے کو دیکھ سکتے اور گفتگو کرسکتے تھے، مگر اس پردہ کو عبور نہیں کرسکتے تھے۔ اہل جنت اہل جہنم سے پوچھتے کہ ہم نے تو اپنے رب کے وعدے کو سچ پایا جواس نے ہم سے کیا تھا۔ کیا تم نے بھی جہنم کے سارے وعدے اور تفصیلات سچ پائے جو اللہ نے تم سے کیے تھے۔ ان اہل جہنم کے پاس جواب میں اعترافاً گردن جھکادینے اور ہاں کہنے کے علاوہ کوئی اور چارہ ہی نہیں تھا۔
وہ بھوک اور پیاس سے بلک رہے تھے۔ اس لیے برابر میں اہل جنت کے سامنے میوے، گوشت کی رکابیاں گردش کرتے اور انھیں جام نوش کرتے دیکھتے تو کہتے کہ یہ پانی اور دیگر غذائیں جواللہ نے تمھیں دی ہیں،کچھ ہمیں بھی کھانے کے لیے دے دو۔ جواب ملتا کہ یہ اللہ نے اہل جہنم پر حرام کررکھی ہیں۔
ہم اوپر کھڑے یہ سب کچھ دیکھ اور سن رہے تھے۔ گرچہ ہمارے فیصلے کا اعلان ایک رسمی سی بات تھی، مگر نجانے کیوں میرا دل ڈر رہا تھا۔ میں اللہ تعالیٰ سے اس کی رحمت اور درگزر کا سوال کررہا تھا۔ میں دعا کررہا تھا کہ پروردگار ہمیں اہل جہنم کا ساتھی نہ بنا بلکہ اہل جنت میں داخل فرما۔ یہی دعا دوسرے لوگ کررہے تھے۔اسی اثنا میں اعلان ہوا کہ ہمارے انبیا اور شہدا کا نامہ اعمال انھیں دیا جائے۔ میری توقع کے برخلاف اس موقع پر کوئی حساب کتاب یا پیشی نہیں ہوئی۔ صرف یہ ہوا کہ ہر شخص کو آگے سامنے کی طرف بلایا جاتا جہاں ہر جنتی اور جہنمی اسے دیکھ سکتا تھا۔ وہ شخص اپنے ساتھ موجود فرشتوں کے ہمراہ چلتا ہوا آگے آتا۔ فرشتے انتہائی اکرام کے ساتھ اسے عرش کے سامنے لے جاتے۔ جہاں زندگی میں اس کے کارناموں اور آخرت میں ان کی کامیابی کا اعلان کیا جاتا۔
جس وقت کوئی شخص پیش ہوتا، اس کے زمانے کے سارے حالات، اس کے مخاطبین کی تفصیلات، لوگوں کا ردعمل اور اس کی جدوجہد ہر چیز کو تفصیل سے بیان کیا جاتا۔ سامعین یہ سب سنتے اور اسے داد دیتے۔ آخر میں جب اس کی کامیابی اور سرفرازی کا اعلان ہوتا تو مرحبا اور ماشائ اللہ کے نعروں سے فضا گونج اٹھتی۔ اہل جنت تالیاں بجاتے، بعض اٹھ کر رقص کرنے لگتے اور بعض سیٹیاں اور چیخیں مار کر اپنی خوشی کا اظہار کرتے۔
جب میرا نام پکارا گیا تو ساتھ کھڑے ہوئے سارے لوگوں نے مبارکباد دی۔ میں صالح اور امثائیل کے ہمراہ کنارے پر پہنچا جہاں سے میدان میں کھڑے سارے لوگ مجھے دیکھ سکتے تھے۔ امثائیل نے میرا نامہ اعمال اٹھا رکھا تھا۔ جبکہ صالح میرے آگے آگے چل رہا تھا۔ وہاں پہنچ کر میں سر جھکاکر کھڑا ہوگیا۔ آواز آئی:
”عبدا للہ سر جھکانے کا وقت گزر گیا۔ اب سر اٹھاو۔ لوگ تمھیں دیکھنا چاہتے ہیں۔“
میں نے سر اٹھایا اس طرح کہ میری آنکھوں میں شکر گزاری کے آنسو اور میرے ہونٹوں پر کامیابی کی مسکراہٹ تھی۔
میں نے جائزہ لینے کے لیے نظریں میدان کے بائیں طرف پھیریں۔ یہاں ایک دوسرا ہی منظر تھا۔ شرمندگی، رسوائی، پچھتاوے، اندیشے، ذلت، محرومی، مایوسی، پریشانی، اذیت، مصیبت، ملامت، ندامت اور حسرت کی ایک ختم نہ ہونے والی سیاہ رات تھی جو اہل جہنم کے حال پر چھائی ہوئی تھی۔میرا دل چاہا کہ میں کسی طرح وقت کا پہیہ الٹا گھماکر پرانی دنیا میں لوٹ جاوں اور یہ منظر دنیا والوں کو دکھا سکوں۔ میں چیخ چیخ کر انہیں بتاوں کہ محنت کرنے والو! ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے والو! مال و اسباب کی ریس لگانے والو! مقابلہ کرنا ہے تو اس دن کی سرفرازی کے لیے کرو۔ ریس لگانی ہے تو جنت کے حصول کے لیے لگاو۔ منصوبے بنانے ہیں تو جہنم سے بچنے کے منصوبے بناو۔ میرا دل چاہا کہ میں کسی طرح وقت کا پہیہ الٹا گھماکر پرانی دنیا میں لوٹ جاوں اور یہ منظر دنیا والوں کو دکھا سکوں۔ میں چیخ چیخ کر انہیں بتاوں کہ محنت کرنے والو! ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے والو! مال و اسباب کی ریس لگانے والو! مقابلہ کرنا ہے تو اس دن کی سرفرازی کے لیے کرو۔ ریس لگانی ہے تو جنت کے حصول کے لیے لگاو۔ منصوبے بنانے ہیں تو جہنم سے بچنے کے منصوبے بناو۔ پلاٹ، دکان، مکان، بنگلے، اسٹیٹس، کیرئیر، گاڑی، زیور اور لباس فاخرہ میں ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنے والو! دنیا کے ملنے پر ہنسنے اور اس کی محرومی پر رونے والو! ہنسنا ہے تو جنت کی امید پر ہنسو اور رونا ہے تو جہنم کے اندیشے پر رویا کرو۔
مرنا ہے تو اس دن کے لیے مرو اور جینا ہے تو اس دن کے لیے جیو۔۔۔ جب زندگی شروع ہوگی۔ کبھی نہ ختم ہونے کے لیے۔
میری آنکھوں سے بہنے والی آنسووں کی لڑی اور تیز ہوگئی۔ اس دفعہ یہ آنسو خوشی کے نہیں تھے۔ اس احساس کے تھے کہ شاید میں تھوڑی سی محنت اور کرتا تو مزید لوگوں تک میری بات پہنچ جاتی اور کتنے ہی لوگ جہنم میں جانے سے بچ جاتے۔ میرے دل میں تڑپ کر احساس پیدا ہوا۔ کاش ایک موقع اور مل جائے۔ کاش کسی طرح گزرا ہوا وقت پھر لوٹ آئے۔ تاکہ میں ایک ایک شخص کو جھنجھوڑ کر اس دن کے بارے میں خبردار کرسکوں۔ میرے دل کی گہرائیوں سے تڑپ کر ایک آہ نکلی۔ میں نے بڑی بے بسی سے نظر اٹھاکر عرش کی طرف دیکھا۔ وہاں ہمیشہ کی طرح رخ انور پر جلال کا پردہ تھا۔ حسن بے پروا کی اداے بے نیازی تھی اور جمال و کمال کی ردا، شانِذوالجلال کے شانہ اقدس پر پڑی تھی۔ مجھ بندعاجز کی نظر ذات قدیم الاحسان کی قبائے صفات میں پوشیدہ ان قدموں پر آکر ٹھہرگئی، جہاں سے میں کبھی نامراد نہیں لوٹا تھا۔ اس حقیر فقیر بند پرتقصیر کی ساری پہنچ انھی قدموں تک تھی۔ کل جہاں سے بے نیاز شہنشاہ ذوالجلال کے لیے اس بات کی کوئی اہمیت تھی تب بھی، اور اس کی کوئی اہمیت نہیں تھی تب بھی، یہی میرا کل اثاثہ تھا۔ یہی میری کل پہنچ تھی۔
دل کو کچھ قرار ہوا تو میری نظر دوبارہ اہل جہنم کی طرف پھرگئی۔ ان میں سے بہت سے لوگ ایسے تھے جنھیں میں جانتا تھا۔ ان کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ یہ آپس میں گھس پل کرتنگی میں دوزانو غلامانہ بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ لوگ نظر نہیں ملارہے تھے بلکہ بہت سوں نے تو پیٹھ پھیرلی تھی۔ اس لیے میں اپنے جاننے والے زیادہ لوگوں کو وہاں نہیں دیکھ سکا۔ لیکن ان کو دیکھ کر اس نعمت کا احساس ہوا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل و کرم سے اس برے انجام سے بچالیا۔ مجھے محسوس ہوا کہ جنت کی ان گنت نعمتوں میں سے دو سب سے بڑی نعمتیں شاید یہ ہیں کہ انسان کو جہنم سے بچالیا جائے گا اور دوسرا اسے بڑی عزت کے ساتھ جنت میں لے جایا جائے گا۔
(جاری ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔