تبدیلی!

2018 ,اگست 8



ہفتے کے روز سارا دن بجلی کی آنکھ مچولی کے ساتھ ساتھ اسکی سپلائی میں کمی بیشی بھی ہوتی رہی۔بجلی کے آلات کو جتنا نقصان بجلی کی کمی اتنا ہی نقصان بجلی کی زیادتی بھی پہنچاتی ہے۔یہ کوئی رات 12 بجے کاوقت تھا۔انرجی سیورز کی روشنی پر بجلی کی کمی کا زیادہ اثر نہیں پڑتاالبتہ پنکھوں کی سپیڈ کا بلندی سے پستی اور پھر فراٹے بھرنا اس پر بجلی گرنے کا فسانہ سنارہی تھی۔اسی دوران اچانک دھماکے کی آواز نے چونکا دیا۔ ٹرانسفارمر پھٹنے سے دھماکے کی آواز دور دور تک سنائی دیتی ہے۔مگر یہ دھماکہ کسی ٹرانسفارمر کا نہیں تھا ہمارے گھر میں ہوا تھا۔ساتھ والے کمرے میں انرجی سیور پھٹ کر کرچی کرچی ہو گیا۔ اسکے پرخچے بیڈ سمیت پورے کمرے میں بکھر گئے۔بیڈ پر ہماری 10 ماہ کی پوتی کھیل رہی تھی۔شکر ہے وہ بالکل محفوظ رہی۔ایک لمحے میں پورا گھر اندھیرے میں ڈوب گیا۔یہ سانحہ بجلی میںطوفانی اضافے سے پیش آیا۔اسکے ساتھ ہی لائٹ چلی گئی۔یو پی ایس جلااور ٹھنڈا پڑکر خاموش ہوچکا تھا۔موبائل فون کی روشنی میں بلب کی کرچیاں سمیٹیں۔بقیۃ البرق آلات کا علم بجلی کی بحالی پرہوسکتاتھا۔بجلی نے گو جانے کیلئے آنا ہی تھا۔آئی تو دو پنکھے نہیں چل رہے تھے۔سارے انرجی سیور بائے بائے کہہ گئے۔اے سی جلے تو نہیں لیکن قلم چھوڑہڑتالی کلرکوں کی طرح کام چھوڑ دیا۔اگلے روز ان کی سروس کرائی۔پنکھوں کا جائزہ لیا تو ڈمر جلے تھے۔ ڈمراورانرجی سیورنئے لگادیئے۔تبدیلی کے علمبردارعمران خان نے ابھی حلف اٹھاناہے مگرہمارے گھر میں اس سے پہلے ہی تبدیلی آگئی۔
ویسے تو تبدیلی کا عمل کبھی رُکا نہیں ہے البتہ پاکستان میں تبدیلی کا عمل گزشتہ سال انوکھے اور منفرد انداز سے شروع شروع ہوا۔پانامہ کا ہنگامہ میاں محمد نواز شریف کو لے ڈوبا۔وہ تخت سے نااہلی کی ٹرین پر سوار ہوکر اڈیالہ جیل جا پہنچے۔عمران خان دھرنوں میں خوار ہوتے ہوتے تخت لاہور اور اسلام آباد پر براجمان ہونے کو ہیں۔تخت لاہور تو یقینی طور پر پی ٹی آئی کی دسترس میں آ رہا ہے۔تاج ِاسلام آباد سر پر سجے گا تو یقین ہوگا۔اِدھر تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی نے عمران خان کو وزیراعظم نامزد کیااُدھر شکست خوردہ سے زیادہ زخم خوردہ مسلم لیگ ن نے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا شہسوارقراردیدیا۔پیپلزپارٹی مولانا فضل الرحمن کی پارٹی اور دیگر پارٹیاں تحریک انصاف کیخلاف متحد ہیں۔یہ پاکستان کی سیاست ہے اس میں بہت کچھ ہوتا رہا ہے آئندہ بھی کچھ وکھری ٹائپ کا ہو سکتا ہے۔
پاکستان کی سیاست میں اس بڑی تبدیلی کیا ہوگی، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو شیر اور بکری کہہ لیں یا آگ اور پانی اور دونوں ایک گھاٹ سے پانی پی رہی ہیں۔اس میں تعجب نہیں ہونا چاہئے چند ماہ قبل پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی متفقہ چیئرمین سینیٹ لائی تھیں۔وزارت عظمیٰ کیلئے شہباز شریف اور عمران خان مدمقابل ہونگے۔کون کتنے ووٹ لے گا اس کا اندازہ سپیکر ڈپٹی سپیکر کے الیکشن سے ہو جائیگا۔ وزیر اعظم کے الیکشن سے ایک روز قبل ہونے ہیں۔ظفراللہ جمالی ایک ووٹ کی اکثریت سے وزیر اعظم بنے تھے۔مولانا اعظم طارق کو ووٹ نہ دیتے تو کیا ہوتا ہے۔مولانا اعظم طارق کے ایک ووٹ نہ دینے سے جو ہو سکتا تھا وہ نہیں ہوا۔سپیکر کے الیکشن کے دوران تاریخ اپنے آپ کو دہرا سکتی ہے۔ انیس سو چھیاسی کی غیرجماعتی اسمبلی میں جنرل ضیاء الحق کے کڑے مارشل لاء کی چھتری تلے خواجہ آصف کے اباجی خواجہ صفدر سپیکر کے امیدوار تھے۔وہ ناکام ہوجائینگے کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔خواجہ صفدر کے حامی ووٹنگ سے پہلے ہی جشن منا رہے تھے مگر خفیہ رائے شماری میں فخرامام سپیکر منتخب ہوگئے۔اب بھی ایسا ہوتا ہے تو یہ بھی تبدیلی ہوگی ایسا نہیں ہوتا تو بھی تبدیلی ہے۔
عمران خان وزیراعظم بنتے ہی تو تبدیلی ہے‘ شہباز شریف بن جائیں تو بھی تبدیلی ہے۔تحریک انصاف کیخلاف تمام قابل ذکر پارٹیاں متحد ہو چکی ہیں۔بظاہر تحریک انصاف کے وزارت عظمی کیلئے نمبر پورے ہیں ان نمبروں میں 6 ایم کیو ایم کے لوگ بھی ہیں۔ ماضی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس پارٹی کے عزم و ارادے کے بارے میں کوئی پیشگوئی نہیں کی جاسکتی۔ کسی بھی وقت کسی بھی طرف پانسہ پلٹ سکتا ہے۔کچھ لوگوں کا عمران خان کے پلڑے میں وزن ڈالتے ہوئے کہنا ہے ،جوان کو اس حد تک لے آئے وہ وزیراعظم بھی بنوائیں گے۔
دھاندلی کے الزامات لگانے والوں کو روکا جاسکتا ہے نہ انتخابات کو شفاف قرار دینے والوں کو ٹوکاجاسکتا ہے۔ ہارنے والی پارٹیاں نادیدہ قوتوں کو دوش دے رہی ہیں۔یہ نقطہ نظر بھی سامنے آرہا ہے کہ جیتنے والوں کی جیت کو محدود کیا گیا۔تحریک انصاف رات11بجے تک 135کی منزل پر پہنچی نظر آرہی تھی ۔آر ٹی ایس کے بٹن پر انگلی رکھنے والے شاید خان کیلئے اتنے بھاری مینڈیٹ کے حق میں نہیں تھے جس کا بوجھ ’’ایمپائر‘‘ کی برداشت سے باہر ہوجائے اس لئے ممکنہ طور پرکاریگری کی گئی۔کاریگری کیسے ہوئی اس بارے میں ابھی راز افشا نہیں ہوئے کچھ نہ کچھ ہوا ہے‘ اسکی سمجھ آتی ہے مگر تحریک لبیک کے ساتھ جو ہوا وہ سمجھ سے بالاتر ہے۔تحریک لبیک نے بریلوی مکتبہ فکر کی نمائندگی کرنے والی تمام سیاسی جماعتوں کو کارنر کردیا۔اس مکتبہ فکر کی تحریک لبیک واحد سب سے بڑی اور موثر آواز ہے۔اس نے 26لاکھ ووٹ لیے قومی اسمبلی میں ایک سیٹ بھی نہیں ملی۔اپنے ساتھ ہونیوالے ستم پر علامہ خادم حسین رضوی کی جلالی اور جمالی قیادت میں پُر امن احتجاج کر رہی ہے۔اسکے احتجاج میں شدت آئی تو اپوزیشن کے گرینڈ الائنس کو کہیں پیچھے چھوڑ دیگی۔انتخابات کے دوران کیا کاریگری ہوئی اس میں نئی آنیوالی حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔مگر نئی حکومت کو تحریک لبیک کے تحفظات دور کرنا ہونگے۔گرینڈ الائنس گردوغبار کی مانند ہے اسے ہوا دی گئی تو بگولا بن جائیگا جس کا امکان نظر نہیں آتا۔تحریک لبیک کی بات نہ سنی گئی تو وہ تہیہ طوفان تو کیے ہوئے ہیں بگولا اور طوفان بھی بن سکتے ہیں۔
ایک تبدیلی اور سر چڑھ کر بول رہی ہے۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے آصف علی زرداری اور فریال تالپور کیخلاف بھی پاناما طرز کی جے آئی ٹی بنانے کی بات کی ہے۔منی لانڈرنگ کے حوالے سے وہ کہتے ہیں ۔’’یہ پیسہ چوری کا ناپاک اور حرام ہے‘‘۔انصاف بے لاگ اور بلاامتیاز "دی اکروس بورڈ" کا بورڈ ہوا تو کسی کو یہ کہنے کا موقع نہیں ملے گا ’’تیرا چور مردہ باد میرا چور زندہ باد۔‘‘
عمران خان نے درست کہا ہے تبدیلی نہ لا سکے تو حال اے این پی اورایم ایم اے جیسا ہوگا۔انہوں نے پروٹوکول پر برہمی کا اظہار کیا۔ ایسا ہر نہ آنیوالا حکمران کرتا ہے مگر پھر روایات کا اسیر ہو جاتا ہے۔عمران نے کہا وہ روزانہ برطانوی وزیراعظم کی طرح دو گھنٹے عوام کی بات سنیں گے۔برطانوی وزیراعظم کا تو پتہ نہیں البتہ میاں نواز شریف نوے کی دہائی میں ہفتے یا مہینے میں ایک بار ایک گھنٹہ فون پر عوامی شکایات سنا کرتے تھے۔عمران معیشت کو مضبوط بنانے کا عزم رکھتے ہیں۔وہ جانفشانی سے اپنے پروگرام کو عملی شکل دینے کی کوشش کریں تو اسی سال ڈالر اور پیٹرول کی قیمت پچاس پرآ سکتی ہے۔

متعلقہ خبریں