علامہ اقبال اتحاد بین المسلمین کے داعی
لاہور(خالد یزدانی):آج شاعر مشرق، حکیم الامت، مفکر پاکستان کا یوم وفات ہے۔ علامہ اقبالؒ وہ عظیم رہنما تھے جنہوں نے اپنے پراثر کلام سے برصغیر کے مسلمانوں کے دلوں میں حصول آزادی کے جذبے کو ابھارا بلاشبہ سرسید کے بعد برصغیر کے مسلمانوں میں بیداری کی لہر پیدا کرنے اور نشان منزل کا پتہ دینے والے رہنمائوں میں علامہ اقبال کا نام سرفہرست ہے۔ یہ شاعر مشرق ہی تھے جنہوں نے مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ وطن کا خواب دیکھا اور ان میں منزل کی جانب گامزن کرنے میں ا ن کی فکر نے نمایاں کردار ادا کیا۔ بعدازاں برصغیر کے مسلمانوں نے آپ ہی کے پیدا کردہ جوش و جذبہ کے ذریعہ بانی پاکستان حضرت قائداعظمؒ محمد عل جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں انتہائی کم وقت میں قیام پاکستان کے خواب کو حقیقت میں بدل کر دنیا کو حیران کر دیا تھا۔ آج سالہاسال گزر جانے کے باوجود علامہ اقبالؒ کی عظمت کو سب مانتے ہیں اردو اور فارسی شاعری میں ان کا کوئی ثانی نہیں، جتنا معاشرتی شعور اقبال کا گہرا تھا اتنا کسی دوسرے شاعر کا نہیں تھا اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ علامہ اقبالؒ نے مشرق اور مغرب دونوں کے علوم کی تحصیل کی تھی۔
علامہ اقبالؒ نے جس دور میں آنکھ کھولی وہ فکر اور فلسفے کے عروج کا دور تھا اس میں انسانی زندگی کی کوئی جہت ایسی نہ تھی جس پر کمال سنجیدگی سے غور و تفکر کا سلسلہ قائم اور ادب کی کوئی صنف ایسی نہ تھی جس میں ایک سے ایک بڑا اضافہ نہ ہوا ہو ،علامہ اقبالؒ کے قلب و ذہن اسلام کے نور حقانیت سے منور تھے۔ انہوں نے اسی روشنی میں علمی، تہذیب اور فلسفیانہ تحریکوں اور سیاسی رجحانات کا عمیق نظری سے مطالعہ اور تجزیہ کیا اور مسلمانوں کو اپنا آپ پہچاننے، وقت کا ساتھ دینے اور درپیش چیلنجوں کا سامنا کرنے کے قابل بنانے کی ذمہ داری سنبھال لی۔ ہر سچے مفکر اور فلسفی کا ہمیشہ سے یہی کردار رہا ہے وہ زندگی کے احوال و مسائل کا تجزیہ کرتا ہے، گرہیں کھولتا اور عقدوں کو وا کرتا ہے، انسان کو عقل و شعور اور آگہی سے بہرہ ور کرتا ہے اسے زندگی کو بامقصد انداز میں گزارنے کا ڈھب اور مشکلوں کو آسان کرنے کا ہنر سکھاتا ہے۔ علامہ اقبال نے بھی یہی کیا۔ انہوں نے ہمیں درس حیات دیا اور بتایا کہ ہم خودشناس، خود نگر اور خوددار ہوں گے تو اپنی انفرادی اور اجتماعی پہچان کو برقرار رکھ سکیں گے اپنی تہذیب و ثقافت کا تحفظ کر سکیں اور آزادی کی نعمت سے بہرہ ور ہونے کے ساتھ اس نعمت کو محفوظ بھی رکھ سکیں گے۔
علامہ اقبالؒ عمل و کردار، جہد و سعی، تعمیر تخلیق کے نقیب تھے وہ جمود و تعطل اور ہزیمت و پسپائی کو موت کے مترادف سمجھتے تھے ان کا مخاطب یوں تو پورا عالم انسان تھا تاہم وہ نوجوانوں کو زندگی کے ہر شعبے میں نمایاں کردار ادا کرتا ہوا دیکھنا چاہتے تھے اور ان کو مستقبل کا امین اور معمار سمجھتے تھے اس لئے زیادہ تر انہی کو دعوت فکر و عمل دیتے تھے انہیں ستاروں پر کمند ڈالنے کی تحریک کرتے اور ستاروں سے آگے کے جہانوں کی نوید دیتے تھے اور ان تک رسائی حاصل کرنے پر آمادہ کرتے ان کے دلوں کو سوز عشق و یقین سے گرماتے اور ان کو مہم جوئی کا اور مشکل سے مشکل مرحلوں کو سر کرنے کا درس دیتے۔
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
علامہ اقبالؒ سچے عاشق رسولؐ تھے وہ ہادی برحق حضرت محمدؐ سے وفا کو معراج انسانیت سمجھتے تھے۔ اسوہء رسولؐ ہمیشہ ان کے سامنے رہا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ سب انسانوں سے محبت کرتے تھے ان کی فلاح چاہتے تھے۔ وہ دوئی اور غیریت کے نہیں مودت و اتحاد کے قائل تھے۔
برصغیر کے مسلمانوں پر 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد جو افتاد آئی اس کے اسباب اور محرکات علامہ اقبالؒ پر واضح تھے انہوں نے گہرے غور و فکر کے بعد یہی نتیجہ اخذ کیا کہ مسلمانوں کی نجات کا ایک ہی راستہ ہے ان کا الگ قومی تشخص اجاگر ہو اور اسے تسلیم بھی کیا جائے وہ اپنے معاملات خود کرنے کے قابل ہو، ان پر کسی کی بالادستی نہ ہو وہ آزاد اور خودمختار ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ 1930ء میں الہ آباد میں حضرت علامہ اقبالؒ نے جو تاریخی خطبہ دیا اس میں انہوں نے اپنا نظریہ بڑی صراحت کے ساتھ پیش کیا تھا اور دنیا نے بھی دیکھا کہ اسی میں اسلامیان برصغیر کو اپنی منزل کا سراغ ملا تھا۔
آل انڈیا مسلم لیگ کا الہ آباد میں تاریخی اجلاس 1930ء منعقد ہوا علامہ اقبال نے صدارت فرمائی تلاوت کلام پاک کے بعد بیرسٹر محمد حسین جو کونسل آف اسٹیٹ کے رکن تھے اور وکالت میں قائداعظم محمد علی جناحؒ کے جونیئر تھے نے خطبہ استقبالیہ میں کہا ’’ میں حکومت کو تنبیہ کرتا ہوں کہ اگر گول میز کانفرنس میں ہندو مسلم مسئلہ کا حل تلاش نہ کیا گیا تو مسلمان اپنے مطالبات کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے‘‘ پھر علامہ اقبال نے اپنا تاریخی خطبہ صدارت دیتے ہوئے کہا ’’مسلمانان برصغیر نے مصمم ارادہ کر لیا ہے کہ وہ جذبہ اسلام کو نہ صرف ہر دل عزیز رکھیں گے بلکہ روح اسلام پر صدق دل سے کاربند رہیں گے اسلام انسان کے دو حصے نہیں کرتا جس سے اس کی دینی و دنیاوی زندگی تقسیم ہو کر رہ جائے اسلام کوئی نظریہ نہیں بلکہ زندہ حقیقت ہے اور مسلمانان ہند کے تشخص کی بنیاد ہے اور اسی کا ثقافتی تعلق مشرق وسطیٰ اور مغربی ایشیا سے ہے ، براعظم ہند کے لوگوں کی سوچ اس حقیقت پر مبنی ہے اس لئے ہر مفاہمتی و مصالحتی قدم ناکام ہو رہا ہے‘‘ پھر انہوں نے فرمایا’’ہندوستان کے مسئلہ کے حل کیلئے علیحدہ قومیت کا وجود ناگزیر ہے ہندوستانی معاشرہ کی اکائیاں یورپی ممالک کی طرح علاقائی نہیں یہ خطہ مختلف زبانیں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والوں اور مختلف نسلوں پر مشتمل انسانی گروہوں کا ہے الگ الگ قومیتی گروہوں کو تسلیم کئے بغیر یورپی جمہوریت کے اصول کا اطلاق ہندوستان پر نہیں ہو سکتا اس لئے مسلمانوں کا یہ مطالبہ جائز ہے کہ ہندوستان کے اندر مسلم انڈیا کا قیام عمل میں لایا جائے۔ برطانوی جمہوری اقدار کو یہاں لاگو کرنا خانہ جنگی کی طرف دھکیلنا ہے گول میز کانفرنس کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا، برطانوی وزیراعظم ہندوستان کے مسئلہ کو بین الاقوامی تسلیم نہیں کرتے شاید وہ نہیں جانتے کہ برطانوی مثالی جمہوریت ایک ایسے ملک میں کارآمد نہیں ہو سکتی جہاں اس قدر اقوام آباد ہوں۔ پھر علامہ اقبالؒ نے کہا کہ میں پنجاب، شمالی مغربی سرحد، صوبہ سندھ اور بلوچستان کو ضم کرکے ایک ریاست کی صورت میں متحد دیکھنا چاہتا ہوں جسے برٹش ایمپائر کے اندر یا اس کے باہر خود اختیاری ہو شمال مغرب میں مسلمانوں کی مذکورہ ریاست مسلمانوں کی آخری منزل لگتی ہے ، قرآن کی زبان میں اپنے آپ کو مضبوطی سے تھامے رہو متحد رہو کوئی غلط کار تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتا بشرطیکہ تمہاری قیادت بہترین ہو وہ قوم آزادی کی جنگ بہتر لڑ سکتی ہے۔ جس کے پاس بہتر سپہ سالار ہو‘‘ علامہ اقبال نے اپنا یہ خطبہ انگریزی زبان میں دیا تھا جس کا ترجمہ اردو میں مولوی محمد یعقوب نے کیا تھا۔
دوسرے روز پھر اجلاس ہوا جس کی صدارت علامہ محمد اقبال نے کی اور ایک گھنٹہ بعد وہ دوران اجلاس ہی اکبر آلہ آبادی کی مرقد پر فاتحہ پڑھنے تشریف لے گئے۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
آج جس عطیم شخصیت کا یوم وفات ہے وہ شاعر مشرق اقبال تھے اتحاد بین المسلمین کے زبردست حامی تھے اور ایک راسخ العقیدہ مسلمان اور رسول اکرمؐ کے سچے شیدائی تھے جن کی جھلک مندرجہ ذیل اشعار میں دکھائی دیتی ہے۔
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
سبق ملا ہے یہ معراج مصطفیٰ سے مجھے
کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ، نئے صبح و شام پیدا کر
میرا طریق امیری نہیں، فقیری ہے
خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر
آج علامہ اقبال کے افکارکی گونج ساری دنیا میں ہے اور آنے والے زمانوں میں بھی رہنمائی کرتی رہے گی ۔