بشارتیں

2019 ,فروری 23



بھارت پاکستان کو ہمیشہ ڈرانے دھمکانے کی کوشش کرتا ہے۔ ہمارے حکمران مصلحتوں کا شکار رہتے تھے مگر لیاقت علی خان کا مکا بھارت کو کبھی نہیں بھولا جس کی یاد وزیراعظم عمران خان نے یہ کہہ کر دلا دی کہ بھارت نے کچھ کیا تو سوچیں گے نہیں‘ جوا بدیں گے۔ کالم تو اسی موضوع پرہونا تھا مگر بشارتیں کالم کا دوسرا حصہ بھی ضروری ہے۔ ملاحظہ کیجئے۔

میاں صاحب نے چھڑی بابا کے گاؤں کو ترجیحاً بجلی پہنچائی اور بے نظیر بھٹو نے ان کے آستانے تک سڑک بنوائی اور ہیلی کاپٹر میں بھی بابا جی کی فرمائش پر جھولا دیا۔وزیر اعظم بننے سے پہلے میاں نواز شریف کی صوفی برکت علی لدھیانوی سے بڑی نیاز مندی تھی۔ غلام مصطفی جتوئی بھی چھڑی بابا کے مرید تھے۔ آخری عمر میں نگراں وزارتِ عظمیٰ مل گئی۔پیر صاحب دھنکہ شریف کا 2008 میں وصال ہو گیا۔ اسلام آباد کے نواحی علاقے چک شہزاد میں ملتانی بابا کے آستانے پر بھی بی بی بہ عقیدت جایا کرتی تھیں۔

18 اکتوبر 2007 کے بعد بی بی نے جب سندھ کا انتخابی دورہ کیا تو ایک تصویر بہت مشہور ہوئی جس میں بی بی قنبر کے حسین شاہ کے سامنے فرش پر بیٹھی تھیں اور حسین شاہ کرسی پر تشریف فرما تھے۔ یہ تصویر بی بی کے تو کام نہ آئی البتہ حسین شاہ کا روحانی سکہ چل نکلا۔ 1980 کی دہائی میں شریف خاندان پر سب سے زیادہ روحانی اثر علامہ طاہر القادری کا تھا۔ میاں محمد شریف بھی جواں سال طاہر القادری کے معتقد تھے اور نواز و شہباز شریف بھی حلقہِ اثر میں تھے۔ ایبٹ آباد کے ایک بزرگ بابا غلام النصیر چلاسی کے پاس ضیا الحق بہ عقیدت حاضری دیتے تھے۔ دیگر عقیدت مندوں میں اعجاز الحق، حمید گل، سردار مہتاب خان عباسی اور سردار فاروق لغاری بھی شامل تھے۔ مولانا فضل الرحمان کو بھی ان سے خاصی عقیدت ہے۔ذوالفقار علی بھٹو کا کوئی مرشد تھا، اس کا کسی کو علم نہیں۔ البتہ بھٹو صاحب شہباز قلندر کے معتقد تھے اور اکثر سیہون شریف حاضری دیتے تھے۔ انھوں نے ہی قلندر اور داتا صاحب کے مزار پر سونے کے پانی والے دروازے لگوائے۔ جب بھٹو صاحب کال کوٹھڑی میں تھے تو ان کی پہلی اہلیہ امیر بیگم ٹرین کی بوگی بھر کے خواتین کے ساتھ سیہون شریف پہنچیں مگر۔۔۔

ہم اعتقاد اور عقیدے کے جس عروج پر ہیں‘ اس کے مظاہر جعلی پیروں کے انسانیت کو شرما دینے والے کرتوتوں سے عیاں ہوتے رہتے ہیں۔بزرگوں ولیوں کی دعائوں میں اثرِ اور کرامات بھی یقیناً منسوب ہیں جو اللہ والوں کی نظرِ عنایت سے اعلیٰ عہدوں تک پہنچتے ہیں۔ بزرگوں کی آشیر باد ان کے ساتھ رہتی ہے۔ خود اندازہ کر لیں ہمارے سیاسی زعما کے انجام کا جو بخیر نہیں ہوا۔ لاہورمیں سنا ہے ایک لاڑا پیر ہے۔ اس کے سامنے دو تین کلو چرس کا ڈھیلا پڑا ہوتا ہے۔ بیک وقت تین سگریٹ بھرے ہوئے سلگا کر کش لگاتا ہے۔ مخبری پر پولیس نے اسے چرس سمیت اٹھا کر ڈالے میں پھینک دیا مگر خلق خدا نے ایک عجیب تماشا دیکھا۔ پولیس کی گاڑی سٹارٹ ہونے میں نہ آئی۔ ایس ایچ او کو اس ’’کرشمے‘‘ کی اطلاع دی گئی۔ وہ آیا لاڑے پیر کو گاڑی سے اتارا تو گاڑی سٹارٹ ہو گئی۔ پھر بٹھایا تو گاڑی کا پھرسلف جواب دے گیا۔ ایس ایچ او لاڑے پیر کے پائوں پڑ گیا۔ اب کسی کی جرأت نہیں لاڑے پیر کی کوئی روک ٹوک کرے۔ لاڑے پیر کو ایل سی ڈی پر نورجہاں کے گانے دیکھنے کا بہت شوق ہے۔ ایک خاتون اولاد سے محروم تھی۔ پیر صاحب نے اس کے ہاتھ پر سگریٹ کا گل جھاڑتے ہوئے کہا اسے کھا لے دو ماہ بعد خاتون کے ہاں بچے کی ولادت ہو گئی؟!ایسی باتیں اور قصے عموماً زیب داستاں بھی ہوتے ہیں۔ کل کی خبر تھی: کراچی میں خزانے کی تلاش میں محسن کی کھدائی کرنے والا پیرنی سمیت گرفتار! پیرنی پہنچی ہوئی ہوگی؟ گرفتار کرنے والے بھسم ہو گئے ہونگے؟؟ آج کی خبر ہے۔ شجاع آباد میں جعلی پیرکے آستانے سے تین خواتین بازیاب۔ غیرت مندوںکی عبرت کیلئے ! نیک لوگوں کے پاس جانا اور ان کی مجالس میں شرکت خیروبرکت کے باعث ہونے میں کوئی شائبہ نہیں مگر ڈھونگیوں کا وجود بھی موجود ہے۔ میجر نذیر کسی چادر پیر کا قصہ بتا رہے تھے، ان کی یونٹ کاجوان دو ماہ کی رخصت گزارنے کے بعد مزید ایک ماہ کی چھٹی کا خواستگار ہوا تھوڑی سی تحقیق سے پتہ چلا کہ وہ چادر والی سرکار کے پاس گیا ، بُکل پوش سرکار کے سامنے 5 کرسیاں رکھی ہوتیں جن کے بارے بتایا جاتا کہ پنجتن پاک آ کے بیٹھتے ہیں۔ فوجی جوان بھی اتفاقاً وہاں گیا تو عقیدت مندوں کے دائرے میں شامل ہو گیا۔ ’’سرکار‘‘ نے اس کی کرسی بھی وہیں رکھوا لی وہ وردی میں وہاں بیٹھتا۔ اس کی تنخواہ سے زیادہ خدمت اورنذرانے بھی گھر پہنچائے جاتے تھے۔ جنرل ضیاء الحق ان دنوں طاقتور فوجی حکمران تھے، مشہور کیا گیا کہ جنرل ضیاء چادر پیر کے مرید ا ور یہ فوجی جنرل ضیاء سے تحفتاً عقیدتاً ا حفاظتاً تعینات کیا ہے۔ دو کزنوں نے بڑی خوشی اور فخر سے آ کر بتایا ’’بھائی جان ہماری شوگر نِل ہو گئی ہے۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے پوچھا کہاں سے ا ور کونسی میڈیسن لی ہے۔ میڈیسن نہیں لی تعویز لیے ہیں، بابا جی نے کہا تھا جو مرضی کھائواور ہم نے کھایا ہے۔ میں نے کہا چلو چیک کراتے ہیں تو انہوں نے کہا بابا جی نے چیک کرانے سے منع کیاتھا البتہ میں انہیں چیک کرانے لے گیا۔ دونوں کی تین سو سے زیادہ شوگر تھی۔ اللہ کی کلام میں اثر ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ نگاہِ مردِ مومن سے تقدیریں بھی بدل جاتی ہیں مگر مردِ مومن دو نمبر نہ ہو تب۔ دو نمبر بابوں کے بارے میں شاعر نے کہا

کچھ لوگ جھاڑ پھونک سے کرنے لگے علاج

اپنا جہل بھی شامل ہے ان کے کمال میں

سب ڈاکٹروں کو کہو چھٹی کریں قتیل

اک پیر ہم بٹھائیں گے ہر اسپتال میں

متعلقہ خبریں