سقوط ڈھاکہ : 16 دسمبر 1971 کی صبح جنر ل نیازی کس حال میں تھے اور کیا کرتے پھر رہے تھے ؟ مجبوریوں کی داستان سناتی ایک اور خبر پڑھیے

2017 ,دسمبر 19



لاہور (مہرماہ رپورٹ): 1954 میں گورنر جنرل غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی توڑی تو مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک اہم سیاست دان نے کراچی میں اخبار نویسوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ نے مشرقی اور مغربی پاکستان کا رشتہ توڑ ڈالا ہے۔غلام محمد نے جنرل ایوب خان کی مدد سے اسمبلی توڑی ہے،نامور صحافی وجاہت مسعود اپنی ایک خصوصی تحریر میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ فوج میں مغربی پاکستان کی اکثریت ہے، اگر فوج کو ریاست کے فیصلے کرنا ہیں تو ہم آپ کے ساتھ کیسے چلیں گے؟ حوالے کے لئے محترم آصف جیلانی اور سلیم عاصمی صاحب سے گواہی لے لیجئے۔ سیاسی آنکھ ربع صدی آگے دیکھتی ہے۔ لان میں اگتی ہوئی گھاس کی آواز سیاستدان کے کان سن سکتے ہیں۔ صاحب زادہ یعقوب علی خان نے میجر صدیق سالک سے کہا تھا کہ میں جنگ لڑنا جانتا ہوں، شیخ مجیب الرحمٰن کا بیان میری سمجھ میں نہیں آتا۔ صاحب زادہ یعقوب علی خان صاحبِ علم کمانڈر تھے۔ وہ سقراط جیسے انکسار سے یہ تسلیم کر رہے تھے کہ عسکری تربیت اور چیز ہے اور سیاسی تربیت مختلف بات ہے۔ ہم نے 1958 میں مارشل لا لگایا تو دراصل 1954 میں کی گئی پیش گوئی کا اگلا مرحلہ مکمل ہوگیا۔ 30 جنوری1971 کو ہاشم اور اشرف بھارتی طیارہ گنگا اغوا کر کے لاہور لائے تو ذوالفقار علی بھٹو نے ایئر پورٹ پر کشمیری حریت پسندوں سے ملاقات کی تھی۔ بھارت نے اپنی زمین پر پاکستانی جہازوں کی پرواز روک دی۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں فاصلہ راتوں رات اڑھائی گنا بڑھ گیا۔ ہمارا صدر سری لنکا کے راستے مغربی پاکستان واپس آتا تھا۔

 مارچ 1971 کو مشرقی پاکستان میں جو فوجی کارروائی شروع ہوئی وہ 1970 کے انتخابات میں مشرقی پاکستان کے لوگوں کی جمہوری رائے کے خلاف کارروائی تھی۔ ہم سیاسی اختلاف طے نہیں کر سکے۔ یحییٰ خان مجیب الرحمٰن سے اپنی صدارت کی ضمانت چاہتے تھے۔ یہ بندوق اور ووٹ کا مقابلہ تھا۔دنیا بھر کے سفارت خانوں میں پاکستان کا موقف کمزور پڑ گیا۔ جنرل رومیل آئزن ہاور، ڈوبلس، پٹین اور مارشل زخوف بھی سپلائی لائین کے بغیر جنگ نہیں لڑ سکتے تھے۔ مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج کے پاس کوئی سپلائی لائین نہیں تھی۔ مغربی پاکستان کے فوجی بنگالی زبان نہیں جانتے تھے۔ زبان جانے بغیر تو ہاکی کا میچ نہیں جیتا جاسکتا، جنگ کیسے جیتی جاسکتی ہے؟ اور ایسی زمین پر جنگ جہاں کا بچہ بچہ فوج کا مخالف ہوچکا تھا۔مشرقی محاذ پر پاکستانی اور بھارتی فوج کی نفری آپ گن لیجئے، ٹینک آپ شمار کر لیجئے۔ ہم صرف یہ یاد دلاتے ہیں کہ ایک ہی فضائی اڈہ تھا اور تین دسمبر کی دوپہر تک یہ اڈہ استعمال کے قابل نہیں رہا تھا۔ ہمارے پاس سیبر طیاروں کا صرف اسکوڈرن تھا جو زمین پر کھڑے کھڑے بے کار ہو گیا۔ ہماری فوج فضائیہ کے بغیر لڑ رہی تھی۔مغربی پاکستان سے بحری جہازوں کے ذریعے کمک پہنچانا ممکن نہیں تھا۔

مشرقی بنگال کی رجمنٹیں بغاوت کر چکی تھیں۔ کرنل عثمانی اور میجر ضیا الرحٰمن تو محض دو نام ہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ اگر مغربی پاکستان کے افسر بنگالی بولنے والے افسروں کے ساتھ اس اعتماد کے ساتھ مشاورت نہیں کرسکتے تھے کہ یہ ہمارے ملک کے فوجی ہیں، اعتماد کی یہ کڑی ٹوٹنا ہماری فوجی شکست کا پیش خیمہ تھا۔ میدانوں سے آنے والے مغربی پاکستانی ندی نالوں کی زمین بنگال میں کیسے لڑتے۔ کراچی جیسے شہر میں باقاعدہ فورس کے لئے گلی کوچوں میں لڑنا مشکل ہوجاتا ہے۔ آپ صرف یہ اعداد و شمار دیکھ لیں کہ مشرقی پاکستان ایک فوجی جوان کو کتنے رقبے کی حفاظت کرنی تھی۔سب سے اہم بات یہ کہ گولی چلانے والے کو اپنے مقصد پر یقین ہونا چاہئے۔ ہم نے مشرقی پاکستان میں اپنا سیاسی ضمیر کھو دیا تھا۔ ہمارا فوجی جوان اپنے کمانڈر کی اطاعت کرتا تھا۔ ہمارا کمانڈر تربیت یافتہ اور بہادر جوان تھا۔ بہادری کے پیچھے اپنے مقصد پر یقین بھی ہونا چاہئے۔ ڈھاکہ گیریژن کے کمانڈر میجر جنرل خادم حسین کی کتاب “اپنے دیس میں اجنبی” پڑھنی چاہیے۔ ظہیر الحسن کی کتاب ”مشرقی پاکستان کی علیحدگی“ پڑھ لیجئے۔ صدیق سالک کی کتاب ”میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا“ پڑھ لیجئے۔ ہم نے ڈبلیو جی چوہدری کی کتاب تجویز نہیں کی، کسی بھارتی مصنف کی کتاب تجویز نہیں کی، ذوالفقار علی بھٹو کی کتاب ”عظیم المیہ“ بھی تجویز نہیں کی۔ دوبارہ یاد کیجئے کہ دنیا کے کتنے سفارت خانوں میں پاکستان کے سفارت خانوں کو بنگلہ دیش قرار دے دیا گیا تھا۔ دوبارہ یاد کیجئے کہ لیفٹننٹ جنرل رحیم اور لیفٹننٹ جنرل امیر عبداللہ میں سولہ دسمبر کی صبح کیا مکالمہ ہوا تھا۔ زخمی جرنیل کو بتایا جاتا ہے کہ بھارتی جنرل ناگرہ میر پور پل پر آن بیٹھا ہے اور اس نے پیغام لکھ بھیجا ہے کہ پیارے عبداللہ میں یہاں پہنچ گیا ہوں اپنے فوجی افسر بھیج دو۔ جنرل رحیم پوچھتے ہیں لڑنے کے لئے کچھ ریزرو فورس ہے، امیر عبد اللہ نفی میں سر ہلاتے ہیں۔ جنرل رحیم کہتے ہیں کہ پھر جاؤ جو وہ کہتا ہے کرو۔ یہ سولہ دسمبر 1971 تھا۔

متعلقہ خبریں