چولستان،بہاولپور

2018 ,اپریل 5



چولستان ہماری ثقافتی اور تہذیبی روایات کا عکاس ہونے کی بدولت نہ صرف ملکی بلکہ غیر ملکی سیاحوں کے لیے بھی کشش کا باعث ہے یہاں کی روایتی زندگی کا اپنا حسن ہے جس کا تذکرہ یہاں کی لوک کہانیوں میں پایا جاتا ہے۔ صحرا کا حدود اربعہ اور رہن سہن حالات او روقت کے ساتھ تبدیل ہوتا رہا ہے۔ کبھی یہاں پر پانی اور خوبصورتی بھی نظر آتی تھی۔ لیکن اب ہر طرف ریت کے ذرے بکھرے نظر آتے ہیں۔ چار ہزار سال قبل یہاںکبھی دریائے سرسوتی ٹھاٹھیں مارتا ہوا گزرتا تھا۔ ریت اور صحرائی ماحول میں یہ دریا کبھی صحرا کی شان دکھائی دیتا تھا لیکن اس کا خشک ہو جانا صدیوں پرانی بات بن کر رہ گئی۔اس کے علاوہ تاریخی حوالوں سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ کبھی یہاں دریاے ھاکڑہ کی لہریں بھی موجزن تھیں اور یہ سندھ اور ہند کے درمیان حد فاضل کا کام دیا کرتی تھیں یہ دریا جیسلمیر اور بیکانیر کی ریاستوں کو بھی جدا کرتا تھا اگرچہ اس دریا کا رخ تبدیل ہوگیا لیکن گم گشتہ تاریخ کے نشانات اب بھی موجود ہیں۔ چولستان کے صحرا نے ہر چیز کو ویرانی میں تبدیل کر دیا ہے یہاں کے لوگ ان تبدیلیوں سے کبھی بھی متاثر نہیں ہوئے اور نہ ہی انہوں نے اپنے طرز زندگی کو تبدیل کیا بلکہ جدوجہد کو اپنا شعار بنالیا ہے انہوں نے زندگی کو اجیرن بنا دینے والی ان تبدیلیوں کے سامنے نہ تو ہتھیار ڈالے اور نہ ہی اپنی جنم بھومی کو کبھی خیر باد کہا۔ چولستان کو تھل روہی اور چولستان کہا جاتا ہے یہ مشہور ریگستان جس کا رقبہ سولہ ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ بہاولپور سے تیس کلو میٹر دور ہے یہ صحرا آگے چل کر تھر کے ریگستان سے مل جاتا ہے۔


چولستان کی وجہ تسمیہ کے بارے میں مختلف روائتیں ملتی ہیں کیونکہ یہ خطہ زمین مغرب میں تھر اور جنوب مشرق راجپوتا نے کے وسیع صحرا کے درمیان واقع ہے۔ کسی زمانے میں اسے چولن بھی کہا جاتا تھا۔ تندو تیز آندھیاں ریت کے متحرک ٹیلوں کو ایک جگہ سے اڑ ا کر دوسری جگہ لے جاتی تھیں۔ اکھاڑ پچھاڑ کے اس عمل کو چولن کہا جاتا ہے او رپھر یہ نام چولن سے چولستان بن گیا۔
چولستان کا کل رقبہ دس ہزار تین سو ننانوے مربع میل مشرق و مغرب کی طرف پھیلا ہوا ہے۔ بہاولپور بہاول نگر اور رحیم یار خان پر مشتمل رقبہ دو ہزار پانچ سو پچپن مربع میل ہے۔ چولستان میں پچاس ہزار سے زائد لوگ خانہ بدوش کی زندگی بسر کر رہے ہیں ان لوگوں کی زندگی چل چلاو¿ کی مانند ہوتی ہے او رکبھی کسی جگہ کو اپنا مسکن نہیں بناتے۔ خواجہ غلام فریدنے چولستان کو نخرے کرنے والی جٹیوں کا مسکن کہہ کر پکارا ہے۔ یہاں کے لوگوں کو خوراک اور جانوروں کے لیے گھاس پانی کی تلاش کے لیے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے بارش یہاں قدرت کاانمول تحفہ بن کر آتی ہے۔ لوگ پانی کی تلاش میں تھکا دینے والے لمحات سے گزرتے ہیں۔ فروری اور جولائی کے درمیان لوگ پانی کی تلاش کے لیے ٹوبوں (جوہڑوں ) کا رخ کرتے ہیں۔


یہاں سے قیمتی اشیاءزیور او ر منکے بھی دریافت ہوئے ہیں جنہیں دھاگے میں پرو کر یہ لوگ اپنے گلے میں ڈال لیتے ہیں یہ زیور اور منکے چولستانی لوگوں کو بہت بھاتے ہیں۔ جو بیضوی اور تکونی شکل کے ہوتے ہیں۔ چولستانیوں کی زندگی بظاہر تھکا دینے والی ہے مگر وہ اس زندگی سے بیزار نہیںبلکہ اسے ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ بادلوں کی آمد کو اچھا شکون مانتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ ہوا ان بادلوں کو اڑا کر نہ لے جائیں۔ آندھی او رہوا سے قافلے راستہ بھٹک جاتے ہیں۔ صحرائی بگولے بڑے خوف ناک ہوتے ہیں۔ قافلے والے ان پھیلے ہوئے خوفناک بگولوں کے قریب بھی نہیں جاتے۔ صحرائی آندھی کا منظر بڑا خوفناک ہوتا ہے یہ بگولے سرخی مائل اور بھورے رنگ کے ہوتے ہیں۔


چولستان میں آنے کے بعد انسان شوروغل کی دنیا سے کٹ جاتا ہے یہاں پر ایک گہرے سکوت کا احساس ہوتاہے جولائی سے ستمبر تک تین مہنیے بارش جاری رہتی ہے۔ وقت جیسے جیسے ان مہینوں سے دور چلا جاتا ہے صحرا کا چہرہ اسی تناسب سے اداس اور بے چین دکھائی دینے لگتاہے بارش کے بعد خود رو پھول اور صحرائی جھاڑیاں توانا ہو کر ہر طرف پھیل جاتی ہیں۔ چولستان کی ایک اپنی ہی نرالی اور اچھوتی دنیا ہے۔ ایسی دنیا جو دل کی اجڑی ہوئی بستی کو آباد کر دیتی ہے اور روح کے سوتے ہوئے تاروں کو چھیڑ دیتی ہے۔چولستان میں چاندنی راتوں کے نظارے بہت دیدنی ہوتے ہیں یوں لگتا ہے جیسے انسان کے چاروں طرف نور کا ایک جہان بکھرا ہو۔
غروب آفتاب کا منظر ایسے لگتا ہے جیسے صحرا آنکھیں بند کر رہا ہے۔ حضرت خواجہ غلام فرید نے اپنی زندگی کے اٹھارہ سال اس صحرا میں گزارے انہوں نے چولستان کی زندگی کا بڑی گہرائی سے مطالعہ کیا اور لوگوں کے رہن سہن، رسم ورواج، اور احساسات نیز چولستان کے مناظر کو اپنی شاعری کے خوب صورت الفاظ میں ڈھال دیا یہاں کا حسن یہاں کے لوگوں کے دلوں کی سچائیوں او ر حقیقتوں کی مانند عیاں ہے انسانوں کے علاوہ یہاں کے جانور وں اور پرندوں کا حسن بھی چولستان کی دلکشی کا باعث ہے جن میں نایاب کالا ہرن، چنکارہ، چرگ، تیتر، تلور، بھٹ تیتر، مرغابی، نیل گائے، شکرا اور خرگوش پائے جاتے ہیں۔
چولستان میں نمی کی وجہ سے نگاہ دور دور تک نظارہ کر سکتی ہے یہاں ایک مشہور قلعہ دراوڑ بھی ہے جس میں تاریخ کے بیش قیمت آثار بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔

متعلقہ خبریں