یہ یورپین طرز تعمیر کی شاہکار عمارت 1865ءمیں وڈا سٹریٹ پر تعمیر ہوئی تھی۔ کراچی کی تجارتی سرگرمیوں کو پروان چڑھانے کے لیے یہاں چیمبر آف کامرس کا قیام عمل میں آیا تھا۔ تقسیم سے قبل یہ عمارت سندھ اور کراچی کی تجارتی سرگرمیوں کا مرکز تھی۔ کراچی کے تمام بڑے تاجر اور صنعت کار چیمبر آف کامرس کے ممبر تھے۔ یہ عمارت سرخ جودھپوری پتھر سے تعمیر کی ہوئی ہے اس میں ایک وسیع خوبصورت ہال ہے جس میں ممبران کا اجلاس منعقد ہوتا تھا اس کا فرش خوبصورت سنگ مر مر سے مزین ہے اس عمارت کو دیکھ کر لندن کی کسی خوبصورت عمارت کا گمان ہوتا ہے۔قیام پاکستان کے بعد کراچی چیمبر آف کامرس کا دفتر انڈین مرچنٹ ایسوسی ایشن کی عمارت میں منتقل ہوگیا ہے اور اب اس عمارت میں ایک پرائیویٹ کمپنی کا دفتر قائم ہے۔ میری ویدر ٹاور
یہ ٹاور آئی آئی چند ریگر روڈ اور ایم اے جناح روڈ کے سنگم پر کراچی خشک گودی کے سامنے واقع ہے اس ٹاور کو ایک سابق ہر دلعزیز کمشنر سندھ مسٹر ولیم میری ویدر کی یاد میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اس عمارت کا سنگ بنیاد 1884ءمیں گورنر بمبئی مسٹر جمیز فرگوس نے رکھا تھا۔ اس کی تعمیر 1882ءمیںمکمل ہوئی تھی۔ اس کا افتتاح اس وقت کے کمشنر سندھ مسٹر ایوان جمیز نے کیا تھا اس کی تعمیر کے لیے مسٹر میری ویدر کے مداحوں نے رقم فراہم کی تھی اس کی تعمیر پر 37178ءروپے خرچ ہوئے تھے یہ مخروطی ٹاور جو زمین سے 102فٹ اونچا ہے جو دھپوری پتھر کا بنا ہوا ہے اس کے چاروں کونوں پر ملکہ وکٹوریہ کی شبہہ نقش ہے اس پر مسٹر میری ویدر کا نام بھی کندہ ہے اس پر 70فٹ کی اونچائی پر ایک چار رخی گھڑی آویزاں ہے اس کے اوپر چاروں طرف صہیونی طرز کے تار ے بھی کندہ ہیں مگر یہ محض نقش و نگاری کا شاہکار ہے ان کا یہودیوں کے مخصوص تارے سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ وکٹوریہ میوزیم بلڈنگ
یہ عالی شان عمارت یورپی طرز تعمیر کا شاندار شاہکار ہے یہ سو سال سے زیادہ پرانی ہونے کے باوجود اب بھی دلکش اور پائیدار ہے اس کی تعمیر 1887ءمیں شروع ہوئی اور 1892ءمیں یہ عمارت مکمل طور پر تعمیر ہوچکی تھی اس کا سنگ بنیاد ڈیوک آف کناٹ نے رکھا تھا۔ اس عمارت کا افتتاح 21مئی 1892ءکو ہوا تھا جن علاقوں پر آج پاکستان مشتمل ہے ان تمام میں یہ تعمیر ہونے والا پہلا میوزیم تھا آزادی کے بعد اسے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے وقف کر دیا تھا۔ ایمپرس مارکیٹ
1839ءمیں کراچی پر قبضہ کرنے والی برطانوی افواج کے سپاہیوں کے لیے کمیپ کے علاقے میں خریدو فروخت کے لیے جس بازار کی ابتدا کی گئی تھی وہ حیرت انگیز طو رپر ترقی کرکے بہت جلد پورے شہر میں کیمپ بازار کے نام سے مشہور ہوگیا اور شہر کے دور دراز محلوں کے لوگ یہاں خرید فروخت کے لیے آنے لگے۔ کراچی کی انگریز انتظامیہ نے اس بازار کی عوام میں مقبولیت کو دیکھتے ہوئے یہاں ایک عظیم الشان مارکیٹ تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا اس مجوزہ مارکیٹ کا ڈیزائن کراچی کے مشہور انجینئر مسٹر جمیز اسٹریچن نے تیار کیا۔ 10نومبر 1884ءکو اس مجوزہ عمارت کا سنگ بنیاد گورنر بمبئی سر جمیز فرگوسن نے رکھا اور مسٹر جمیز اسٹریچن کی نگرانی میں اس کی تعمیر کا کام شروع ہوگیا۔اس عمارت کی تعمیر کا ٹھیکہ تین کنٹریکٹرز کو دیا گیا تھا جن کے نام مسٹر جے ایس ایٹ فلیڈ، مسٹر ولی محمد جیون اور مسٹر ڈلو کیجو تھے اس کی تعمیر پر ایک لاکھ 55ہزار روپے سے زائد رقم خرچ ہوئی تھی۔ اس کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد 21مارچ1889ءکو ایک رنگا رنگ تقریب میں کمشنر سندھ مسٹر پرچر ڈ نے اس کا افتتاح کیا تھا اور چونکہ اس سال ملکہ ءوکٹوریہ کی سلور جوبلی منائی جا رہی تھی چنانچہ اس کی مناسبت سے اس کا نام ایمپریس مارکیٹ رکھا گیا تھا۔ اس کے افتتاح کے بعد کئی بر س تک یہاں مقامی لوگوں کو خرید و فروخت کی اجازت نہیں تھی۔ یہ عمارت یورپین طرز تعمیر کا بہترین نمونہ ہے اسے جو دھپوری سرخ پتھر سے تعمیر کیا گیا ہے اس کے ٹاور کی اونچائی 140فٹ ہے اس مارکیٹ میں چار گیلریاں ہیں درمیان میں 130فٹ لمبا 100فٹ کھلا صحن ہے اس مارکیٹ میں 280اسٹالز کی جگہ ہے جہاں پھل گوشت اور سبزیاں فروخت ہوتی ہیں۔ یہ عمارت اب سو سال سے زیادہ عرصہ گذر جانے کے بعد بھی اپنی خوبصورتی اور پختگی کے اعتبار سے بے مثال ہے یہ عمارت اپنی ابتداءہی سے کراچی کی شناخت بنی ہوئی ہے۔ واضح ہو کہ ایمپرس مارکیٹ کی تعمیر سے قبل خاص اس جگہ پر 1857ءمیں انگریزوں کے خلاف بغاوت میںحصہ لینے والے اکیسویں رجمنٹ کے مقامی سپاہیوں کو نعرہ آزادی بلند کرنے کی پاداش میں گولیوں سے شہید کر دیا گیا تھا۔ خالق دینا ہال
خالق دینا ہال برصغیر کی وہ واحد عمارت ہے جسے خلافت تحریک کے حوالے سے نمایاں تاریخی اہمیت حاصل ہے جس جگہ آج خالق دینا ہال واقع ہے وہاں 1906ءسے قبل نیٹو جنرل لائبریری کی چھوٹی سی عمارت واقع تھی یہ کراچی کی پہلی عوامی لائبریری تھی جسے کمشنر سندھ سر بارٹلے فرئیر نے قائم کیا تھا اس وقت جب یہ چھوٹی سی لائبریری اپنی زندگی کے پچاس سال مکمل کرچکی تھی کراچی کی ایک ممتاز اور مخیر شخصیت سیٹھ غلام حسین خالق دینا نے اس کے لیے اپنے انتقال سے قبل اپنے وصیت نامے میں 18ہزار روپے کی رقم اس شرط پر مختص کی تھی کہ اس رقم سے لائبریری کی پرانی عمارت کی جگہ ایک نئی وسیع اور شاندار عمارت تعمیر کی جائے لائبریری سے ملحق ایک پبلک ہال بھی تعمیر کرایا جائے جو لائبریری کی ملکیت ہو اس ہال کو کرائے پر چلا کر اس کی آمدنی سے لائبریری کا انتظام موثر طریقے سے چلایا جائے نیز نئے تعمیر شدہ ہال کو ان کے نام سے منسوب کیا جائے۔ غلام حسین دینا کی وصیت کے مطابق نئی عمارات کو تعمیر کرانے کے لیے مزید قطعہ اراضی کی ضرورت تھی چنانچہ نگران کمیٹی نے حکومت بمبئی سے مزید زمین مہیا کرنے کے لیے درخواست کی جسے 11فروری 1902ءکو منظور کر لیاگیا۔ اس کے تحت پہلے سے موجود اراضی 2289مربع گز میں مزید 2522مربع گز کا ملحقہ قطعہ بھی شامل کرنے کا اجازت نامہ جاری کر دیا گیا۔ وصیت کے مطابق عمارت کے تعمیر کے سلسلے میں ایک یہ بھی مشکل تھی کہ غلام حسین خالق دینا کی عطیہ کی ہوئی اٹھارہ ہزار روپے کی رقم قطعی ناکافی تھی چنانچہ نگران کمیٹی نے کراچی میونسپلٹی سے مالی امداد کی درخواست کی۔ کراچی میونسپلٹی نے کچھ پس و بیش کے بعد اس درخواست کو منظور کرکے سولہ ہزار روپے کی رقم فراہم کر دی۔ 1905میں خالق دینا ہال کی تعمیر کا کام شروع ہوگیا اور 1906ءمیں یہ عمارت تیار ہوچکی تھی اس نئی عمارت کی تعمیر پر 38ہزار روپے خرچ ہوئے تھے اس خوبصورت عمارت میں ایک 70فٹ لمبے اور 40فٹ چوڑے ہال کے علاوہ لائبریری کے لیے د و کمرے بھی تعمیر کیے گئے تھے۔ 16جولائی 1906ءکو اس وقت کے کمشنر سندھ مسٹر ہینگ ہسبینڈ نے اس عمارت کا افتتاح کیا تھا۔ تعمیر کے بعد اس کا ہال کراچی کی مختلف سماجی اور سیاسی تقریبات کے لیے استعمال ہوتا رہا مگر ستمبر 1921ءمیں جس اس ہال میں مولانا محمد علی جوہر اور ان کے رفقاءپر بغاوت کا مقدمہ چلایا گیا تو اس عمارت کو لازوال تاریخی اہمیت حاصل ہوگئی اور برصغیر کا بچہ بچہ اس سے واقف ہوگیا۔ خلافت تحریک کے مناسبت سے اس عمارت کے ہال کے باہر ایک کتبہ آویزاں ہے جس پر مندرجہ ذیل تاریخی عبارت کندہ ہے۔ 09جولائی 1921ءکو تحریک خلافت کے جلسے میں مولانا محمد جوہر نے ایک قرار داد منظور کرائی کہ افواج برطانیہ میں مسلمانوں کی بھرتی خلاف شرع ہے اس جرم میں مولانا اور ان کے رفقاءپر حکومت برطانیہ نے بغاوت کا مقدمہ اسی عمارت میں چلایا تھا مگر مقدمے کی پوری کاروائی کے دوران مولانا کا موقف یہ رہا ہم کو خود شوق شہادت ہے گواہی کیسی فیصلہ کر بھی چکو مجرم اقراری کا اس مقدمے کے فوراً بعد ایک جعلی تنازعے کے ذریعے انگریز حکومت نے اس ہال اور لائبریری کی زمین کو کراچی میونسپلٹی سے منسلک کر دیا تھا۔ س کے نتیجے میں ہال کی آمدنی کراچی میونسپلٹی کو جانے لگی۔ تاہم میونسپلٹی کو پابند کر دیا گیا کہ وہ ہال اور لائبریری کے لیے باقاعدگی سے سالانہ امداد فراہم کرکے او رعمارت کی دیکھ بھال اور ٹوٹ پھوٹ کا خیال رکھے۔ چنانچہ کراچی میونسپل کارپوریشن اس ہال اور لائبریری سے متعلق اپنی ذمہ داریوں کو نہایت احسن طریقے سے انجام دیتی رہی۔ تحریک پاکستان کے دنوں میں اس عمارت میں کئی اہم سیاسی اجلاس منعقد ہوتے رہے دراصل یہ عمارات خلافت تحریک کے بعد تحریک پاکستان کا مرکز بن گئی اور اس طرح مسلمانان کراچی پراس عمارت کا قرض پہلے سے سوا گناہوگیا تھا مگر افسوس کہ قیام پاکستان کے بعد اس قرض چکانے کی بجائے اس کی وہ بے قدر ی ہو رہی ہے کہ اس تاریخی عمارت کا وجود ہی خطرے میں پڑتا نظر آرہا ہے۔ وکٹوریہ گارڈن
یہ برطانوی دور میں لگایا جانے والا سب سے پہلا باغ تھا یہ باغ اس تاریخی جگہ پر لگایا گیاتھا جہاں 1799ءمیں ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنی فیکٹری قائم کی تھی چونکہ یہ فیکٹری مملکت سندھ کے خلاف خفیہ سرگرمیوں میں ملوث تھی۔ چنانچہ کچھ عرصہ بعد ہی اسے تالپور حکمرانوں کے حکم سے بند کر دیا گیا تھا اس فیکٹری کی عمارت 1838ءتک لیاری ندی کے کنارے آثار موجود تھے۔ کمانڈر کاریس کے نقشے میں اس فیکٹری کی جگہ کی نشاندہی کی گئی تھی۔ کراچی میں برطانوی قبضے کے بعد 1840میں ٹھیک اسی مقام پر ایک باغ لگایا گیا تھا یہ ایک وسیع و عریض باغ تھا جس میں ابتداءمیں سبزیاں اگائی جاتی تھیں جو کراچی میں مقیم برطانوی فوجیوں کو فراہم کی جاتی تھیں۔ بعد میں اسی باغ کی زمین کو مزید زرخیز بنانے کے لیے یہاںلیاری ندی سے مٹی لا کر بچھائی گئی تھی۔ میجر بلیکنس اس باغ کی دیکھ بھال کے انچارج تھے۔ صرف دو سال کے عرصے میں یعنی 1845ءتا 1847ءمیں اس باغ سے سبزیاں سپلائی کرنے سے سترہ ہزار روپے سے زیادہ کا منافع ہوا تھا مگر بعد میں یہ باغ سبزیاں اگانے کے لیے موزوں نہ رہا چنانچہ 1860ِءمیں کراچی میونسپلٹی کو یہاں ایک مکمل عوامی باغ لگانے کا کام سونپ دیا گیا۔ 1878ءمیں اسے ٹریڈ سینٹر کی ایک کمپنی کے حوالے کر دیا گیا اور 1884ءمیں اسے میونسپل گارڈن کمیٹی کے حوالے کر دیا گیا۔ اس کمیٹی کے سربراہ محکمہ ٹیلی گراف کے مسٹر بی ٹی فرنچ تھے اس کمیٹی کے ممبران کے نام اس طرح تھے۔ جناب حسن علی آفندی، دیا رام جیٹھ مل، پٹس جی بہرام جی، مسٹر جے اسٹرپ کرنل وال کاٹ اور مسٹر بروڈ۔ ان حضرات نے اس باغ کو ترقی دینے کے لیے کئی ایک منصوبے تیار کیے جن کے نتیجے میں کچھ ہی دنوں میں یہ باغ یورپی طرز کے پھولوں اور دنیا کے مختلف علاقوں سے لائے گئے ہمہ اقسام پودوں سے مزین ہوگیا۔ 1886ءتک یہ ایک نہایت خوبصورت باغ بن چکا تھا۔ چونکہ اس وقت یہ باغ شہر سے باہر تھا چنانچہ انگریز حکام اپنی تعطیلات اور شام کے اوقات اس باغ میں گزارنے لگے یہاں آنے والے بعض افراد شکار کے بھی شوقین تھے چنانچہ انہوں نے اس باغ کو مزید پرکشش بنانے کے لیے مختلف مقامات سے پکڑنے گئے اپنے جنگلی جانوروں کو یہاں لا کر چھوڑنا شروع کر دیا۔ جب یہاں اس قسم کے جانوروں کی تعداد کافی بڑھ گئی تو ان کی دیکھ بھال کی ذمہ داری باغ کی انتظامیہ کے سپرد کر دی گئی۔ 1890ءتک اس باغ میں 293مختلف جنگلی جانور اور 465پرندے لائے جاچکے تھے۔ بعد میں ان کو دیکھنے کے لیے عوام کو اس باغ میں داخلے کی اجازت دے دی گئی۔ کمشنر سندھ سر ایوان جمیز نے اس باغ کی ترقی میں زبردست دلچسپی لی اور ان کے حکم سے 1893ءمیں یہاں کیلی فورنیا سے انگور کی بیلیں لا کر لگائی گئی تھی۔ 1921ءمیں اس باغ کی انتظامیہ ایک کلرک، ایک چپڑاسی اور تین مالیوں پر مشتمل تھی۔ 1934ءسے قبل اس باغ کا نام وکٹوریہ گارڈن تھا۔ مگر جب جولائی 1934ءمیں مہاتما گاندھی کراچی کے دور پر آئے تو ان کے اعزاز میں کراچی میونسپل کارپوریشن کی جانب سے اس باغ میں ایک استقبالیہ دیا گیا اور اس تقریب میں اس کا نام وکٹوریہ گارڈن سے بدل کر مہاتما گاندھی گارڈن رکھنے کا اعلان کیا گیا۔ قیام پاکستان کے بعد اس باغ اور یہاں کے چڑیا گھر کو جدید خطوط پر ترقی دی گئی جس کے نتیجے میں اب اس کا شمار دنیا کے بڑے بڑے چڑیا گھروں میں ہوتا ہے۔
فرئیر گارڈن
اس باغ کو فرئیر ہال کی تعمیر کے کافی عرصے بعد لگایا گیا تھا قیام پاکستان سے قبل یہ کراچی کا خوبصورت ترین باغ تھا اس باغ میں میں مقامی لوگوں کے علاوہ انگریز بھی تفریح کے لیے آتے تھے۔ اس باغ کو 1887ءمیں مسٹر بنجمن فرنچ نے لگوایا تھا اس کی دیکھ بھال کی ذمہ داری کراچی میونسپلٹی کی تھی۔ یہاں ہر قسم کے پھولوں کے پودے تھے اس باغ نے فرئیر ہال کی خوبصورتی میں چار چاند لگا دیئے تھے اس باغ کے وسط میں ایک خوبصورت فوارہ ہے اس فوارے سے ملحق پہلے ملکہ وکٹوریہ کا مجسمہ نصب تھا جسے قیام پاکستان کے بعد ہٹا دیا گیا اس باغ کا شمار آج بھی کراچی کے خوبصورت باغوں میں ہوتا ہے۔ (جاری ہے)